سویڈن کی سیاست میں پاکستانیت کا رنگ

یورپ کے کٹھن معاشی حالات اور روس کے جنگی خوف کے سائے میں جہاں یورپ بھر میں ہلچل برپا ہے وہیں سویڈن میں عام انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ یوں تو ہر چار سال بعد سویڈن میں انتخابات ہوتے ہیں مگر اس بار سویڈن کی سیاست میں کچھ نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ سویڈن جہاں دنیا بھر میں ایک آزاد ، خودمختا ر اور ترقی یافتہ معاشرےکے طور پر جانا جاتا تھا اب وہیں دنیا بھر میں سویڈن کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

گزشتہ سال سویڈن کے ایک تحقیقاتی ادارے بروتسفر بیگاندے رودت نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد اور گینگ وار جرائم میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد سویڈن میں یورپ کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہے، دوسری جانب دنیا بھر کے میڈیا میں یہ بات بھی اچھالی گئی کہ سویڈن کی سوشل سروسز غیرملکی نژادبچوں کواپنی تحویل میں فقط اس لئے بھی لےلیتی ہے کہ والدین نے اپنے بچوں کو کسی بات پر ڈانٹ ڈپٹ کی ہو، اور پھر سویڈن ایک عالمی مسئلہ کا دوچار یوں بھی رہا کہ رواں برس سویڈن بھر میں قرآن سوزی کےواقعات رونما ہوئے۔

مذکورہ ہر معاملے میں ایک پہلو بہت اہم رہا کہ سویڈن میں تمام تر معاشرتی برائیوں کا زمہ دارغیرملکیوں کو ٹھرایا گیا، جرائم کی بات کی جائے تو قتل و غارت گری ہو یا ہنگامہ آرائی یا پھر ہو بچوں کے ساتھ والدین کا ناروا سلوک ہر معاملے کا زمہ دار غیر ملکی ہی ٹھرا۔یہ تمام تر تعصب پسندی جہاں سویڈن میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور امتیازی سلوک کی طرف اشارہ کرتی ہے وہیں سویڈن میں ایک مہاجرین مخالف سیاسی جماعت سویڈن ڈیموکریٹس کا تیسری بڑی جماعت کے طور پر ابھرنا اس بات کی تصدیق کردیتا ہے کہ سویڈش معاشرے میں غیر ملکیوں کے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔مہاجرین اور غیرملکی نژاد سویڈش شہریوں کے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیشِ نظرسویڈن میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی تشکیل عمل میں لائی گئی جو اقلیتوں کی نمائندہ جماعت بن کر ابھر رہی ہے، سیاسی جماعت جو پارٹیت نیانس کے نام سے جانی جاتی ہےاور اپنے منفرد منشور کی وجہ سے جہاں سویڈن کی دیگر اقلیتوں میں مقبولیت رکھتی ہے وہیں پاکستانی کمیونٹی بھی اس جماعت کی بھرپوری حامی ہے۔

سویڈن میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے کبھی مقامی سیاست میں اس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا جیسا حالیہ انتخابات میں دیکھا جارہا ہے، اس کی وجہ جہاں غیر ملکیوں کے بڑھتے ہوئے مسائل ہیں وہیں متحرک سماجی شخصیت زبیر حسین کابطور امیدوارسیاست میں حصہ لینا بھی ہے۔ سویڈن میں مقیم پاکستانی حلقوں کا کہنا ہے کہ زبیر حسین کی کاوشوں نے کمیونٹی کو مقامی سیاست میں دلچسپی لینے میں اہم کردار ادا کیا۔ شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے زبیر حسین سے ہمارے ادارے نے ان کی اس جدوجہد کے حوالے سے رابطہ کیا تو کچھ ایسے پہلو سامنے آئے جس پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔

کراچی کےعلاقے لیاری میں ایک مزدور کےگھرآنکھ کھولی ، ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچپن سے ہی محنت مزدوری اور یہاں تک کے مشکل حالات میں سڑکوں پر چپس فروخت کرکے کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز اور دادابھائی یونیورسٹی سے ایم بی اے کا امتحان پاس کیا جس کی بدولت پاکستان کے بینکنگ سیکٹر میں جگہ بنائی، ایم بی اے میں کی جانے والی ان کی ریسرچ کو جرمنی کے ایک جریدے میں بطور کتاب شائع کیا گیااور یوں انہوں نے بطور لکھاری اپنے کیئریر کا آغاز کیا، بطور مصنف زبیر حسین کی تین بڑی تصنیفات جرمنی میں شائع ہوئیں۔ زبیر حسین کی تحاریرمیں ہمیشہ سیاسی و سماجی مسائل کا پہلو نمایاں رہا اور اس کی بڑی وجہ ان کا سماجی کارکن کے طور پر معاشرے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرنا تھا۔

کراچی میں برٹش کونسل کے ایکٹیو سٹیزن پراجیکٹ میں حصہ لیا اور یوں باقاعدہ سماجی خدمات کا سلسلہ شروع کیا۔ کراچی کے علاقے لیاری ٹاؤن میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک سماجی ادارے لیارینز یوتھ ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس کی کاوشیں آج بھی جاری ہیں۔ پی ایچ ڈی کے لئے ترکی کے شہر استنبول کا رخ کیا اور وہاں بھی باب عالم نامی ادارے کے ساتھ طلباء کی فلاح و بہبود کے لئے خدمات انجام دیتے رہے ۔محنت اور جدوجہد کے سفر کو جاری رکھتے ہوئےسویڈن میں ہجرت کی جہاں وطنِ عزیز کا مثبت چہرہ ہر سطح پر متعارف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ سویڈن میں پاکستان پروموشن نیٹ ورک یورپ کے نام سے ادارے کا قیام کیا جس کے ذریعے سویڈن میں ثقافتی میلے ہوں یا موسیقی ، تھیٹر ہو یا پاکستانی فلم انڈسٹری، پاکستانی مصنوعات کی برآمدات ہوں یا ورچیول نمائش، کمیونٹی مسائل ہو یا مسئلہ کشمیر یا پھر مسئلہ فلسطین ، سویڈن کے بے گھر افراد کے لئے مفت گرم کپڑے یا پھر کھانا ہر پلیٹ فارم پر پاکستانیت کا پرچار کیا۔ناصرف سویڈن یا یورپ میں پاکستان کامثبت چہرہ متعارف کروانے میں ان کے ادارے نے کردار ادا کیا بلکہ پاکستان میں پہلے اسکینڈے نیویائی طرزِ تعلیم کے ادارے کا قیام بھی انہی کے ادارے کی کاوشوں میں شامل ہے۔مالمو انٹرنیشنل اسکول کےنام سے کراچی میں اسکینڈے نیویائی طرزِ تعلیم کے ادارے کی بنیاد رکھی گئی جہاں ضرورت اور قابلیت کی بنیاد پر بچوں کو اسکالرشپز کے ذریعے تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔ شہرِ کراچی کی سڑکوں کو خوبصورت بنانے کے لئے بھی پاکستان پروموشن نیٹ ورک یورپ نے اپنا کردار ادا کیا ، شہر بھر کی اہم شاہراہوں پر علی سدپارا، مہدی حسن، جون ایلیا سمیت مشہور شخصیات کے پورٹریٹ ڈزائن کروا کر نا صرف ان لیجنڈز کو خراجِ تحسین پیش کیا بلکہ شہر کی رونقیں بحال کرنے میں اہم کردار بھی ادا کیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سویڈن میں بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند دوستوں کی مشاورت سے سویڈن کی سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ کیا۔بوسنیا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سمیر گوزیچ نے انہیں پارٹیت نیانس کی تشکیل کے حوالے سے معلومات فراہم کیں اور مذکورہ سیاسی جماعت میں شمولیت کے لئے پارٹیت قیادت سے روابط قائم کروائے اور یوں سیاست کے میدان میں قدم رکھا اورآئندہ انتخابات کے لئے پارلیمانی ، صوبائی اور شہری نشستوں کے لئے امیدوار منتخب ہوئے۔

زبیر حسین کا انتخابات میں کامیابی کے حوالے سے کہنا ہے کہ وہ الیکشن میں جیت یا ہار کے لئے نہیں بلکہ اس لئے حصہ لے رہے ہیں کہ آنے والے دور میں پاکستانی کمیونٹی مقامی سیاست میں حصہ لے کر نا صرف کمیونٹی مسائل حل کرسکے بلکہ پاکستان اور سویڈن کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنانےمیں کردار ادا کرسکے۔ان کا اس حوالے سے مزید کہنا ہے کہ بے شک ہر میدان میں انسان کامیابی کے لئے ہی قدم رکھتا ہے مگر یہ میدان سویڈن کی اقلیتوں کے لئے دونوں صورتوں میں کامیابی کا ضامن بنے گا وہ یوں کے اگر ہم جیتے تو ہم نےایوانوں میں اقلیتوں کی بھرپور نمائندگی کرنی ہے اور اگر ہمیں شکست ہوتی ہے تو بھی اقلیتوں کوسویڈن میں اہمیت حاصل ہونا شروع ہوجائے گی کیونکہ اس وقت سویڈن کی تمام تر سیاسی جماعتوں کی نظر پارٹیت نیانس پر ہے اور یہاں تک کے سویڈن کا میڈیا بھی پارٹیت نیانس کےخلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے سے باز نہیں آتاوہ اس لئے کہ اقلیتوں کے اتحاد نے سویڈن کی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہےاور اگر ہمیں شکست ہوئی تو ہر سیاسی جماعت اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لئے اقلیتوں کے حقوق کے لئے میدان میں اترے گی اور یوں ہماری ہار بھی ہماری جیت ہی ثابت ہوگی۔

Comments (0)
Add Comment