سفارت خانہ پاکستان برسلز اور یورپین لٹریری سرکل کے زیراہتمام منیزہ ہاشمی کی کتاب کی تقریب رونمائی

تقریب میں پاکستان میں یورپین یونین کی سابق سفیر آندرولا کامینارا سمیت یورپین اور پاکستانی ڈائس پورہ کے افراد کی شرکت

منیزہ ہاشمی نےاپنے والد فیض احمد فیض کے مذہبی فکر و خیالات پر بھی روشنی ڈالی

برسلز( نمائندہ خصوصی) سفارت خانہ پاکستان برسلز اور یورپین لٹریری سرکل کے زیراہتمام پاکستان کے معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کے حوالے سے ایک کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔

اس موقع پر ’Conversation with my father‘ کے عنوان سے لکھی گئی کتاب کی مصنفہ اور فیض احمد فیض کی منجھلی بیٹی منیزہ ہاشمی مہمان خصوصی تھیں۔تقریب میں پاکستان میں یورپین یونین کی سابق سفیر آندرولا کامینارا سمیت یورپین اور پاکستانی ڈائس پورہ کے چنیدہ افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اس تقریب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے حصے میں یورپین لٹریری سرکل کے سیکٹری جنرل اور پاکستان پریس کلب بیلجیئم کے صدر عمران ثاقب نے شرکائے محفل سے فیض احمد فیض کا تعارف کروایا۔ جبکہ معروف مقامی میگزین کے سابق ایڈیٹر جی گوریس اور ڈاکٹر علی شیرازی نے کتاب پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔

تقریب کے اسی حصے میں برسلز میں موجود یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں نے فیض احمد فیض کی مشہور اردو نظمیں اور ان کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ اس حصے کے پیش کاروں میں مس نورالہدی، جعفر مہدی اور ماریہ اکرم شامل تھے۔

جی گوریس نے فیض احمد فیض سے بطور شاعر اپنےتعارف کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ شاعر جب تاریخ کے تاریک لمحات میں خود مزاحمت کرتا اور اپنی شاعری کے ذریعے دوسروں کو مزاحمت کیلئے اکساتا ہے، تو وہ دراصل آئندہ آنے والی نسلوں کے شعوری، سیاسی و سماجی حقوق کے تحفظ کی بات کر رہا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فیض احمد فیض صرف منیزہ ہاشمی کے والد ہی نہیں بلکہ کلچر کی زبان میں قوم کے والد تھے۔ان کی شاعری ہمیشہ زندہ رہنے والی شاعری ہے اور رہے گی۔

تقریب کے دوسرے حصے میں صاحب کتاب، منیزہ ہاشمی کے ساتھ اس کتاب کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ اس حصے کی میزبانی معروف شاعر شیراز راج نے کی۔میزبان کے مختلف سوالات کے جواب میں مصنفہ نے بتایا کہ پاکستان میں فیض احمد فیض پر بطور شاعر، انسانی حقوق کے کارکن، اور ان حقوق میں انسانوں کے درمیان توازن تلاش کرتے ہوئے شخص کے طور پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن بطور ایک والد اور ایک مزاحمت کرتے ہوئے شخص کے خاندان کے سربراہ کے طور پر کچھ زیادہ موجود نہیں تھا۔ میں نے اس کتاب میں فیض احمد فیض کے اس کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہماری والدہ اور ان کی اہلیہ، ایلس فیض کے برطانوی نژاد ہونے کے باعث ہمارے گھر کی زبان انگریزی تھی۔ لیکن وہ ہمیشہ ہمیں اس زبان کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتے رہے۔اسی لیے مصنفہ کے نام تحریر کردہ ان کے تمام خطوط اردو زبان میں ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر اپنی والدہ کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ ایلس فیض وہ خاتون تھیں جو چٹان کی طرح ان کے پیچھے کھڑی رہیں اور ایک باپ کی غیر موجودگی میں خاندان کو سنبھالے رکھا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی شاعری میں زبان کی مختلف پرتیں موجود ہیں۔ لیکن کیونکہ ان کی شاعری عام آدمی کیلئے تھی اس لیے اس میں سادگی اور ادب دونوں ہی ملتے ہیں۔انہوں نے پوچھے جارہے سوالات کی روشنی میں اپنے والد کے مذہبی فکر و خیالات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ ’فیض کہتے تھے کہ ان کا مذہب، رومی کا مذہب ہے‘ جبکہ معروف دانشور اشفاق احمد صاحب نے فیض کو ملامتی صوفی قرار دیا۔

انہوں نے اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ فیض صاحب کی کاوشوں سے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور لوک ورثہ جیسے ثقافتی ادارے سامنے آئے۔ جنہوں نے پاکستان کی ثقافت کے ذریعے مختلف ہونے کے باوجود، یکجائی کا احساس پیدا کیا۔ کیونکہ ثقافت ہی وہ زنجیر ہوتی ہے جو ہمیں باہم باندھ کر رکھتی ہے۔

منیزہ ہاشمی نے اپنے ساتھ گزرے مختلف واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ فیض صاحب دوسرے ممالک میں اپنے ادبی کردار کے باعث پاکستان کی شناخت بنے، اور انکی اس شناخت سے ہماری شناخت بنی۔

تقریب کے آخر میں یورپین یونین، بیلجیئم اور لکسمبرگ کیلئے پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے تمام مہمانوں کا ان کی آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے مصنفہ کو اس بات کیلئے خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے فیض احمد فیض کے ادبی و دیگر کرداروں میں سے، عملی زندگی میں ایک انسان کے کردار کے طور پر پیش کیا۔

انہوں نے اپنے اس احساس کا بھی ذکر کیا کہ یورپ اور خصوصی طور پر یورپین دارالحکومت برسلز کی یونیورسٹیوں میں اردو سے متعلق زیادہ شناسائی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ جبکہ جاپان میں 1910 میں ایک مقامی یونیورسٹی میں اردو چیئر قائم کی گئی تھی۔ آخر میں مصنفہ نے اپنی کتاب سفیر پاکستان کو پیش کی ۔ جبکہ اختتام تقریب پر مہمانوں کی پاکستان کے روائتی اسنیکس کے ساتھ تواضع کی گئی۔

واضح رہے کہ یہ تقریب سفارت خانہ پاکستان کے زیراہتمام پاکستان کی 75 سالہ تقریبات کو منانے کے ایک حصے کے طور پر منعقد کی گئی تھی۔

Comments (0)
Add Comment