دوحہ(رپورٹ:افتخار راغب)قطر میں 1959 سے اردو شعر و ادب کی روشنی بکھیرنے والی تنظیم ‘بزم اردو قطر’ کے زیرِ اہتمام خوش فکر شاعر منصور اعظمی کے مجموعۂ کلام ‘خیالوں کی صلیب’ کی تقریبِ رونمائی و مشاعرہ مازا ہوٹل دوحہ کے دلکش ہال میں پر وقار انداز میں 29 جولائی 2023 بروز ہفتہ کی شام کو منعقد ہوا۔ پروگرام کی صدارت بزمِ اردو قطر کے صدر محمد رفیق شاد اکولوی نے فرمائی جب کہ معروف محبِ اردو و تاجر اور بزم کے سرپرست محمد سالک عبد الرحمان نے مسندِ مہمانِ خصوصی کو رونق بخشی۔ مہمانان اعزازی کی کرسی پر صاحبِ مجموعہ منصور اعظمی جلوہ افروز ہوئے۔
پروگرام کا بابرکت آغاز حافظ سیف اللہ محمدی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ نظامت کے فرائض بزم اردو قطر کے جنرل سکریٹری افتخار راغبؔ نے بحسن و خوبی انجام دیے اور مہمانان کا استقبال بھی کیا۔ نیز افتخار راغب نے منصور اعظمی کی کتاب اور شخصیت پر کتاب میں شامل اپنا مضمون "منصور اعظمی : آہنی جذبات و دردمندانہ احساسات کا شاعر” بھی پیش کیا جسے حاضرین نے خوب داد و تحسین سے نوازا۔ بزمِ اردو قطر کے چیئرمین ڈاکٹر فیصل حنیف اور صدر محمد رفیق شاد اکولوی نے اپنے اپنے انداز میں مختلف زاویوں سے اظہار خیال فرمایا اور منصور اعظمی کی شاعری و شخصیت پر روشنی ڈالی۔ جمشید انصاری اور مظفر نایاب نے منظوم خراج تحسین پیش کیے۔ حاضرین نے منظوم خراج تحسین کے ساتھ ساتھ منصور اعظمی پر منثور اظہارِ خیال کی بھی خوب پذیرائی فرمائی۔ منظوم خراج تحسین سے کچھ انتخاب قارین کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں:
دسترس ہے ان کو ہر اک بحر پر
شعر لکھتے ہیں ہوا کی لہر پر
ہر گھڑی رہتی ہے ان کو ایک دھُن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
تھام کر دل بیٹھیے ان کے قریب
لے کے آئے ہیں خیالوں کی صلیب
اس کے ہر اک شعر میں اک تاب ہے
تاب سے پُر تاب ہر اک باب ہے
خوش ہوا جمشید ان کو دیکھ کر
اہلِ دل کی بزم کے اسٹیج پر
جمشید انصاری
شاد و آباد رہا کرتے ہیں سب خورد و کلاں
ایسے مخلص کا بھلا ہوتا ہے کیا کوئی رقیب
شاعرِ "آہنی دیوار” و "ضوبارِ سحر”
منکسر طبع، ہنرمند، سمجھدار لبیب
دو ہزار اور ہے تیئیس اشاعت کا سال
ہے "خیالوں کی صلیب” اصل میں نایاب و عجیب
اک عدد طاق کی تفریق سے پڑھ لو تاریخ
"ہو مبارک تمہیں منصور "خیالوں کی صلیب”
مظفر نایابؔ
حمد و نعت کے مجموعہ "ضو بار سحر” اور مجموعہ کلام "آہنی دیوار” کے بعد "خیالوں کی صلیب”منصور اعظمی کا تیسرا مجموعۂ کلام ہے۔ خوبصورت سرورق اور 240 دیدہ زیب صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں تقریباً 140 کلام ہیں جن میں غزل اور نظم کے علاوہ حمد و نعت بھی شامل ہیں۔
منصور اعظمی نے اپنے اظہار خیال میں بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران اور اظہارِ خیال کرنے والے احباب کا شکریہ ادا کیا اور کچھ منتخب کلام پیش کیے۔ حاضرین کی فرمائش پر آپ نے اپنی شاہکار نظم "تحفہ” بھی پیش کی اور خوب داد و تحسین وصول کی۔ منصور اعظمی کے کچھ منتخب اشعار:
منصور انا الحق کی صدا دے کے چلا ہے
آتا ہے اسے دار سجانے کا سلیقہ
موم کی مثل سمجھتے تھے جسے ہم منصور
دھوپ کے سامنے رکھا تو وہ پتھر نکلا
زخم دیتا ہے تو مرہم بھی لگا دیتا ہے
وقت جینے کے سب انداز سکھا دیتا ہے
قابلِ غور تھا ہر اک جملہ
اس کی ہر بات میں دکھا مطلب
یہ بھی ممکن ہے مری کل کی دعا ہو مقبول
یہ بھی ممکن ہے مجھے آج کی مہلت نہ ملے
تقریب رونمائی کے بعد حسب معمول مشاعرے کا انعقاد ہوا جس میں صدر محفل محمد رفیق شاد اکولوی اور مہمان اعزازی منصور اعظمی کے علاوہ افتخار راغبؔ، مظفر نایاب، وزیر احمد وزیر، ڈاکٹر وصی الحق وصی، جمشید انصاری، فیاض بخاری کمال، شاہزیب شہاب اور محمد طلال فاضل نے اپنے منتخب کلام پیش کیے اور محفل کے آہنگ کو بلند کر کے اپنے اپنے حصے کی داد و تحسین وصول کی۔ مہمان خصوصی اور بزم کے سرپرست محمد سالک عبد الرحمان نے اظہار خیال میں اس پروقار محفل میں مہمان بنانے کے لیے اراکینِ بزم کا شکریہ ادا کیا اور بزم کے پروگراموں میں ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ بزم کے سرپرست ڈاکٹر خلیل شبلی نے بھی بے حد خوشی کا اظہار کیا اور بزم کے زیر اہتمام بڑے مشاعرے منعقد کرانے اور اپنا بھرپور تعاون کرنے کا اعلان کیا۔ مہمان اعزازی منصور اعظمی نے اپنے شعری سفر کے ابتدائی دنوں کے کچھ واقعات بیان کیے۔ صدر محفل محمد رفیق شاد اکولوی نے مجموعی طور پر پروگرام کے دونوں حصوں کو انتہائی کامیاب قرار دیا اور منصور اعظمی کو مبارکباد پیش کی۔ بزم اردو قطر کی جانب سے اسٹیج پر نمائندگی کر رہے میڈیا سکریٹری ارشاد احمد نے تمام شرکا و حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ مشاعرے میں پیش کیے گئے کچھ منتخب اشعار قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر کیے جاتے ہیں:
بنے وبال نہ اسراف یہ کمائی کا
حساب دینا ہے اک روز پائی پائی کا
ہمارے خون کے چھینٹے ہیں جس کے دامن پر
بدل رہا ہے وہ اب بھیس پارسائی کا
جمہوریت کا نعرہ دیا جس نے شان سے
رکھتے ہو بیر کیوں اسی اردو زبان سے
آخر سبب ہے کیا ذرا سوچو تو مومنو
کیوں لوٹتی ہے اپنی دعا آسمان سے
محمد رفیق شاد اکولوی
حسنِ افکار بھی غصے کے سبب جاتا ہے
طیش میں آؤں تو لہجے سے ادب جاتا ہے
اس کی یادیں تو بسی رہتی ہے دل میں لیکن
جانے چپکے سے وہ کب آتا ہے کب جاتا ہے
اج کے بچے تو تلوار لئے پھرتے ہیں
جانے کیوں ان کو کھلونوں سے گھٹن ہوتی ہے
نیند میں خواب تو ہوتے ہیں سہانے لیکن
آنکھ کھلتی ہے تو صدیوں کی تھکن ہوتی ہے
منصور اعظمی
اک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں میں
ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں میں
جیسے تم نے تو کچھ کیا ہی نہیں
سارے فتنے کی جڑ رہا ہوں میں
تمھارے لوٹ آنے کی ہمیشہ آس رہتی ہے
مِرے سیراب ہونٹوں پر سلگتی پیاس رہتی ہے
تمھارے بعد بھی دل کی زمیں سر سبز ہے لیکن
جہاں کیاری تھی پھولوں کی وہاں اب گھاس رہتی ہے
افتخار راغبؔ
تمہاری فکر جو بدلے ہوا بدل جائے
عجب نہیں کہ مکمل فضا بدل جائے
یہ حادثات کبھی اس لئے بھی ہوتے ہیں
ہماری سوچ کا کچھ ذائقہ بدل جائے
بہت برا ہے بظاہر مگر یہ ممکن ہے
ہمارا حال بفضلِ خدا بدل جائے
تری دعا میں بھی پوشیدہ بد دعائیں ہیں
مری دعا ہے کہ تیری دعا بدل جائے
مظفر ناؔیاب
ترے فراق میں آنکھیں رہیں گی تر کب تک
رہے گی رات کی آغوش میں سحر کب تک
اندھیرے جھانک رہے ہیں سبھی دریچوں سے
چھپا کے رکھوں میں سورج کو اپنے گھر کب تک
میرے غم کی بھی ترجمانی ہو
شرط یہ ہے تیری زبانی ہو
وہی جانے گا درد کو میرے
جس کی میری طرح کہانی ہو
وزیر احمد وزیر
چاند اب جھیل میں غرقاب ہوا چاہتا ہے
سانحہ کوئی تہہِ آب ہوا چاہتا ہے
دھیرے دھیرے وہ مجھے کھینچے ہے اپنی جانب
مہرباں آپ ہی گِرداب ہوا چاہتا ہے
جانے کس شان سے یہ نیند کی دیوی آئی
ٹاٹ بھی مخمل و کمخواب ہوا چاہتا ہے
قید تنہائی میں جو دل تھا وصی مدت سے
رونقِ محفل احباب ہوا چاہتا ہے
ڈاکٹر وصی الحق وصی
جو درد سینے میں پل رہا ہے
اُسی سے دل بھی بہل رہا ہے
جو نالہ دل میں دبا ہوا تھا
وہ شعر بن کر نکل رہا ہے
یہ عنایت خدا کی ہے ورنہ
دے نہیں سکتے دام پانی کا
پیاس اتنی تھی میرے ہوٹو پر
مجھ کو دیکھا تو ڈر گیا پانی
جمشید انصاری
کوئی مخدوم کوئی حاملِ دستار کہاں
شیخِ زنار تو ہیں کاشفِ اسرار کہاں
میکدے کا ہے نہ عرفان، نہ ساغر کا پتہ
پوچھتے کیوں ہو بھٹکتا ہے قدح خوار کہاں
مجھ کو کانٹوں سے غرض ہے نہ گلہ پھولوں سے
چشمِ عارف نہ سہی، نرگسِ بیمار کہاں
قصۂ درد بھی اپنوں کو سنایا کیجے
التفات ان کا جو ہو جائے تو آزار کہاں
فیاض بخاری کمال
محورِ ذات ہی پیرایۂ اظہار بنے
کوئی اتنا بھی نہ شہرت کا پرستار بنے
دین داری پہ ہماری جو اٹھاتے ہو سوال
جانتے بھی ہو کہ ہم کیسے گنہگار بنے
اس لیے خود کو بٹھا رکھا ہے گھر میں کہ کہیں
میرا سایہ نہ تری راہ میں دیوار بنے
پاس رہ کر بھی رسائی نہیں ان تک اپنی
کتنی آسانی سے وہ لوگ ہیں دشوار بنے
شازیب شہاب
خزاں کی فکر کو چھوڑ اور سمجھ بہار مجھے
میں اچھا وقت ہوں دل کھول کر گزار مجھے
دعا کا تیر نشانے پہ جا لگا میری
پلٹ کے آ گیا جس کا تھا انتظار مجھے
راستہ دائرے کی شکل میں ہے
تیز چلنے کا فائدہ ہی نہیں
دھڑکا سا لگا رہتا ہے دروازہ کھلے گا
اور کوئی کہے گا کہ یہاں کوئی نہیں ہے
محمد طلال فاضل