یورپ خانہ جنگی کی راہ پر؟

0

بہتر زندگی، بہتر مستقبل، پرامن اور خوشگوار ماحول جیسے سپنےسجائے انسان ہمیشہ سے ہی ہجرت کرتا چلا آیا ہے، مہاجرت کی وجہ بھوک افلاس، خانہ جنگی اور متعدد جنگیں رہیں، ہجرت کرنے والا یہ طبقہ کبھی امریکہ، کبھی کینیڈا اور کبھی آسٹریلیا کا رخ کرتا رہاپھر ہوا یوں کہ اچانک یورپ بھر میں پناہ گزینوں کی شکل میں جتھوں کے جتھے پہنچنے لگے جسے یورپ نےریفیوجی کرائسس کا نام دیا۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہجرت کرنے والا طبقہ معاشی مسائل، خانہ جنگی اور جنگوں سے تنگ آکر اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ چکا، کسی مہاجر کی پہلی نسل تو کسی کی چوتھی نسل یورپ میں مقیم ہے، جبکہ ایک دن سے ایک ماہ تک اور نئے آنے والے مہاجرین کی بات بھی کی جائے تو کیا یورپ کی چمک دھمک، پرتعیش اور پرسکون زندگی کی لت ان مہاجرین کو اپنے گھر لوٹنے دے گی؟ غالباً نہیں۔

یورپ کی گزشتہ دہائی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یورپی یونین کو نقصان پہنچانے کے لئے عالمی طاقتیں ہمیشہ سے سرگرم رہیں، یہاں تک کے یورپی یونین کے رکن ممالک کے سربراہان کے موبائل فون تک ٹیپ کیے جاتے رہے ، عالمی طاقتوں کو کہیں جاکر کامیابی یوں ملی کہ بریگزٹ کی کامیاب مہم نے برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کردیا، یہ تو بھلا ہو کرونا وبا کا کہ اٹلی کی مہم کوایٹلی کا آغاز نہ ہوسکا ورنہ اٹلی سمیت کئی ممالک یورپی یونین کو خیرباد کہنے چلےتھےاور وجہ صرف ایک ہی رہی کہ مہاجرین کو یورپی یونین میں کیسے پناہ دی جائےاور یہ بہاؤکیسے روکا جائے، گویا مہاجرین کے مسئلے نے دنیا کے سب بڑے اتحادکو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ جب عالمی طاقتوں کو یورپی یونین توڑنے میں کوئی خاطرخواہ کامیابی نہ ملی تو نفرت انگیزی کو انتہائی اعلی درجے کی منصوبہ بندی سےپروان چڑھایا جانے لگا، کہیں رنگ و نسل تو کہیں مذہب کی منافرت ہر جگہ کوئی نہ کوئی فارمولا کامیاب ہونے لگا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے یورپ کے ہر دوسرے ملک میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں مضبوط ہونےلگیں۔

دائیں بازو کی جماعتوں کا روزِ اول سے یہ مطالبہ رہا کہ مہاجرین کو واپس بھیجا جائےجبکہ یورپ کے تمام تر ملکوں کے آئین اور قوانین میں اس قسم کی گنجائش نہیں تھی کہ مہاجرین کو فوری ملک بدر کیا جائے،چناچہ انہی عالمی و بیرونی طاقتوں نے حکمتِ عملی کچھ یوں بنائی کہ مہاجرین کو کسی طرح اکسا کر ایک نیا فساد برپا کیا جائےاور یہ فساد برپا ہوا قرآن سوزی کے واقعات کے بعد، یورپی ملک سویڈن قرآن سوزی کے واقعات کا محور بنا رہا اور یہاں فسادات اس نوعیت کو جا پہنچے کے متعدد گاڑیوں، بسوں اور املاک کو نقصان پنچایا گیا یہاں تک کہ کئی پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ ان تمام تر واقعات کے بعد انتہائی دائیں بازو کی جماعت اکثریت میں ووٹ لے کر سرفہرست رہی اور سویڈن میں بننے والی نئی اتحادی حکومت اب اسی سیاسی جماعت کے رحم وکرم پر ہے،سویڈن میں نئی اتحادی حکومت کے آتے ہی ایمیگریشن کے قوانین سخت اور سیاسی پناہ کے مکمل روک تھام کا آغاز ہوگیا، جبکہ متعدد ملک بدریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔پھر ہوا یوں کہ رواں برس سویڈن کو شش ماہی یورپی یونین کی صدارت میسر آئی اور یہاں بھی ایمیگریشن قوانین اور سیاسی پناہ کے لئے متعدد قوانین پر سویڈن نے بھرپور کام کیا۔تو گویامہاجرین سے شروع ہونے والا معمہ مہاجرین کے گرد ہی گردش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

مہاجرین مخالف پالیسیاں سخت کیوں ہی نہ کردی گئیں دنیا بھر کا رجحان ا ب بھی یورپ کی جانب ہے، خود وطنِ عزیز پاکستان ہی مثال لے لیں، اعداد و شمار کے مطابق پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے پاسپورٹ بنوا لئے ہیں کہ جیسے کل ہی کہیں سےبلاواآئے گا اوروہ جہاز میں سوار ہوجائیں گے، دوسری جانب ویزوں کی جعل سازی اور نوسربازی بھی عروج پر ہے، معصوم عوام اپنی جمع پونجی یہاں تک کہ قرض تک لے کر اپنے خواب پورا کرنے میں مشغول ہے، ان سب حالات کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہم اوورسیز پاکستانی ہیں تو کہیں نام نہاد سوشل میڈیا ایمیگریشن ایکسپرٹس ، اوورسیز پاکستانی یوں ذمہ دار ٹھرے کہ اپنی ہر جھوٹی شان وشوکت کا سوشل میڈیا پر یوں دکھاوا کرتے ہیں کہ یورپ میں بس بادشاہت کا تاج ان کے سر سجنے والا ہےجبکہ نام نہاد سوشل میڈیا ایمیگریشن ماہرین، لائکس اور ویوز کے لئےبے بنیاد خبریں کچھ یوں پھیلاتے ہیں کہ ہر دل میں یہ امید جاگ اٹھتی ہے کہ کوئی یورپی ملک بانہیں پھیلائے ان کے انتظار میں ہے،جبکہ یورپ میں حالات کی خرابی کا اندازہ کچھ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ پرتگال جیسے غریب ملک میں رواں برس تین لاکھ سے زائد رہائشی ویزوں کی درخواستیں موصول ہوچکی ہیں اور یہ وہ مہاجرین ہیں جو یورپ کے کسی نہ کسی ملک سے ٹھوکر کھانے کے بعد پرتگال جیسے ملک میں اپنی قسمت آزمائی کررہے ہیں۔

اب پرتگال کی بات کریں تو یہاں بھی دائیں بازو کی جماعتیں سر اٹھا رہی ہیں اور مہاجرین مخالف پالیسیوں کا نفاذ کرنا چاہتی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یورپ بھر میں فقط ایک ہی مدعہ رہ گیا ہے اور وہ ہے مہاجرین کا انخلاء، کسی حد تک مہاجرین کا انخلاءممکن ہو بھی سکتا ہے کہ کیونکہ پاکستان سمیت دنیا کے ایسے ممالک سے آئے ہوئے عوام جن کے پاس اپنے ملک لوٹنے کا آپشن موجود ہے وہ تو دوبارہ سے اپنی زندگی کو کسی نہ کسی طرح اپنے ملک میں شروع کرلیں گے،مگران کا کیاہوگا جن ملکوں میں جنگ مسلط کرکے عوام کو بے دخل کیا گیا؟ کیا ان لوگوں کی جانیں بھی رائیگاں جائیں گئیں جنہوں نے سمندر کے لہروں سے لڑتے ہوئے جان دے دی؟ یا پھر جو سمندر سے لڑتے ہوئے بچ بچا کر یورپ پہنچے کیا اب وہ بآسانی یورپ چھوڑ دیں گے؟یعنی اگر پوری کہانی کا جائزہ لیا جائے تو جہاں یورپ مہاجرین سے چھٹکارا چاہتا ہے وہیں مہاجرین اپنی پوری طاقت سے یورپ کو جکڑ کر بیٹھے ہیں۔یہ جو مہاجرین اور یورپی حکومتوں کی رسہ کشی ہے کہیں نہ کہیں جا کر تصادم کا شکار ہوسکتی ہے،ماضی میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ غیر قانون طریقے سے یونان اور سربیا میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی پولیس سے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جوکہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ مہاجرین بہتر مستقبل کے لئے ہر جنگ لڑنے کو تیار ہیں، اب اگر بات کی جائے کہ کیا یورپ میں پولیس یا سیکیورٹی فورسز بھپرے مہاجرین سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ تو اس کا جواب ہمیں باخوبی مل سکتا ہے اگر ہم پیرس کے حالیہ فسادات کا جائزہ لیں۔

معاملہ بس پیرس کے فسادات تک ہی نہیں رک جاتا، یورپ بھر میں جرائم میں کچھ اس قدر اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے کہ سویڈن اب ناروے سے جیل کرائے پر لے کر اپنے مجرم ناروے کی جیلوں میں رکھوا رہا ہے،اور جب بات ہو جرائم کی تو عام تاثر یہ ہے کہ مہاجرین یا غیر ملکی جرائم میں ملوث ہیں کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو جب رہائشی ویزہ نہیں ملتےتو وہ غیرقانونی طور پر کام کرکے گزارا کرتے ہیں یا پھر جرائم کا سہارا لیتے ہیں، مگر یہاں معاملہ غیر ملکیوں کا جرائم میں ملوث ہونے تک ہی نہیں رک جاتا، حال ہی میں مقامی افراد نے نفرت انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیرملکیوں پر حملے بھی کئے ہیں، کوپن ہیگن کے مشہور شاپنگ مال فیلڈز میں کچھ ماہ قبل ایک مقامی شخص نے غیر ملکیوں پر فائرنگ کرتے ہوئے تین افراد کو قتل کردیا، اب یہ الگ بات ہے کہ اس واقع کو دہشتگردی کے زمرے میں کیوں نہیں لایا گیا۔ پھر رہی سہی کسر روس اور یوکرائن کی جنگ نے پوری کردی، جنگ کے باعث مہنگائی، بے روزگاری جیسے معاملات سمیت نیٹو میں شمولیت جیسے قصےبھی یہاں عام ہوتے چلےگئے ۔ یوکرائن کو لے کر مہاجرین میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گورا مزدور ملنے کے بعد اب یورپ ہم سیاہ فام لوگوں کو ملک بدر کررہا ہے، جبکہ مقامی افراد سے بات کی جائے تو وہ کہتےہیں کہ یوکرائن جنگ کے باعث یورپ میں پناہ گزینوں کی شکل میں رشین مافیا یورپ میں اپنا جال پھیلا رہا ہے، یعنی ان تمام حالات و واقعات کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ کھچڑی یورپ کو آہستہ آہستہ خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے،کیونکہ مقامی افراد نے غیر ملکیوں کوقتل کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر تجاویز تک مانگنا شروع کردی ہیں اور مہاجرین اپنی جان ، مال اورعمر کا اہم حصہ یورپ میں داؤ پر لگانے کے بعد بآسانی ملک بدر ہونا نہیں چاہتے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!