قفلِ لب

0

سو سر ہی كیے میں نے جو کہسار بھی آئے
لمحےتو مری ذیست میں دشوار بھی آئے
تُو پھر بھی ہماری نہیں بنتی اے محبت
ہم تیرے لیے موت کے بازار بھی آئے
کوثر میں یہاں اشک نہیں روک سکی پھر
لو توڑ کے یہ ضبط کی دیوار بھی آئے

لندن کے ادبی منظر نامہ کی حقیقت تہہ در تہہ جب عیاں ہوتی ہوئی آشکار ہوئی تو جانا کہ پاکستانی خواتین کا یورپی سیاست میں، سماج میں اور ادب میں عمل دخل آٹے میں نمک برابر ہے اور پھر جب یہ چنیدہ و شنیدہ خواتین کچھ نیا کرنے کا عزم و ولولہ لئے معرکے سرانجام دیتی ہیں تو ادبی اور سماجی دائرہ کار کے احباب جو باشعور ہیں سمجھدار ہیں یا فراخدل ہیں وہ ان مخصوص ستاروں کو لبیک کرتے ہوئے حوصلہ افزائی سے استقبال کرتے ہیں ۔

باقی راندۂ درگاہ کی مانند روڑے اٹکانے یا پھر عمل و سوچ پہ قفل لگانے کی تگ و دو میں ساری زندگی بتا دیتے ہیں اور پھر اس نسائی سوچوں کے قفل و افلاس کے عمل و ردِ عمل کی جنگ سے جو ِچنگاریاں پھوٹتی ہیں تو ان سے جنم لیتی ہے قفل لب جی ہاں، طلعت گِل کی پہلی کالمز پہ مشتمل تصنیف ’’قُفل لب‘‘ ان کے ابتدائی کالمز کا مجموعہ جس کی رونمائی کے سلسلہ میں آج ہم سب یہاں موجود ہیں اس تصنیف میں انہوں نے اپنے منفرد انداز میں سماجی مسائل، انسانی جذبات، اور معاشرتی پیچیدگیوں کو باریکی و تفصیل سے بیان کیا ہے۔ طلعت گل اپنے کالمز میں زندگی کی ناہمواریوں اور تلخ و ترش واقعات ،خاص طور پہ عورت پہ ظلم و نا انصافی کے مقابلے کے لئے واضح اور مضبوط زبان استعمال کرتی ہیں، جس سے پڑھنے والوں کو روزمرہ کے مسائل پر گہرے غور و فکر کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

سات بہنوں اور دو بھائیوں میں پروان چڑھی طلعت کی قلم بیانی سے جو شعلہ وشرار پھوٹتے ہیں وہ انکی زندگی کی جدو جہد کی نمایاں داستان ہے

یہ جو ’’قفل لب‘‘ کے کالمز میں جذباتی اور معاشرتی موضوعات پر طلعت گل کا بصیرت انگیز انداز نظر آتا ہے، وہ پڑھنے والوں کو مختلف زاویوں سے زندگی کے حقائق کو دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر آپ سماجی مسائل پر مبنی ادبی کالمز میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ کتاب آپ کو یقیناً پسند آیے گی چھیاسی کالمز پہ مشتمل انکا پہلا مجموعہ قفل لب کا ہر ایک باب ہر ایک کالم پسماندگی و جبر و ستم کے بیانیہ کے ساتھ۔ خواتین کی طاقت اور مشکلات کے باوجود کامیابی کا سفر ہے خاص طور پہ انکے “ قبر بھی پناہ نہیں “ ایک ہجومی موت” اس حمام میں سبھی ننگے ہیں” جیسا کے یہ حقیقت ہے خواتین کا کردار دنیا بھر میں قابلِ تعریف ہے۔ صدیوں سے لے کر آج تک، خواتین نے ہر میدان میں اپنی محنت، ہمت، اور عزم سے نہ صرف اپنی پہچان بنائی بلکہ ثابت کیا کہ وہ ہر طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ تصنیف خواتین کی جدوجہد، محنت، اور کامیابیوں کو اجاگر کرتی ہے جو اُنہوں نے صنفی امتیاز، ثقافتی روایات، اور معاشرتی رکاوٹوں کے باوجود حاصل کی ہیں۔ میں سیدہ کوثر طلعت گل کو مبارکبار پیش کرتے ہوئے اس کتاب کو ویمن ایمپاورمنٹ کا نام دیتی ہوں یعنی خواتین کو وہ طاقت اور اختیار دینا جس سے وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود لے سکیں اور معاشرے میں برابر کی حیثیت حاصل کرسکیں۔ —- کیا کہتے ہیں

سورج کا عکس جھیل کے پانی میں دیکھ کر
اچھا لگا ہے خود کو کہانی میں دیکھ کر
دیکھا تھا خود کو میں نے کسی دور میں کہیں
آیا یہ خود کو یاد دہانی میں دیکھ کر
تُو تو خدا بنا تھا کہانی میں ایک دن
حیراں ہوں تجھ کو عالمِ فانی میں دیکھ کر

ایک مضبوط اور خود مختار اور اپنی آواز رکھنے والی عورت معاشرتی ترقی کا ضامن ہوتی ہے۔ اور اپنے حقوق جانے بغیر نہ تو معاشرتی انصاف ممکن ہے اور نہ ہی پائیدار ترقی۔ جبکہ اس تصنیف میں مصنفہ نے اس بات کو بھی اجاگر کیا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کو صنفی عدم مساوات کا سامنا ہے۔ انہیں مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے، تعلیم میں مواقع محدود ہوتے ہیں، اور صحت، انصاف، اور روزگار میں برابر کی حیثیت نہیں ملتی۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں خواتین کو تعلیم کے مواقع اور ملازمتوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کی زندہ ہوتے ہی کبھی درگور کر دیا جاتا ہے اور پھر عمر بھر جو عورت پہ ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں وہ الگ داستان۔ اور کیا ہی عجب ہے کہ یہی وہ دنیا ہے جہاں خواتین کی بے شمار کامیابیاں ایسی ہیں جو ہر شعبے میں ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جیسے کہ ملالہ یوسفزئی نے تعلیم کے حق کے لیے آواز اٹھائی اور امن کا نوبل انعام حاصل کیا۔ نادیہ مراد نے جنگی مظالم کے خلاف جدو جہد کی اور انسانی حقوق کی علمبردار بن کر ابھریں۔ ماریہ کیوری نے سائنس کے شعبے میں دو بار نوبل انعام حاصل کیا، جبکہ انجیلا مرکل نے دنیا کی سب سے طاقتور ممالک میں سے ایک، جرمنی کی قیادت کی اور اہم عالمی فیصلوں پر اثر ڈالا۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین کو کامیابی کی راہ میں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے: سماجی اور ثقافتی پابندیاں: بہت سے معاشروں میں خواتین کو روایتوں کے نام پر روکا جاتا ہے اور ان کے کردار کو محدود کیا جاتا ہے۔ کبھی تعلیم تک محدود رسائی کے باعث خواتین کو معاشی اور سماجی ترقی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

کبھی معاشرتی دباؤ اور صنفی امتیاز کا سامنا ہوتا ہے خواتین کو ملازمت، تنخواہ، اور حقوق کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں ان کے مواقع کم ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ کچھ مثالیں یوں بھی ہیں کہ کئی ممالک میں خواتین کی ترقی کے مواقع اور حکومتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ خواتین کی تعلیم، صحت، اور روزگار کے شعبے میں مختلف پروگرامز اور پالیسیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ جیسے کہ پاکستان میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور “ویمن امپاورمنٹ پالیسی” کا قیام، جس نے خواتین کو خود مختاری اور تحفظ فراہم کیا۔

سوشل میڈیا نے خواتین کو اپنی بات کہنے کا ایک پلیٹ فارم دیا ہے۔ اس سے خواتین نہ صرف اپنی کہانیاں شیئر کر رہی ہیں بلکہ دنیا کو اپنے تجربات، جدوجہد، اور کامیابیوں سے آگاہ کر رہی ہیں۔

جیسا کہ ان میں ایک نام طلعت گل کا بھی ہے۔
میں سیدہ کوثر سمجھتی ہوں کہ خواتین کی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر انہیں برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ معاشرے کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ویمن ایمپاورمنٹ کی تحریک کا مقصد ہی یہی ہے کہ خواتین کو مضبوط بنایا جائے تاکہ وہ معاشرتی و معاشی ترقی میں اپنا کردار بخوبی ادا کر سکیں۔ مشکلات کے باوجود، خواتین نے ثابت کیا ہے کہ ان کی طاقت، ہمت، اور عزم کبھی کمزور نہیں ہوتا۔آخر میں میں یہ لازمی کہنا چاہوں گی کہ طلعت گل کی تحریریں نہ صرف ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ وہ مختلف تقاریب، سیمینارز، اور ادبی محافل میں بھی اپنی بصیرت انگیز باتوں سے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ لندن میں اردو ادب کے فروغ اور اردو زبان کی ترقی میں ان کا کردار قابلِ قدر ہے، طلعت کے لئے دو اشعار کے ساتھ اجازت چاہونگی ۔

کہاں کی بات اٹھا کر کہاں پہ کرتے ہیں
اسی لیے نہیں بنتی زمانے والوں سے
عبث یہ کھیل مرے ساتھ تم نے کھیلا ہے
کہاں ڈری ہوں میں آنکھیں دکھانے والوں سے
یہ بات بات پہ تم کیوں الجھ رہے ہو بھلا
یہ بات بات پہ باتیں سنانے والوں سے
نہ زندگی کی یہاں بھیک مانگ ، کوئی تُو اب
قفس سے رات میں پنچھی اڑانے والوں سے

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!