شہباز شریف کو وزیرِ اعظم پاکستان نہ بنائیں
حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ پنجاب نہ بنائیں
رانا ثناء اللہ کو وزیرِ داخلہ نہ بنائیں
بلاول زرداری کو وزیرِ خارجہ نہ بنائیں
میں کسی دور میں پاکستان تحریکِ انصاف کا حصہ تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں جب تحریک انصاف الیکٹیبلز کی آڑ میں سٹیٹس کو کے علمبرداروں اور دوسری جماعتوں سے وابستہ بدعنوان، نااہل، مفاد پرست اور مُجرمانہ ذہنیت کے حامل خائنینِ مُلک و ملت قسم کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو سامنے لائی تو میں نے ایک عام پارٹی ورکر کے طور پر پارٹی میں رہتے ہُوئے اس رُجحان کے خلاف آواز اُٹھائی۔ پارٹی میں عمران خان کی ذات پر اندھا اعتقاد رکھنے والے لوگوں کی اکثریت تھی اور میرے ہم خیال لوگ کم تھے۔ ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ لیکن جب ہم نے دیکھا کہ ہماری بات کسی کو سمجھ میں نہیں آرہی تو ہم نے تحریک انصاف چھوڑدی۔ بعدازاں 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف میں یہ سوچ مزید مستحکم ہوئی اور پاکستان بھر سے اس طرح کے بدعنوان، نااہل، مفاد پرست اور مُجرمانہ ذہنیت کے حامل خائنینِ مُلک و ملت قسم کے لوگ جوق در جوق تحریک انصاف کا حصہ بنتے گئے اور تو اور انتخابات میں کامیابی کے بعد پنجاب جیسا بڑا صوبہ عثمان بزدار جیسے شخص کے حوالے کیا گیا، خیبر پختونخواہ میں محمود خان جیسے نااہل شخص کو مسلط کیا گیا اور صوبہ سندھ میں عمران اسماعیل جیسے انتہائی پست قدوقامت انسان کو اقتدار پر بٹھایا گیا اور مرکز میں مُراد سعید، زلفی بُخاری، پرویز خٹک، شیخ رشید، شہباز گِل جیسے لوگوں کو سامنے لایا گیا تو میں نے عہد کیا کہ پاکستان کو اس طرح کے لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ میں نے اس حوالے سے اپنی سوچ کا پرچار شروع کردیا اور کافی سوچ بچار اور تگ و دو کے بعد ہم نے سیاسی تحریک "دی گریٹر پاکستان موؤمنٹ” کی داغ بیل ڈالی۔ الحمداللہ اس وقت پاکستان کے سترہ اضلاع میں ہماری تنظیم سازی کا عمل جاری ہے اور ہماری جڑیں ملک بھر میں پھیلتی جارہی ہیں۔ انشاء اللہ ہم ملک بھر سے بہترین، قابل ترین، مؤثر اور قابل فخر لوگوں کو سامنے لائینگے اور ملک و قوم کو ہر سطح پر بہترین متبادل قیادت فراہم کریں گے اور یہ قیادت ہماری آنیوالی نسلوں میں سے اسی طرح کے بہترین، قابل ترین، مؤثر اور قابل فخر لوگوں کو منتقل ہوتی رہے گی۔
اس مرحلے پر میں تمام جماعتوں باالخُصوص پاکستان مُسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت عُلمائے اسلام سے وابستہ افراد باالخُصوص ان جماعتوں کے کارکُنان سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی جماعتوں میں موجود اس طرح کے بدعنوان، نااہل، مفاد پرست اور مُجرمانہ ذہنیت کے حامل خائنینِ مُلک و ملت اور سٹیٹس کو کے علمبرداروں کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ اور اپنی جماعتوں کو اس طرح کے لوگوں کو سامنے لانے یا ان کو قیادت کی گدی پر بٹھانے اور ان کو مزید طاقتور بنانے کے موجودہ رُجحانات کی نفی کریں۔
اس موقع پر پاکستان مُسلم لیگ کی پوری قیادت اور کارکنان سے میری گُذارش ہے کہ وہ شہبار شریف کی جگہ کسی اور امیدوار کو بطور وزیراعظم اور حمزہ شہباز کی جگہ کسی دوسرے اہل شخص کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب سامنے لائیں۔ اس موقع پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی مُخالفت کرنے کی بہت ساری وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں پر عدالتوں میں کئی ایک مُقدمات چل رہے ہیں۔ جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں خاندانی حُکمرانی کے علمبردار ہیں۔ ہم پاکستان میں خاندانی حُکمرانی کے شدید مُخالف ہیں۔ لہٰذہ یہ انتہائی ستم ظریفی کی بات ہوگی اگر ایسے افراد وزارتِ عُظمیٰ اور وزارتِ اعلیٰ کے مناصب پر فائز ہوں جن پر مختلف عدالتوں میں مُقدمات چل رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے ان دونوں کا انتخاب خاندانی حُکمرانی کے رُجحان کو مزید مستحکم کرے گا۔ اسی طرح رانا ثناء اللہ جیسے شخص کو وزیرِ داخلہ اور بلاول زرداری جیسے فرد کو وزیرِ خارجہ بنانے کی بھی بھرپور مُخالفت ہونی چاہئے۔
یقین کریں رانا ثناء اللہ جیسے شخص کو وزیرِ داخلہ اور بلاول زرداری جیسے فرد کو وزیرِ خارجہ بناکر قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ مجروح ہوگی۔ مجھے معلوم ہے کہ دونوں جماعتوں میں ان دونوں مناصب کے لئے ان دونوں سے زیادہ قابل اور بہترین لوگ موجود ہیں۔ لہٰذہ بہتر ہوگا اگر پاکستان مُسلم لیگ رانا ثناء اللہ کی جگہ کسی اور شخص کو بطور وزیرَ داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی بلاول زرداری کہ جگہ کسی اور کو بطور وزیرِ داخلہ نامزد کرے۔ ان جماعتوں کے کارکنان کو چاہئے کہ وہ ان جماعتوں کے ساتھ وفاداری کی بجائے پاکستان کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیں اور اپنی قیادت کو اسی طرح للکاریں جس طرح میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو للکارا تھا اور اگر جماعتی سطح پر ان کی جائز باتوں کو پذیرائی نہیں ملتی تو وہ بھی اسی طرح بغاوت کردیں جس طرح میں نے تحریکِ انصاف میں بغاوت کی تھی۔
خیر اندیش، عزیز خان
بانی و چیئر مین، دی گریٹر پاکستان موؤمنٹ
پیوستون مرکز برائے تزویراتی مطالعہ اور پالیسی سازی، اسلام آباد، پاکستان