70 سالہ رفاقتیں

0

بچپنے اور ماضی کی خوشگوار یادیں کس قدر روح کو تازگی بخشتی ہیں، ان کا احساس گزشتہ اتوار اسوقت ہوا جب سید نشاط کاظمی صاحب ، ڈاکٹر سبط الحسن صاحب اور نذیر احمد ڈار صاحب و بیگمات کی آمد پہ الگ الگ دو نشستوں میں خوش گپیوں کا سلسلہ چل نکلا ،ظہرانے کے دوران ڈاکٹر حمزہ الیاس خان بھی شریک محفل ہو گئے، مگر 45/50 سالہ عمر کے تفاوت سے کچھ ہی دیر بعد فٹ بال میچ دیکھے جانے کا عذر پیش کر کے رفو چکر ہو گئے ۔آتے ہی ایک پہاڑی نما علاقے میں گاڑی سے نکلنے اور پندرہ بیس زینے طے کرنے کے بعد فرنٹ گارڈن میں پہنچتے ہیں، ڈار صاحب جو اب تقریباً تقریباً اسی 79/80 کے پیٹے میں ہیں اور ہم سے سینئرہونے کا اعزاز رکھتے ہیں نے گلہ فرما دیا کہ عمر رسیدہ لوگوں کے لیے راستے ہموار ہی اچھے ہوتے ہیں۔

لیکن جلد ہی جب ہمارے روحانی فیوض و برکات ان پہ عیاں ہونے لگے تو سمجھ گئے کہ چلے جنگلوں اور پہاڑوں پر ہی مناسب ہوتے ہیں اور یہ ربِ کریم کا شکرِ عظیم ہے کہ اس نے میرا مسکن اپنے قریب تر بنا رکھا ہے ۔بات ستر سالہ رفاقتوں کی ہو رہی تھی اور وہ یوں ہے کہ مجھے گورنمنٹ مڈل سکول جھنگ کی پوری تاریخ کا علم تو نہیں ہے لیکن شنید یہ تھی کہ مہاراجہ کے زمانے میں اس کا ضلع کے چند پرائمری سکولوں میں شمار تھا اور قیام پاکستان کے بعد اِسے مڈل کا درجہ حاصل ہوا ۔

ہم نے حصول تعلیم کی غرض سے غالباً 1955/56 میں جب اِس سکول میں قدمِ رنجہ فرمایا تو پہلی تین چار کلاسوں کے بچوں کو دن بھر بیٹھے جانے کے لیے اپنا اہتمام خود ہی کرنا ہوتا تھا چنانچہ ہمارے بستے میں تختی اور ایک دو کتابوں سے زیادہ وزنی وہ کھیڑا یا چٹائی ہوتی تھی جو دن بھر ہماری قدرے آرام دہ نشست کا کام کرتی تھی تیسری جماعت میں پہنچ کر ہمیں جس بات کی سب سے زیادہ خوشی تھی وہ یہ کہ چھوٹی جماعتوں کو بھی ٹاٹ مہیا ہونے سے ہمارے بستے کا وزن قدرے کم ہو چکا تھا اور ہم اپنے آپ کو تھوڑے معزز طالبعلم شمار کرنے لگ گئے تھے مگر سکول میں مخلوط ذریعہ تعلیم Co- Education کی وجہ سے یہ بھی ہماری ایک خام خیالی ہی تھی اور طالبات نے تو سکول کالج حتیٰ کہ یونیورسٹی کے زمانے تک ہمیں معزز سمجھنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی ۔

سکول کے زمانے میں ہمارے شفیق اساتذہ میں ماسٹر انور صاحب ، ماسٹر خالد صاحب ، ماسٹر بشیر صاحب ، ماسٹر مرزا رشید صاحب ، ماسٹر خلیل صاحب ، PTI ماسٹر سید مظفر حسین شاہ صاحب ، ماسٹر مرزا شفیع صاحب اور ہیڈ ماسٹر محترم جناب چوہدری محمد عالم صاحب ( اللہ پاک تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندیِ درجات کے اسباب پیدا فرماہیں ۔ آمین ثمہ آمین )

یہ وہی دور تھا جب اساتذہ کرام کی محنت دلچسپی اور ہماری حسنِِ کارکردگی کی بنا پر جناب کے ا یچ خورشید صاحب صدرِ آزادکشمیر نے ہمارے سکول تشریف لا کر بچوں کو انعامات دینے کے ساتھ ساتھ سکول کو ماڈل مڈل سکول کا درجہ دیا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے بڑے خوش شکل اور پیارے صاحبزادے امتیاز صاحب نے داخلے کی عمر سے پہلے ہی شوقیہ سکول میں آنا جانا شروع کر رکھا تھا اور ہماری مانیٹر اضافی ذمہ داریوں میں ان کی دیکھ بھال بھی تھی جسے ماسٹر صاحب کی خوشنودی کی خاطر بخوبی نبھایا جاتا تھا۔

اسی طرح کا معاملہ پی ٹی آئی PTI صاحب کے صاحبزادے نشاط شاہ صاحب سے بھی تھا اور میں آج ان دونوں شخصیات کا بے حد ممنون و مشکور ہوں کہ یہ ہماری ستر سالہ پرانی محبتوں اور شفقتوں کے آج بھی معترف ہیں اور آزاد کشمیر ہو یا برطانیہ رابطے استوار رکھتے ہیں ۔ نور الٰہی صاحب کا ناٹنگھم سے زوم Zoom پہ رابطے میں رہنے کا بھی خصوصی شکریہ ۔ آئندہ بروز ہفتہ یہ نشست جناب ڈار صاحب کے ہاں اس شرط پہ ہو رہی ہے کہ ان کی سابقہ کارستانیوں کا کوئیتذکرہ نہیں ہوگا ۔

ان کی بیگم صاحبہ ماشااللہ کافی جہاندیدہ خاتون ہیں اور وہ پوری کوشش کرتی ہیں اگر ہر سال نہ سہی تو کم از کم دوسرے سال ان کی لغزشوں کوتاہیوں اور بشری کمزوریوں کی معافی تلافی کے لیے عمرے پہ لے جایا کریں ۔ مگر ڈار صاحب لاھور میں جو پہٹھ ہم سے کرواتے ر ہے ہیں ان کے لیے مودی کی طرح جب تک دونوں ہاتھ جوڑ کر ہم سے معافی نہ مانگیں بخشش کیسے ہو گی ۔ دیکھتے ہیں کہ اپنے ہاں عشائیے پہ وہ یہ فریضہ ادا کر سکتے ہیں یا نہیں ۔ اللہ پاک اپنے رحم و کرم سے ہم سب کی خطائوں کو معاف فرمائے اور ہمیشہ ہمیشہ ہم سب کے حامی و ناصر ہوں ۔ آمین یارب العامین ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!
[hcaptcha]