وزیر اعظم شہباز شریف کا کٹھن سفر

0

وزیر اطلاعات پی ٹی وی کے معاملات درست کریں
دھینگا مشتی، مار کٹائی، دنیا میں پاکستان کے جمہوری اداوں کی جگ ہنسائی کے بعد تاحال عوام گمگوں کا شکار ہیں کہ انکا مستقبل کیاہوگا، ا س بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کسی تعارف کی مہتاج نہیں، انکی آمد سے یقیناً نوکر شاہی میں بیٹھے کام چوروں میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے وزیر اعظم اپنے محنتی ہونے کے تعارف کے ساتھ نوکر شاہی کے لئے وجہ خوف نہ بنیں چونکہ کام تو نوکر شاہی نے کرنا ہوتا ہے جہاں کام میں رکاوٹ ہو وہاں بلکل فوری تادیبی کارروائی ہو۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت ایک انتہائی وسیع البنیاد عمران مخالف اتحاد کی حکومت ہے۔ یہ اتحاد وزیر اعظم کی سابقہ شہرت اور لقب ”خادم اعلیٰ“ سے بہت زیادہ مشکل ہے چونکہ سابقہ حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے بھانت بھانت کے لوگ جمع ہوگئے ہیں جنکی نیت پر کوئی شک نہیں مگر سابقہ تجربات اور تاریخ کے مطابق اس اتحاد میں شامل پی پی پی کی اتحادوں کے معاملے مین کاکردگی مشکوک ہی رہی ہے۔ وسیع تر اتحاد کی یہ حکومت فقط تین اراکین کی اکثریت پہ قائم ہے جسے زیادہ عرصہ جاری رکھنا ایک نہایت صبر آزما، مشکل اور پیچیدہ کام ہوگا۔ وزیراعظم اور ان کے اتحادیوں کی باتوں سے معلوم پڑتا ہے کہ ان کا ارادہ اس اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک اقتدار پہ براجمان رہنے کا ہے تین ماہ میں انتخابات ایک خواب سے کم نہیں، تحریک انصاف نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پاکستانیوں کے درمیان جو اختلافی، اور صبر سے بہت دور ایک نئے سنگین ماحول کو جنم دیا ہے جس میں آئین، قانون سے بہت دور نعرے اور معاشرے میں اعلی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے کا ٹھیکہ لیا جو گلی محلے، سڑکوں تک آچکا ہے جو کسی بھی ملک اور قوم کیلئے زبان، قومیت، صوبائی دشمنی سے بھی بد تر ہے۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف عمران کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کو آمادہ نہیں ہورہے تھے۔ ان کے چند دیرینہ وفادار بھی مصر رہے کہ سابق وزیر اعظم کو ”سیاسی شہید“ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے باوجود بھی یہ وفادار مصر رہے کہ سابق وزیر اعظم کی فراغت کے بعد جو نیا شخص اس عہدے کے لئے منتخب ہو وہ حلف اٹھاتے ہی عہد کرے کہ ”انتخابی اصلاحات“ یقینی بنانے والے قوانین کی برق رفتار تیاری اور منظوری کے بعد موجودہ قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی اور نئے انتخاب کی جانب بڑھا جائے گا۔ مگر حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل کئی جماعتیں اور خود مسلم لیگ ن میں بھی اس بات پر ہم آہینگی نہیں تھی وہ ہر صورت عمران خان صاحب سے فی الفور نجات حاصل کرنا چاہ رہی تھیں۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے منصب سے فراغت کے بعد کیا کرنا ہے اس کی بابت اگرچہ ان کے ذہن میں کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں تھی جسکا اندازہ حلف برادی کے بعد نو دن تک کابینہ کا اعلان نہ ہوا، اب ہوا بھی ہے تو مکمل نہیں مسئلہ وہی پی پی پی ! مسلم لیگ ن ، مولانہ فضل الرحمان، وہ دیگر جماعتیں مخلص ہین کوئی مطالبے نہیں۔بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے جیسا اوپر تحریر کیا ہے کہ نواز شریف کے وہ ذاتی وفادار جو عمران خان کو ”سیاسی شہید“ نہیں بنانا چاہ رہے تھے اپنے خدشات کے حوالے سے ان دنوں درست ثابت ہورہے ہیں۔پارلیمانی جمہوریت کے کتابی تقاضوں کو ذہن میں رکھیں تو عمران خان آخری لمحات تک خود کو وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رکھنے کے لئے ہر نوعیت کا حربہ استعمال کرتے نظر آئے۔ اس ضمن میں کئی۔

ایسے حربے بھی استعمال ہوئے جو ہر اعتبار سے غیر آئینی تھے۔ہم مگر اندھی نفرت وعقید ت میں خوفناک حد تک تقسیم ہوئی قوم بن چکے ہیں۔”تخت یا تختہ“ والے ماحول میں حقائق معدوم ہوجاتے ہیں۔جذبات سے مغلوب ہوئے فریقین اپنے تعصبات اور خواہشات پر مبنی ”حقائق“ ہی ایجاد کرلیتے ہیں۔سابق وزیر اعظم کا بیانیہ کہ امریکہ سرکار نے انکے خلاف ساز ش کی ہے وہ چند حقایق کے بعد تقریبا دم توڑ چکا ہے اب انکا مرکز اتحادی حکومت میں خامیاں تلاش کرکے اسکا پروپنگڈہ کرنا ہے، کون ناراض ہورہا ہے کون اتحاد میں خوش ہے اب اسکا جھوٹا سچا بیانیہ ہی پی ٹی آئی کے بیانئے، جلسوں میں مرکز رہے گا جس میں انکا مضبوط سوشل میڈیا انکی مدد کرتا ہے میڈیا بھی تقسیم ہے، غیر جانبدار الیکٹرانک میڈیا کا تصور ختم ہوچلا ہے عوام اپنی سوچ سے قریب چینل ہی دیکھتے ہیں، گزشتہ دنوں سابق وزیر داخلہ مختصر ملاقات ہوئی وہاں بات چیت میں پی ٹی آئی کے مقامی لوگوں نے ایک چینل کے متعلق بات کی وہ پی ٹی آئی کے خلاف ہے اسے اپنے دور حکومت میں کیوں لگام نہیں دی؟ سابقہ وزیر نے کہا فواد چوہدری نے کوشش تو کی تھی مگر بہت سارے معاملات ہیں مشکل ہوتا ہے، ویسے حکومت کا ایک ادارہ پاکستان ٹیلی ویثرن جسے واقعی ہی آزادی اظہار کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے اور دیگر نجی چینلز کے مقابلے میں اسے بہتر انداز میں چلایا جاسکتا ہے، مگرپاکستان میں یہ تماشا ہمیشہ سے ہی چلتا رہا ہے کہ حکومتیں پی ٹی وی کو اپنی مرضی اور صرف اپنے مفاد کیلئے چلانے کی نیت سے اپنے جاسوس نما صحافی نمائندے پاکستان ٹیلی وژن نیوز میں تعینات کرتی ہیں۔ سابقہ دور حکومت میں میڈیا ہاؤسز میں بڑے پیمانے پر بے روزگار ی ہوئی، ادارے بند ہوئے۔ یہی حال پی ٹی وی نیوز کا بھی کیا اور اس کو ٹھیک کرنے کیلئے عوام کو ریاست پاکستان کے اس اہم ترین ادارے کے بارے میں سابق وزیر اعظم نے خوش کن بات کی تھی کہ میرے وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کی سربراہی میں پی ٹی وی کو بی بی سی بناؤں گا مگر ۔ بی بی سی تو کیا بنانا تھا خان صاحب کے وزیر نے اپنے عزیزوں، سفارشیوں کی بھرتی شروع کردی ۔اہم عہدوں مینجنگ ڈا ئریکٹر اپنے عزیز شنید ہے تعینات کیا،جو وزیر اعظم شہباز شریف کی آمد پر خود ہی استعفے دیکر چلے گئے۔

سینئر پروڈیوسرکرنٹ افیئرز و انچارج ڈائریکٹر کرنٹ ا فیئر ز جیسے اہم عہد ے پرقریب ترین ایک سابق صحافی کوتعینات کیا اور اس جیسے اپنے کئی فرنٹ مین اس ادارے میں بھرتی کیے جو آج بھی پاکستان ٹیلی وژن کی اہم ترین پوزیشن پر براجمان ہیں انچارج کرنٹ افیئرز اور ایگزیکٹو پروڈیسر جو دو عہدوں پر فائز ہیں شنید ہے کہ سابق وزیر اطلاعات کے بنائے ہوئے سوشل میڈیا کی سربراہی و سہولت کار ہیں مسلم لیگ ن ہمیشہ میڈیا کے حوالے سے تحریک انصاف کے مقابلے میں بہت پیچھے رہی ہے اسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات کے بھرتی شدہ افراد آج بھی وہاں تعینات ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ حق ہے کہ ریاست کے تمام اداروں کی طرح پاکستان ٹیلی وژن نیوز بھی ان کو ان کا مکمل حق دے پی ٹی وی کے حالیہ ایگزیکٹو پروڈیوسرکرنٹ افئیر شا ید یہ کام سابق وزیر اطلاعات کی تابیداری کی بناء پر یہ نہ کرسکیں، پی ٹی وی کے کئی کارکن تاحال سابقہ مشیر اطلاعات ہ وزراء شہباز گل، فرخ حبیب، کئی کارکنان انہیں کی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں شائد ان معاملات کو نئی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب اس طرف توجہ دے دیکراس عظیم ادارے کو تباہی سے بچائیں گی تاکہ یہ سرکاری ادارہ کے برہم عوام میں قائم ہوسکے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!