پہلے عوام کو آباد کریں پھر سیاست کریں

0

گزشتہ چالیس سالوں سے سیاست پر نظر رکھنے والوں، اور اخبار بینوں کو یاد ہوگا کہ کچھ سال پہلے پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں انتخابات کے قریب اخبارات ان تصاویر اور خبروں سے بھر ا ہوتا تھا جس میں ملک کے طول عرض سے روزانہ سینکڑوں لوگ فلاں فلاں کی قیادت میں پیپلز پارٹی میں شام ہونے کا اعلان کررہے تھے یہ ہی ریت دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپناتی تھیں انکی جماعتوں میں جوق درجوق عوام شمولیت کا اعلان کررہے تھے ایک منچلے نے اخبارات کے اعداد و شمار اکھٹے کئے تو معلوم ہوا سیاسی جماعتوں خاص طور پر پی پی پی میں شمولیت کرنے والوں کی تعداد ملک کی آبادی سے زائد ہوچکی تھی، انتخابات ہوئے اور پی پی پی انتخابات میں ہار گئی نہ جانے وہ کروڑوں لوگ جو شمولیت اختیار کررہے تھے وہ کہاں چلے گئے تھے۔

پاکستان کی حالیہ قدرتی آفت ”سیلاب“جس نے انسانی زندگی کو تہس نہس کردیا ہے یہ پاکستان کی تاریخ کا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد سب سے بڑا نقصان ہے یہاں بھی سیاست دان اپنا کھیل کھیل رہے ہیں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت اعلان کرتی ہے مقبولیت کی یہ انتہاء ہے چند گھنٹوں میں انکی اپیل پراربوں روپے نہ صرف ملک سے بلکہ بیرو ن ملک سے جمع ہوگئے، اسی طرح کی خبر پی پی پی کے بلاول بھٹو کے حلقوں سے بھی آئی انکی اپیل پر بھی اربوں روپئے جمع ہوگئے اس تباہی کو دیکھتے ہوئے دوست ممالک بھی آگے آئے اور اربوں ڈالرز سنا ہے وہاں سے بھی آگئے، برادر ملک سعودی عرب کے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان کی ریلیف تنظیم کی جانب سے بھی سعودی عوام اور غیرملکیوں سے عطیات کی اپیل ہوگئی ہے اسی دوران آڈیٹر جنرل کی ایک روپورٹ بھی آگئی ہے سیلاب کی روک تھام کیلئے پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں جرمنی سے ایک بڑا فنڈ آیا تھا کہ ا س پر کام کیا جائے مگر وہاں نواز شریف، شہباز شریف، ذرداری کو گالیاں دینے کے علاوہ کوئی خاطر خواہ ہی نہیں بلکہ کچھ بھی کام نہ ہوا جس بناپر اس پراجیکٹ کیلئے رقم دینے والے ملک نے وہ رقم واپس بھی لے لی۔

اس وقت جتنی رقم دوست ممالک نے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے کو دی ہے، لگتا ہے کہ اگر حکومت اسے استعمال کرکے تباہ حال لوگوں کی آباد کاری کیلئے استعمال کرلے، امید ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنی بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کو بروکار لاکر یہ کام سر انجام دیں لیں گے۔ بلوچستان، سندھ جہاں زیادہ تباہ کاری ہوئی ہے وہاں کے عوام دنیا کی جانب اتنی بڑی امداد سے بے خبر ہیں انہیں تو دو وقت نہیں ایک ہی وقت روٹی کا آسراء ہوجائے تو کافی ہے۔ پاکستان کی تاریخ دیکھتے ہوئے اور نوکر شاہی کے سابقہ کارنامے دیکھتے ہوئے جنکے رحم و کرم پر مصائب پر قابو پانے کی ذمہ داری ہے وہاں سے کوئی امید نظر نہیں آتی، کیا وجہ ہے کہ برطانیہ سے امداد میں آنے والی اشیاء ضرورت مندوں کو پہنچنے کے بجائے بازار میں فروخت ہورہی ہیں ؟؟یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا گزشتہ ایک سیلاب میں سعودی عرب سے پاکستان کمیونٹی نے اجناس جمع کرکے، سردیوں کا زمانہ تھا کئی کونٹینرز امداد روآنہ کی تھی مگر وہ کمبل ، اور دیگر اشیاء ضرورت مندوں تک پہنچنے کے بجائے بازار میں فروخت ہورہی تھیں، یہ پاکستان میں انتظامات کرنے والے قابل نفرت اور بااثر لوگوں کے علاوہ کون کرسکتا ہے جو وقت پڑنے پر انسان کا خون چوسنے اورگوشت کھانے سے دریغ نہیں کرتے۔

اس مرتبہ بھی امید ہی نہیں یقین ہے کہ سیلاب نے جس بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ اس سے ہمارے سیاستدانوں۔ ارکانِ اسمبلی۔ علمائے کرام۔ اینکر پرسنز۔ صنعت کاروں۔ چیف سیکرٹریوں۔ آبپاشی سیکرٹریوں۔ ریلیف کمیٹیوں کے سربراہوں اور ارکان کی آنکھیں کھلیں گی۔ اب ہمارے صدر۔ وزیر اعظم۔ وزرائے اعلیٰ۔ صوبائی وزیروں سب کو جذباتی۔ انتقامی سوچ ترک کرکے انتظامی فکر اختیار کرنا ہوگی۔ نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ تباہی کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ چاروں صوبے،دونوں اکائیاں متاثر ہوئی ہیں۔ سندھ میں اموات بھی زیادہ ہوگئی ہیں۔ دریاؤں اور سیلابی پانی کے آخر میں واقع ہونے کے باعث گلگت بلتستان۔ کے پی کے۔ پنجاب۔ جنوبی پنجاب اور بلوچستان ہر طرف سے آنے والے سیلابی ریلوں نے سندھ میں قیامتیں برپا کی ہیں۔

اب وزیر اعظم کو چاہئے کہ مینجمنٹ سائنسز کے ماہرین سے مشاورت کریں۔ زرعی یونیورسٹیوں۔ انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے تجاویز مانگیں۔ غیر ملکی ماہرین کی مدد کے بجائے مسائل ہمارے ماہرین کو ہی حل کرنے ہیں۔ یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ مسائل کبھی انسان سے بڑے نہیں ہوسکتے۔تعمیر نو جنگی بنیادوں پر ہوگی۔ یہ احساس ہم سب کے ذہنوں میں سر فہرست رہنا چاہئے کہ تباہی بربادی ان علاقوں میں آئی ہے جو ہمارے لئے گندم۔ چاول۔ مکئی۔ گنا اور دوسرا غلہ پیدا کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہمارے وہ جفاکش بھائی ہوتے ہیں جن کی محنت کے بل پر ہم بڑے چھوٹے شہروں میں رہنے والے سکون سے سانس لیتے ہیں۔ بلوچستان والے ہوں۔ جنوبی پنجاب۔ سندھ کے ہاری۔ کے پی کے کے محنت کش۔ یہ فعال نہ ہوں تو ہم بھوک سے بلکیں۔ پیاس سے تڑپیں۔ ہمیں لباس نہ ملے۔ ہماری شوگر ملیں چینی پیدا نہ کریں۔ ہماری ٹیکسٹائل مل نہ چلیں۔ ہمیں دال ملے نہ گوشت ہم پہلے ہی مہنگائی کے چنگل میں پھنسے ہیں اللہ کو معلوم ہے ہماری فصلیں تباہ ہونے کے بعد ہماری عوام کو کس مہنگائی کا سامنا کرنے پڑے گا ،ہمارے کسان اور محنت کش کروڑوں ہم وطن ہم کروڑوں کی زندگی آسان بناتے آرہے ہیں۔

اب وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے جیون کو معمول پر لانے کے لئے دن رات ایک کردیں۔ صبح شام ہماری ایک ہی دھن ہونی چاہئے۔ ہماری گفتگو کا۔ میٹنگوں کا موضوع یہی ہونا چاہئے۔ ٹاک شوز میں بھی غیر ذمہ داری سیاستدانوں کی بجائے زراعت۔ آبپاشی۔ صنعت۔ تعمیرات کے ماہرین کو اپنے تجربات اور تجاویز دینے کا موقع دیا جائے۔ قوم کو مینجمنٹ کی تربیت دی جائے۔ یہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ ان کو بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کو اپنی حکومت چلے جانے کا غم اور غصہ ہے جس میں انکے معروف U-TURN میں اضافہ ہوچلا ہے، وہ یہ بھول رہے ہیں اس وقت اپنی مرضی کا سروس چیف لانے، عدلیہ کی تزہیک کرنے کا نہیں بلکہ اگر وہ حکومت کا ہاتھ نہ بٹاسکیں تو کم از کم اپنے اراکین کو سیلاب کی تباہ حال کی مدد کوبھیجیں کہتے ہیں کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں دنیا میں انکی شہرت ہے مگرعوام میں مقبولیت کیلئے،عوام کی خدمت کی ضرورت ہے غصے سے بپھرے،کبھی ملفوف اور کبھی ننگے الفاظ سے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا ۔ایسا بیانیہ عمران خان کو مقبولیت دے گیا مگرالیکشن سے کوسوں دورلے جائے گا وہ اپنے گزشتہ لانگ مارچ کا انجام دیکھ چکے ہیں یہ بھی دیکھ چکے ہیں بقول انکے وہ ”خطرناک“ ہیں مگر حقیقت میں وہ ہیں نہیں اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں اور اب وہ سیلاب کی تباہ کارویوں سے لا علم لگتے ہیں اور ستمبر میں ہی پھر عوام کو لانگ مارچ کی کال دینے کا عندیہ دے رہے ہیں ا نکی یہ کال کسطرح کارآمد ہوگی ؟؟؟ یہ پھر یو ٹر ن لینا پڑے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!