سویڈن میں پھر قرآن سوزی،وجوہات اور حل

0

ایک اسلام دشمن ملعون کی جانب سے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانہ کے سامنے قرآن حکیم کو جلانے کے واقعہ نے پوری امت مسلمہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس شیطان نے اس قبل گذشتہ سال سویڈن کے کئی شہروں میں قرآن سوزی کی۔ اس مرتبہ ترکی کے سفارت خانہ کے سامنے اس واقعہ کے ہونے کی محرکات سیاسی بھی ہیں۔ سویڈن نے نیٹو میں شمولیت کی درخواست دے رکھی ہے جسے ترکی نے روک رکھا ہے۔ ترکی سویڈن سے کچھ کرد علیحدگی پسندوں کی حوالگی چاہتا ہے جس کی سویڈن کی سپریم کورٹ نے اجازت نہیں دی ۔ اس وجہ سے دونوں ملکوں میں بہت تنائو ہے۔ اس صورت حال کا فائدہ اس بدبخت نے اٹھایا۔ اس واقعہ کا پوری دنیا میں شدید رد عمل ہوا ہے اور سویڈن کے پرچم جلائے گئے ہیں۔جامع الازہر نے سویڈن کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔

اسلامی کانفرس بھی اس کی مذمت کررہی ہے۔جب بھی کوئی بد بخت اسلام کے خلاف بے بنیاد پروپوگنڈا کرتا ہے یا ختم المرسلین ؐ، صحابہ اکرامؓ، اہل بیت اطہارؓ اور اسلام کی دیگر عظیم شخصیات کے بارے میں گستاخانہ باتیں کی جاتی ہیں اور قرآن حکیم کی توہین کی جاتی ہے تو ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی دل آزادی اور تکلیف دہ امر اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اسلام دشمن عناصر یہ سب جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اہل اسلام کے جذبات سے کھیلنااور انہیں زچ کرتے ہوئے تعصب اور مذہبی منافرت کا نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ وہ آزادی رائے کی آڑ میں ایسی مذموم حرکتیں کرکے شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سویڈن میں قرآن سوزی کے افسوس ناک واقعات کا سلسلہ چند سال پہلے شروع ہوا۔ وہ شخص بنیادی طور پر سویڈن کا رہنے اور اس وقت ڈنمارک میں مقیم ہے اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت سے وابستہ ہے۔

سویڈن میں مسلمان سراہا احتجاج ہیں اور جن شہروں میں اس بد بخت نے قرآن سوزی کی مذموم حرکت کی وہاں اس کے مخالف زبردست مظاہرے ہوئے جن میں کئی مظاہرین اور پولیس والے باہمی جھڑپوں میں زخمی بھی ہوئیں۔ مظاہرین کا شدید رد عمل کی وجہ ایک تو اس بدبخت شخص کو قرآن سوزی کی اجازت دینا اور پھر پولیس کا اسے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ قرآن حکیم کی سورہ نساء کی آیت ایک سو چالیس میں ایسے واقعات پر ردعمل کاطریقہ بتایا گیا ہے کہ اگر کہیں اللہ کی آیات کا مذاق اٹایا جارہا ہو۔ وہاں سے اٹھ جاو وگرنہ تم بھی ان جیسے ہوجاو گے اور جب وہ لوگ عام باتیں شروع کریں تو پھر آ کر بیٹھ سکتے ہو۔ یہ ایک بہترین راہنما اصول ہے۔ ایسے واقعات کی تشہیر بالکل نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ بدبخت یہی چاہتا ہے کہ اسے شہرت ملے۔ اسے بالکل نظر انداز کرنا چاہیے اور سویڈن میں ایسا ہی کیا گیا۔ جب اسے نظر انداز کیا گیا تو وہ بہت عرصہ خاموش رہا۔ اب اس نے سویڈن ترکی کی مخاصمت کو موقع غنیمت جان کر یہ شیطانی حرکت کی جس کا خمیازہ سویڈن کا بھگتنا پڑ رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب دیگر یورپی ممالک نے اس پر پابندی لگائی ہے تو سویڈن اسے کیوں اجازت دے رہا ہے۔اس کی وجہ سویڈن کا شہری آزادی کا قانون ہے جو یہاں کے آئین میں لکھا ہے اور اس پر حکومت پابندی عائد نہیں کرسکتی۔ سویڈن میں اگر کوئی احتجاج کرنا چاہے تو اسے قانون کے مطابق روکا نہیں جاسکتا۔تین برس قبل جب دنیا میں کورونا کی وبا شروع ہوئی اور دنیا کے تمام ممالک نے نقل و حمل پر پابندیاں عائد کیں اور لاک ڈاؤن کیا گیا لیکن سویڈن میں ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ بھی یہی شہری آزادیوں کا آئینی حق تھا۔ جب کورونا کے حالات بہت شدید ہوئے تو پھر پارلیمنٹ نے عارضی طور پر کچھ اقدامات کرنے کی اجازت دی لیکن لاک ڈاؤن کی اجازت پھر شامل نہ تھی۔ قرآن سوزی کرتے والا بدبخت اسی قانون کی آڑ میں یہ شیطانی حرکتیں کررہا ہے ۔

سویڈن میں مسلم راہنماؤں کی رائے ہے کہ قرآن سوزی ایک جرم ہے اور اس مذموم حرکت کا کوئی جواز نہیں۔ یہ نفرت انگیز اور شرمناک عمل ہے اور ہم ایسی حرکتوں پر اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ ایسے واقعات آزادی اظہار کو پامال کرنے اور معاشرتی تقسیم اور نفرت پھیلانے کا باعث ہیں۔ ایک مسلمان ماہر سیاسیات بیرول باسکان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان پریشان ہیں اور یہ کہ احتجاج کرنا مناسب ہو سکتا ہے، لیکن تشدد کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے مذہب کا احترام کرنا چاہیے، لیکن مسلمانوں کو بھی ملکی قوانین اور آزادیوں کا احترام کرنا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے قرآن سوزی کے واقعات کے مخالف ہونے والے مظاہروں میں سویڈش مسلمانوں کی نمائندہ تنظیمیں اور مذہبی راہنما نمایاں طور پر سامنے نہیں آئے۔

سویڈن میں مسلمانوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ بدبخت شخص مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے اور یہ جانتا ہے کہ اس کے شیطانی عمل کے بعد مسلمانوں میں شدید اضطراب پیدا ہو گا اور رد عمل آئے گا اور اس کی تشہیر ہوگی۔ہمیں قانون کے اندر رہ کر کوشش کرنی چاہیے، مسلم ممالک سویڈن پر دبائو ڈالیں، سویڈن کی مسلم آبادی یہاں کوشش کرے تاکہ آزادی رائے کے قانون میں اس حوالے سے ترمیم ہونی چاہئے۔ اس کے لئے لابنگ اور قانونی جدوجہد کی ضرورت ہے اور مسلم سیاستدانوں او ر ماہرین قانون کو یہ کوشش کرنا ہوگی۔سویڈن کی سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جانا چاہیے اور آزادی تحریر و تقریراور توہین مذہب پر عدالت سے رائے لینی چاہیے۔ جہاں تک قرآن سوزی کرنے وا لے بدبخت شخص کا معاملہ ہے تو وہ خدا کے قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا جس کا ذکر سورہ العنکبوت کی آیت 4 میں یوں ہے کہ کیا جو لوگ برے کام کرتے ہیں یہ گمان کئے ہوئے ہیں کہ وہ ہمارے قابو سے باہر نکل جائیں گے؟ کیا ہی برا ہے جو وہ (اپنے ذہنوں میں) فیصلہ کرتے ہیں‘‘

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!