حکومت کہیں نظر نہیں آتی

0

کسی کو اقتدار عروج دینے کے لئے ملتا ہے تو کسی کو زوال کے لئے، کسی کا اقتدار اسے صدیوں کے لئے امر کر جاتا ہے اور کسی کو ذلت کی پستیوں میں دھکیل جاتا ہے۔ نون لیگ کی مشترکہ قومی حکومت بھی اسی پستی کا شکار ہے۔ اقتدار میں شریک سیاسی جماعتوں کی بندر بانٹ سے عوام میں مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے گرتا چلا جا رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ آئے دن کی مہنگائی اور عوام کو ریلیف نہ دینا، ذاتی اور سیاسی مفادات سے فائدہ اُٹھانا ہے۔ ہر جماعت میں سے دہائیوں سے تجربہ کاروں کے ٹولے کی فوج ظفر موج اکٹھی کر کے پاکستان کی سب سے بڑی وزراء کی مخلوط حکومت بنائی گئی لیکن تجربہ کاروں کی کارکردگی صفر۔ جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ان ناعاقبت اندیشوں کو نہ پہلے حکومت چلانے کا تجربہ تھا اور نہ اب۔ کل تک یہی جماعتیں عمران خان کی حکومت کو طعنے دینے سے نہیں تھکتی تھیں کہ عمران خان کی حکومت کو فوج چلا رہی ہے لیکن پی ڈی ایم کی حکومت کو فوج کیوں نہ چلا سکی؟ کیوں آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ غریب آدمی کو آٹا تک میسر نہیں؟ کاروباری حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ رجیم چینج کے بدلے میں لائی جانے والی حکومت کو بظاہر فوج کی پشت پناہی حاصل ہے، اب فوج اور پی ڈی ایم کی حکومت مل کر بھی پاکستان کو دلدل سے نہیں نکال پا رہے بلکہ اس دلدل میں اور دھنستے چلے جا رہے ہیں۔

جنیوا کانفرنس سے جو تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ دوست ممالک سے بھاری رقوم امداد کی مد میں پاکستان کو مل رہی ہے اور پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہونے جا رہا اس غبارے سے بھی ہوا نکلتی جا رہی ہے۔ حالات اس قدر گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں کہ حکومت کے ساتھ دوست ممالک کوئی تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ کل تک فوج کو گالیاں دینے والے اب موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو دوست عرب ممالک سے قرض کی حصول کے لئے منت سماجت کر رہے ہیں کیونکہ حکومت کی اپنی ساکھ پر کوئی ان کو قرض دینے پر راضی نہیں۔ اگر حکومت میں اتنی قابلیت ہے تو کیوں فوج کے کندھوں پر بندوق رکھ کے چلا رہے ہیں ؟ کیوں وہ حالات اور بیرونی دنیا کو فیس نہیں کر پا رہے ؟ اصل وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی دوست ممالک اس غیر یقینی کی صورتحال میں پی ڈی ایم حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ سندھ میں سیلاب کی کارکردگی کا جو پوسٹ مارٹم جینیوا میں ہوا اور جس سبکی کا سامنا وہاں کرنا پڑا وہ ایک الگ داستان ہے۔ جب نااہل لوگوں کو اہل لوگوں کے مقابلے میں نوازا جائے تو ذلت قوموں کا مقدر ہو جاتی ہے۔

عمران خان کو کھلاڑی کہنے والے ایک سے بڑھ کر ایک سیاسی غلطی کرتے جا رہے اور بڑی آسانی سے اس کے بچھائے ہوئے جال میں پھنستے جا رہے ہیں کہ ان کے پاس بند گلی میں گھسنے کے کوئی چارہ نہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ خان اسمبلیاں تحلیل نہیں کرے گا اور اور عمران خان نے یکے بعد دیگرے پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں تحلیل کر کے ایسی سیاسی بے یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آگے کھائی ہے اور پیچھے سمندر۔ پاکستان تحریک انصاف کے استعفے قبول کر کے بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انہوں نے سیاسی داؤ چل کے تحریک انصاف کے دونوں شانے چِت کر دئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نظر آ رہا ہے آنے والے دنوں میں حکومت بند گلی میں داخل ہو چکی ہے جہاں سے اس کی واپسی کا حل انتخابات کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت کے لئے اب یہ بات بھی درد سر بن گئی ہے کہ ایک ہی بار جنرل الیکشن کی طرف جایا جائے یا صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن پہلے شیڈول کیا جائے دونوں صورتوں میں فائدہ عمران خان کو ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حالات یہ رُخ اختیار کر گئے ہیں کہ اس گومگوں کی کیفیت میں ملک کا نہیں سوچا جا رہا اور ساری توجہ اقتدار بچانے پر لگی ہوئی ہے۔

ڈالر کی اُڑان جاری ہے اور سپریم کورٹ کی مداخلت سے بنکوں کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اوپن مارکیٹ میں موجودہ ریٹ پر ڈالر کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے ڈالر 260 روپے کی حد کو عبور کر گیا ہے اور مہنگائی کا ایسا طوفان آ گیا ہے کہ الامان الحفیظ۔ ڈالر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے والوں نے نہ کوئی معاشی منصوبہ دیا نہ ایسی پولیسی بنائی کہ لوگوں کا اس حکومت پر اعتماد بحال ہوتا اور معیشت کا پہیہ چلتا، لوگ کاروبار میں روپیہ انویسٹ کرتے۔ جس ملک میں کاروبار اور خرید و فروخت رک جائے وہاں کی ترقی کا پہیہ بھی رک جاتا ہے لیکن یہ بات ہمارے حکمرانوں کو سمجھ نہیں آتی اس کشتی کا ناخدا بنا کر جس کو ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا اس کا خادم اعلی، اور گُڈ گورنس کا رچایا گیا ناٹک اختتام پزیر ہوا۔ شہباز شریف کو لانے والے بھی یقیناً اب پچھتا رہے ہوں کہ کیسے شخص کو ملک کی نمائندگی کے لئے مسلط کیا گیا ہے جس کو ملک کے چلانے کی نہ کوئی سوجھ بوجھ ہے اور نہ کوئی منصوبہ، جو جہاں کہیں بھی جاتا ہے خیر کی خبر نہیں لاتا اُلٹا پاکستان کی جَگ ہنسائی کا مؤجب بن رہا ہے۔ 80 افراد پر مشتمل کابینہ جو عرصہ دراز سے ایوان اقدار پر براجمان رہے وہ ملک کو چلانے کے قابل نہ ہو سکے۔ ان نا مساعد حالات میں ملک کو پٹری پر لانے کا واحد حل صاف شفاف اور فوری انتخابات ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!