آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی اور قابل افسوس پہلو

0

جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے 1973ء کا متفقہ آئین دیا جس کے پچاس سال مکمل ہونے کے بعد گولڈن جوبلی تقریبات جاری ہیں۔ پاکستان میں آئین سازی کی تاریخ بہت عجیب ہے۔ پاکستان کا پہلا آئین 29 فروری 1956ء کو منظور ہوا اس اس وقت کے گورنر جنرل اسکندر مرزا نے 2مارچ کو اس پر دستخط کئے اور پھر 23مارچ 1956ء کو یہ آئین نافذ ہوا ۔ اس طرح 23 مارچ ،آئین کے نفاذ کے دن کو یوم جمہوریہ قرار دیا گیا ۔ حکومت پاکستان کے محکمہ ڈاک نے یوم جمہوریہ کے حوالے سے خصوصی ڈاک ٹکٹ جاری کیا ۔ 23مارچ 1956ء کو یوم جمہوریہ شان و شوکت سے منایا گیا اور اس روز صدر پاکستان اسکندر مرزا نے ایک خصوصی تقریب میں سابق گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو نشان پاکستان جبکہ بیگم وقار النسا ء نون ، بیگم اسکندر مرزا اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو نشان امتیاز دیا۔ اسی تقریب میں عبدالرحمن چغتائی ، زین العابدین، پروفیسر عبدالسلام، حفیظ جالندھری، ڈاکٹر شہید اللہ، جسیم الدین، ہاشم خان، حوالدار عبدالخالق، عبدالحفیظ کاردار اور فضل محمود کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دیا گیا۔ اس آئین کے نفاذ کے تحت ابھی نئے انتخابات نہیں ہوئے تھے اور صرف ڈھائی سال بعد اسکندر مرزا جس نے اس آئین پر دستخط کئے تھے، اسی نے 7اکتوبر 1956ء کوآئین روند ڈالا اور ملک میں پہلامارشل لا ء لگا دیا۔چند ہی دنوں بعد 27 اکتوبرکو جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کی چھٹی کرا دی اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

اگلے برس 1959ء کو جب 23مارچ کا دن آیا جوآئین منظور ہونے کی وجہ سے یوم جموریہ کے طور پر منایا جاتا تھا تو مشکل پیدا ہوئی کہ اب کیا کیا جائے۔ آئین کا تو قتل ہوچکا اور جمہوریت کی جگہ مارشل لاء نے لے لی تو پھر یوم جمہوریہ کیسے منایا جاتا؟ ۔ اقتدار پر قابض عالی دماغوں نے قوم کی نفسیات اور جذبات سے کھیلنے کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ 23مارچ کو اور کیا ہوا تھا۔ انہیں اپنی مشکل کا حل یوں نظر آیا کہ 23 مارچ کو قرار داد پاکستان پاس ہوئی تھی لہذا یوم جمہوریہ کی بجائے اس دن کو یوم پاکستان کے طور پر منایا جانے لگا حالانکہ 23مارچ 1940ء سے 23مارچ 1958ء تک کبھی بھی یہ دن یوم پاکستان کے طور پر نہیں منایا گیا ۔ گویا 23مارچ کو یوم پاکستان منانے کی طرح ایک آمر نے رکھی جو اب بھی جاری ہے بلکہ یہ پاکستان کا قومی دن بھی ہے۔

پاکستان کا دوسرا آئین جنرل ایوب خان نے 1962 ء میں دیا لیکن 25مارچ 1969ء کو فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے ہوئے اس آئین کو ختم کردیا۔ 25مارچ کو ہی 1971ء میں جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں فوجی ایکشن کیا جو پاکستان ٹوٹنے کی آخری وار ثابت ہوا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کا نظام مملکت چلانے کے لئے سات دسمبر 1970ء کو ہونے والے انتخابات کے تحت اسمبلی وجود میں آئی۔ اس اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت تھی لہذا زوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنھبال لیا۔قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی قائدین نے ملک کے لئے آئین سازی کے لئے 20اکتوبر 1972ء کو ایک آئینی سمجھوتہ کیا ۔ اس کے تحت ملک میں آئین سازی کا عمل شروع ہوا اور محمود علی قصوری کی سربراہی میں آئین ساز کمیٹی نے کام شروع کردیا۔ بعد ازاں محمود علی قصوری اختلافات کے باعث مستعفی ہوگئے تو عبد الحفیظ پیرزادہ کی سربراہی میں 25رکنی کمیٹی نے کام شروع کردیا ۔ اس کمیٹی میں چھ اراکین حزب اختلاف سے تھے جن میں جمیعت العلماء اسلام کے سربراہ مفتی محمود، جمیعت العلماء پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی، پاکستان مسلم لیگ کے سرادر شوکت حسین اور میاں مماز دولتانہ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ایر زادہ خان اور جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد شامل تھے۔

کمیٹی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے انیس اراکین شامل تھے جن میں ڈاکٹر غلام حسین بھی شامل تھے۔ جس کمیٹی نے 1971ء کا متفقہ آئین دیا اس میں سے اس وقت صرف ڈاکٹر غلام حسین زندہ ہیں۔ آئینی کمیٹی نے اپنی سفارشات مرتب کرکے مسوودہ یکم جنوری 1973ء کو قومی اسمبلی میں پیش کردیا جس پر دس اپریل تک بحث ہوتی رہی اور آخر کار 10اپریل 1971ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی۔ اسمبلی کے 128اراکین میں سے 125نے حق میں وو ٹ دیئے جبکہ تین اراکین مولانا شاہ احمد نورانی، احمد رضا قصوری، اور محمود علی قصری غیر حاضر تھے یا رائے شماری میں حصہ نہ لیا۔ اس طرح 1973ء کا متفقہ آئین منظور ہوا۔ اس وقت اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت تھی اور انہیں آئین منظور کروانے کے لئے حزب اختلاف کی ضرورت نہ تھی لیکن اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے حزب اختلاف کو شامل کرکے اسے قومی اور متفقہ آئین بنایا جو بلاشبہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔

آئین کی منظوری کے پچاس سال مکمل ہونے پر 10اپریل کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا اور گولڈن جوبلی منائی گئی۔ اجلاس میںشامل ارکین نے آئین کے پچاس سال مکمل ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ور آئین بنانے والوں کو خراج تحسین کیا۔یہاں قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ 25رکنی کمیٹی جس نے یہ آئین بنایا تھا اس کے اس وقت صرف ایک رکن ڈاکٹر غلام حسین اس وقت حیات ہیں اور اسلام آباد ہی میں مقیم ہیں لیکن انہیں اس تقریب میں مدعو نہ کرکے ایک افسوس ناک رویہ اختیار کیا گیا۔

ڈاکٹر غلام حسین اس اسمبلی کے نہ صرف رکن تھے بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل، وفاقی وزیر، گورنر پنجاب کے مشیر اور دیگر کئی عہدوں پر فائیز رہ چکے ہیں۔ وہ شملہ جانے والے وفد میں شامل تھے جب بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا تھا۔ گولڈن جوبلی کی تقریب میں پارلیمنٹ میں ڈاکٹر غلام حسین کو خصوصی طور پر مدعو کیا جانا چاہیے تھا تاکہ وہ آئین سازی کے حوالے یادیں تازہ کرتے ۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف سے گزارش ہے کہ آئندہ اسمبل اجلاس میں ڈاکٹر غلام حسین کو خصوصی دعوت کے ساتھ بلایا جائے تاکہ وہ آئین سازی کے حوالے سے قوم کو تاریخ سے آگاہ کرسکیں ۔ ہمیں محسنوں کی عزت افرائی کرنی چاہیے اور انہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!