ہماری سیکورٹی فورسز کئی محاذوں پر مصروف رہتی ہے، سیکورٹی فورس کا چاہے کوئی بھی حصہ ہو وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سرحد اور عوام کی حفاظت پر مامور رہتا ہے۔ اس میں انہیں شہادتوں کا بھی سامنا کرنا پٹرتا ہے۔ آجکل پھر کچے کے ڈاکوؤں کے صفایا کرانے کی خبریں آرہی ہیں اگر اسکی تحقیق کی جائے تو یہ کچے کے معصوم ڈاکوؤں کے سرپرست اور کفیل پکے کے علاقوں میں رہتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو شائد بے جا نہ ہو کے پکے کے ڈاکوؤں کی ذیلی شاخ کچے کے علاقوں میں ہوتی ہے وہ زمینوں پر قبضہ بھی کرتے ہیں، اغواء کرکے تاوان بھی لیتے ہیں سندھ میں یہ رواج عام ہے قارئین خود ہی اندازہ کریں کہ جنہیں ڈاکو کہا جاتا ہے انکے پاس تھرمل سسٹم ہے وہ دو کلومیٹر سے ہمارے جوانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ پتہ بھی نہیں چلتا کہ گولی کہاں سے آئی۔
ان کے پاس مارٹرز، آرپی جیز، اینٹی کرافٹ گنیں ہیں۔ یہ وہ جدید اسلحہ ہے جو امریکی افغانستان میں چھوڑ گئے تھے اور یہ ڈاکوؤں کے ہاتھ نہیں لگا بلکہ بغیر پکے کے ڈاکوؤں نے انہیں فراہم کیا بھارت نے اسے چلانے کیلئے ان کو تربیت دیتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک منظم گروۃ ہوتا ہے جسکے تانے بانے ہندوستان تک پہنچتے ہیں ڈاکوؤں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ ہے اور یہ زمینی حقائق ہیں۔ پولیس کا کہنا تھا کہ جو آرمی کے پاس اسلحہ ہے وہ کم سے کم کچے کی حد تک پولیس کو دیا جائے اس مطالبے کو ماننا مشکل ہے کہ وہ اسلح پھر کچے کے علاقے میں پہنچ جائے گا امسال 9 اپریل کو آپریشن شروع کیا گیا تھا اور ڈاکوؤں کے قبضے سے 58ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین خالی کرالی گئی ہے۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کچے کا علاقہ لاکھوں ایکڑ زمین پر محیط ہے۔ جنگلات، جھاڑیوں اور کچی زمین کی وجہ سے یہاں ڈاکوؤں کیلئے چھپ کر کارروائیاں کرنا اور پناہ لینا آسان ہوجاتا ہے۔ کشمور، گھوٹکی، شکار پور، جیکب آباد، پنجاب کے رحیم یار خان اور راجن پور کچے علاقہ میں کئی دہائیوں سے ڈاکو راج قائم ہے۔
راجن پور کے کچے جمال میں غلام رسول عرف چھوٹو گینگ کی دہشت ایک دہائی سے زیادہ تک جاری رہی، اس وقت بھی چھ بڑے گینگ مطلوب ہیں۔ کچے کے علاقے میں ڈاکوراج سراسر اسٹیٹ اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مترادف ہے۔ 1990کے دہائی کے اوائل سے ہر سال چھوٹے بڑے آپریشنز کئے جاتے ہیں۔ اب بھی رحیم یار خان کے کچے علاقے میں آپریشن جاری ہے جس میں گیارہ ہزار جوان حصہ لے رہے ہیں مگر اسکے باوجود تاحال ڈاکوؤں کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔کچے کے علاقے میں جہاں دیہی آبادی مشکالات کا شکار ہے وہیں پکے کے علاقوں مین موجود سیاست دان کالبادہ اوڑھے ہوئے پکے کے ڈاکوؤں نے شہری زندگی کو معطل کررکھ اہے اربوں روپے کی ہر جماعت کی جانب سے خرد برد نے قومی خزانے کو تباہ کردیا ہے اور ہم طویل عرصے سے کشکول کئے در در پھر رہے ہیں، آپکی گاڑی کے پاس اگر کوئی فقیر مانگنے آتا ہے تو آپ ایک مرتبہ ، دو مرتبہ اسکی مدد کردیتے ہیں اگر وہ بار بار آئے تو پھر یہ ہی حشر ہوتا ہے جو غیرممالک سے امداد حاصل کرنے کیلئے ہم تگ و دو کرتے ہیں اور ہر دوست قرض دینے سے کتراتا ہے چونکہ گزشتہ قرضوں سے معیشت کو مضبوط نہیں کیا گیا بڑے سے بڑے امیر ملک کا بھی اپنا بجٹ ہوتا ہے اگر وہ قرض کچھ شرح سود پر دیں تو اسے واپس کرنے کیلئے ہمارے پاس کوئی پروگرام نہیں چونکہ معیشت چل پھر رہی ہو تو آمدن ہوتی ہے ہماری صورتحال یہ ہو گئی کہ قرض واپس کرنے کیلئے پھر کسی ملک سے قرض لیکر پہلے والے کو قسط اداکی جاتی ہے۔
عسکری قیادت سے لیکر عام حکومتی رکن تک سب ہی قرض کیلئے ملکوں ملکوں گھومتے ہیں مگر کسی حد تک ضرورت پوری تو ہوجاتی ہے مگر بہتر معاشی پلان کی وجہ سے وہ قرض بس ”قرض حسنہ“ رہ جاتا ہے، ہمارے ایک دوست نے ”قرض حسنہ“کا ترجمہ یوں کیا تھا کہ قرض دینے والا قرض واپس مانگیں تو آپ ہنسنے لگیں چونکہ واپسی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ہم ان قرضوں سے باہر نہیں نکل پارہے. جس کی بدولت ہماری اپنی زندگی اور ملک کی تقدیر زوال پذیری کا شکار ہے. سیاسی قیادت نے عوام کی تربیت کرنی ہوتی ہے. بدبختی سے ہماری سیاسی قیادت بھی انہیں برائیوں میں جکڑی ہوئی ہے. وہ اپنے ذاتی مفاد اور خود غرضی کو دست اول رکھ کر سوچتی ہے. ہمارے ہاں ہر پانچ سال بعد نئی سیاسی جماعتیں تشکیل پاتیں ہیں. ان سیاسی جماعتوں میں وہی پرانے چہرے جو پہلے کسی اور سیاسی جماعت میں لوٹ مار کر رہے ہوتے ہیں. منہ دھو کر سامنے آ جاتے ہیں. عوام بھی اس قدر محسوس ہے. کہ وہ ان کے فریب میں آنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے، 2018 ء میں پکر دھکڑ کرکے حکومت بنائی گئی پکڑ دھکڑ سے میرا مطلب کہ انہیں اکھٹا کیا گیا جنکا کوئی سیاسی نظریہ نہیں بس انہیں حکومت کے سنہرے خواب دکھائے گئے اور حکومت بن گئی جس کا کام بس سب کو چور ڈاکوکہہ کر پکارنا تھا اور اندرون خانہ خود بھی یہ کام ہورہا تھا ، اس گناہ میں ملک کے تمام ادارے چاہے وہ عدلیہ ہو یا عسکری شعبے کے کچھ لوگ۔ اگرنئی قیادت واقعی عوام کی خدمت کیلئے حکومت بنانا چاہتی تو جدوجہد کے عمل کے گزرنا ضروری تھا ’شارٹ کٹ “کبھی کسی جگہ بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ اگرجدوجہد سے بعد حکومتی منصب پر عمران خان ہوتے تو آج ٹیلی ویثرن پر پی ٹی آئی کے رہنماء آہ و بکا کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا اعلان نہ کرتے ایسا ہونے کی وجہ غیر نظریاتی اور موقع پرست لوگوں کی پی ٹی آئی میں موجودگی تھی،نیز جہانگیر ترین کے جس جہاز میں لائے گئے تھے، بلکل اس طرح جیسے ریٹرن ٹکٹ کی تاریخ پر دوبارہ جہاز میں بیٹھنا ہوتا ہے وہ واپس جہانگیر ترین کے جہاز کی طرف واپسی کیلئے دوڑ پڑے ہیں، جہانگیر ترین نے عمران کی حکومت بنانے میں جو بھی کردار ادا کیا وہ اپنی جگہ سب کو معلوم ہے مگر اب جو کچھ ہورہا وہ سمجھ سے بالا تر جو لوگ واضح طور پر دہشت گردی میں ملوث تھے وہ انکے پاس جاکر کیسے محب وطن ہو جاینگے۔
جہانگیر ترین کی مجوزہ جماعت کا جو بھی نام ہو مگر مجھے انکی جماعت پر شکوک و شباہت ابھی سے ہیں جب اس میں فیاض چوہان اور ڈاکٹر فردوس اعوان کی موجودگی دیکھی، ڈاکٹر فردوس اعوان تو بے پرکی اڑانے میں ماسٹر ہیں، انکا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین نے جماعت بنانے کا مشورہ انہوں نے دیا ہے، انہیں خیال رکھا کہ یہ نہیں کہہ دیا کہ جہانگر ترین کو جماعت بنانے کے رقم بھی میں نے مہیا کی ہے۔سیاست میں آنا کوئی بری بات نہیں اگر ملک کیلئے ہو مگر سیاسی منظر نامہ بتا رہاہے کہ پہلے ایم کیوایم، ق لیگ کسی بھی حکومت کی تشکیل میں گاڑی کے اضافی ٹائر کی مانند تھیں کہ جب چاہئے اس ٹائر کو استعمال کرلو اسی طرح اب اس بات میں اضافہ ہوجائیگا کہ چار اسکے چار اسکے، پانچ اسکے اور حکومت کی تشکیل، ایسی حکومت بلیک میلنیگ کا شکار رہتی ہے اور ملک کیلئے کام کرنا بھی چاہے تو مشکل ہے، کس کس کو خوش کیا جائے؟؟ملک خزانے سے خالی ہے حکومت کرنے کے خواہشمندوں کے اتنا پیسہ ہے کہ جو پاکستان کے آئیندہ کے دو بجٹ کیلئے کافی ہے اگر کوئی محب وطن ہے تو کشکول در در لیجانے سے بہتر ہے جو اس ملک سے کمایاہے یہ لوٹا ہے وہ اس ملک کو واپس کردوپھر چاہے پچاس سال حکومت کرو۔ ورنہ یہ سیاست نہیں ”سیاہ ۔۔ست“ہے اور پکے کے ڈاکوؤں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔