چی گویرا نے کہا تھا اگر میں ہار گیا، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ جیتنا ناممکن تھا۔ قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس کی طرح سچ ثابت ہوتی ہے کہ جس کسی نے بھی قوم کو شعور دینے کی کوشش کی تو اس کو جبر و بربریت ظلم و ستم اور طرح طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی بھی طاقت کے نشہ میں چُور اشخاص کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اس نظام میں رخنہ ڈالے جس سے ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچے اور مجبور و مقہور، استحصال زدہ لوگوں کو ان کے مساوی حقوق دیے جائیں جس سے اُن کی طاقت ختم ہو جائے اور لوگوں پر اُن کا غلبہ و تسلط قائم نہ رہے۔ طاقت وروں کا شیوا یہی رہا ہے کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے وہ کسی بھی نوبت تک جانے کو اپنا حق منصبی سمجھتے ہیں اور گمان رکھتے ہیں کہ طاقت کے استعمال سے وہ لوگوں کو دبا کر اپنے اقتدار اور اپنے نظریے کو لوگوں پر زبردستی مسلط کر لیں گے۔ طاقت ور اپنی سوچ اور اپنے نظریے کو طاقت کے بل بوتے پر لوگوں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ پیغمبرانہ جدوجہد کو دیکھا جائے بہت سارے پیغمبروں نے عوامی شعور و آگہی سے اپنے مشن کو پایا تکمیل تک پہنچایا کچھ اپنے مشن کو پایا تکمیل پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے تو کئیوں کو صعوبتیں اور تکلیفیں پہنچا کر قتل کر دیا گیا۔ وہ شہید ہو کر بھی شعور کا بیج ذہنوں میں کاشت کر گئے کہ پھر ان طاقت وروں کا اقتدار زیادہ عرصہ قائم نہ رھ سکا۔ ظالم یہی خیال کرتا رہا کہ وہ نظریہ کی جنگ میں جیت گیا لیکن نتائج اس کے برعکس نکلے وقتی طور پر فتح و کامیابی تصور کرنے والوں کو جلد اپنی حکمرانی سے ہاتھ دھونے پڑے اور کامیابی نظریے کے حصے میں ہی آئی۔
نیلسن منڈیلا کو زندگی کے ۲۷ سال بدترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا کہنے کو تو اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں تھی لیکن جب شعور بیدار ہوا تو وہی ایک آواز سب سے جاندار آواز ثابت ہوئی اور جیت نظریے کی ہی ہوئی۔ امام حسین رضہ اللہ عنہ کی جدوجہد حصول اقتدار تو نہیں تھی نہ ہی انہوں نے اس کا کبھی تقاضہ کیا تھا جنگ کے ظاہری نتائج بتاتے ہیں کہ جنگ حسین رضی اللہ تعالی عنہ ہارے اور جیت یزید کا مقدر بنی جبکہ حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت نے بہت سوں کے ڈر ختم کر دیے جو کلمہ حق بلند کرنے سے ڈرتے تھے وہی سہمے ہوئے لوگ یزید کے نظریے کے خلاف اُٹھے اور دو ہی برسوں میں اس کے اقتدار کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گُل کر دیا۔ نظریہ امام حسین علیہ السلام کا جیتا اور یزید اپنے نظریے کے زوال کے ساتھ ہی قصہ پارینہ بن گیا۔
سقراط نے ساری عمر حکمرانوں کے خلاف نہ کوئی جنگ کی نہ ہی کوئی باغی گروہ بنایا تھا۔ سقراط کو زہر دینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ شعور کی بات کرتا تھا اور سوال اُٹھاتا تھا، وہ اندھوں کی بستی میں آئینے بیچتا تھا اور یہی آگہی حکمرانوں کو پسند نہیں تھی اور ان کے قانون میں یہ بہت بڑا جرم تصور ہوتا تھا کہ کوئی ان کے بنائے ہوئے نظام کے خلاف آواز اُٹھا کر لوگوں کی ذہن سازی کرے۔ سُقراط کی موت کے باوجود ایتھنز کے حکمرانوں کا نظریہ ہار گیا اور سُقراط کا نظریہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہ گیا۔
مخلوقِ خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی
حبیب جالبؔ
پاکستان کے موجودہ حالات اس قدر زبوں حالی کا شکار ہیں جہاں نہ تو کسی آئین کی حکمرانی ہے تو نہ قانون کی جمہوریت یہاں ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاکستان میں آزادی سے لے کر آج تک ایک ہی قانون چلتا آیا ہے اور وہ ہے طاقت کا قانون۔ اس طاقت کے قانون کے آگے بند باندھنے کے لئے دو ہی مُوثر آوازیں اُبھریں جن میں سے ایک آواز پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی جو انقلاب کا نعرہ لے کر اُٹھے تا کہ لوگوں میں بیداری شعور پیدا کیا جا سکے جس سے وہ اپنے حقوق لینے میں کامیاب ہو سکیں۔ لیکن جس فسطائیت اور مصائب کے پہاڑ ان کے اس نظریے کو دبانے کے لئے توڑے گے اس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے 75 دن اسلام آباد میں دھرنا دے کر قوم کو پکارا کہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں نہیں تو ظالم نظام آپ کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دے گا۔ ڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ سنہری حروف میں کندہ کرنے کے قابل ہیں قوم جتنی دیر کے بعد اُٹھے گی قربانی اُتنی زیادہ دینی پڑے گی۔ ان کی اس پکار پر بھی عوام کی بے حسی غالب آئی اور سوئی ہوئی قوم کے کان پر جُوں تک بھی نہ رینگی، نتیجاً ڈاکٹر صاحب اپنے 14 کارکنوں کی شہادت 100 سے زیادہ لوگوں کو ریاست کے جبر سے گولیوں کا نشانہ بننے والے جاں نثار کارکنوں اور اور ہزاروں اس ملک میں انقلاب دیکھنے والے ساتھیوں کی قید و بند کی صعوبتیں دیکھ کر اور دل برداشتا ہو کر سیاست سے کنارہ کش ہو گئے لیکن قوم بیدار نہ ہوئی۔ اس سوئی ہوئی قوم کے بارے فیض صاحب صحیح کہہ گئے ۔
ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجا
اُس قوم کا حاکم ہی بس اُن کی سزا ہے۔
پاکستان میں دوسری بھرپور اُٹھنے والی آواز جناب عمران خاں صاحب کی ہے جو اس ملک کے فرسودہ نظام کو تبدیل کر کے مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ تبدیلی کے اس نظریے پر لاکھوں کروڑوں لوگوں نے ان کی اس آواز پر لبیک کہا لیکن اس گلے سڑے سرانڈ زدہ نظام کو گوارا نہ ہوا کہ کوئی ان کے اس بدبودار نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ ریاست کے تمام اداروں نے مل کر عمران خاں اور اُن کی جماعت پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں کون کون سا ایسا الزام نہیں ہے جو ان پر نہیں لگایا گیا اور کن کن اوچھے ہتھکنڈوں سے اُن کو روکنے کی کوشش نہیں کی جا رہی؟ محض اس لئے کہ اُن کا خواب اس ملک میں تبدیلی کا ہے۔ ریاست کسی قیمت پر بھی اُن کو اکثریتی نشیستیں لے کر ایوان اقتدار میں نہیں داخل ہونے دینا چاہتی۔ تبدیلی کے اس نظریہ پر ریاستی جبر سے اب تک اُن کے 40 لوگوں کو شہید 7,000 سے زیادہ لوگوں کو مختلف مقدمات میں جیلوں میں پھنسا دیا گیا ہے عورتوں اور بچوں پر تشدد اور تبدیلی کے ساتھ جُڑے ہوئے لوگوں کی املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ عمران خاں صاحب پر 200 کے قریب مقدمات بنا کر بے بنیاد مقدمہ میں 3 سال کی سزا سُنا کر پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ وجہ صرف ایک ہی ہے جو شخص بھی اس نظام کا حصہ بن جائے وہ قابل قبول ہے اور جو اس نظام میں انقلاب اور تبدیلی کا خواہاں ہو گا۔اس کے لئے یہ زمین تنگ کر دی جائے گی۔
اپنے ہی ملک میں اپنے لوگوں پر ریاستی جبر صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان اس ملک کے باسیوں کو ایک ایسا پاکستان دینا چاہتے ہیں جس پاکستان کا خواب آزادی کے 76 سال کے بعد بھی ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔