ہم مصطفوی ہیں (منہاج القرآن کےنام)

0

ابتداء میں ان کی تعداد تیس تھی۔پھر رفتہ رفتہ ان کی تعداد کم ہونے لگی۔وہ نہیں جانتا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے مگر اسے اس تعداد میں کمی پہ بے حد تشویش تھی۔وہ بارہا مسجد کے امام سے یہ درخواست کر چکا تھا کہ اس تعداد میں کمی کی وجہ ڈھونڈیں مگر وہ اس کی بات سن کر فقط ہنس دیتے۔درود و سلام کی محفل میں شرکت کا سبق اس نے بچپن سے ہی سیکھ رکھا تھا جب اس کی دادی ماں اسے ہر روز اپنے ساتھ ایک گھنٹہ بیٹھاتی اور اسے درود و سلام کا ورد کرنے کا کہتی تو وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھا درود و سلام پڑھتا اور بیٹھے بیٹھے آگے پیچھے جھومنے لگ جاتا۔کئی ماہ گزر گئے تو ایک روز اسی طرح درود پاک پڑھنے کے بعد اس نے دادی ماں کا ہاتھ پکڑا

"دادی ماں،ہم یہ درود و سلام کیوں پڑھتے ہیں”اس کی معصومانہ ادا تھی جسے دیکھ کر اس کی دادی کو اس پہ بہت پیار آیا”
کیونکہ ہم جس نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہیں ان پہ درود و سلام پڑھنے کا حکم ہے کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ درود بھیجتے ہیں۔ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہیں ہمیں تو فرص سمجھ کر درود و سلام پڑھنا چاہیئے۔تم یہ درود و سلام کی محفل کبھی مت چھوڑنا اور ہمیشہ درود و سلام پڑھتے رہنا”اس کی دادی نے اسے نصحیت کی تو اس نے یہ نصیحت اپنے دل میں محفوظ کر لی۔وقت بیت گیا اور اس کی دادی ماں کا انتقال ہو گیا۔بلوغت سے وہ نوجوانی کی عمر میں داخل ہو گیا تو اس نے اپنے گائوں کے ان لڑکوں کو اپنے ساتھ ملایا جو پڑھائی سے لے کر کھیل کے میدانوں تک اس کے ساتھی تھی۔اس طرز عمل میں اسے بہت سی مشکلات پیش آئیں کیونکہ اسے اپنے حلقہ احباب میں کم فہم لوگوں نے تعصب کا نشانہ بنایا تھا لیکن اس نے اس چیز کی پرواہ نہیں کی تھی اور درود و سلام کی محفل سجانے میں کامیاب ہو گیا۔درود و سلام کی یہ محفل زیادہ دن تک قائم نہ رہی اور ہر روز اس کی تعداد میں کمی واقعی ہونے لگی۔دھیرے دھیرے یہ تعداد نصف تک جا پہنچی۔اس نے درود و سلام کی محفل چھوڑنے والوں کے پاس جا پوچھا تو انہوں نے کوئی نہ کوئی عذر پیش کر کے اس محفل میں شرکت سے معذرت کر لی۔

تقریبا بیس دن گزر چکے تھے۔وہ اس وقت درود و سلام کی محفل میں شریک ہونے کے لئے ننھیال سے واپس پلٹ آیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایک دن کی عدم شرکت اسے کس قدر نقصان میں ڈال دے گی۔اس کا مذاق اڑانے والے بہت تھے۔اسے کبھی طنز کے طور پر نیک کہہ کر پکارا جاتا تو کبھی اس کے خونی رشتے اسے جنونیت کا نام دے کر اس پہ ہنستے مگر اس کی زبان پہ کسی کے طنز کا کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی اس نے ایسے لوگوں کی کسی سے شکایت کی تھی۔آج بھی جب وہ پلٹا تھا تو اس کے ماموں زاد نے اسے کالر سے پکڑا اور بولا”تم جنت میں تنہا نہیں جانے والے،ہم لوگ بھی جنت کے حقدار ہیں۔تم آئے سب سے بڑے عاشق”اسے ماموں زاد کے چہرے پہ تمخسر واضح نظر آیا تو اس نے نرمی کے ساتھ ماموں زاد کا ہاتھ اپنے کالر سے ہٹایا

"میں خود کو کبھی جنت کا حقدار نہیں سمجھتا،اگر جنت صرف تمہاری ہے تو تم لوگوں کو ہی مبارک،میں اسی میں خوش جس میں میرا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہیں”وہ اس سے زیادہ نہیں بول پایا”

واہ،بہت کمال کے فلاسفر بن چکے ہو،ملائوں کی صحبت کا اثر نظر آ رہا ہے”اس کے ماموں زاد نے اسے زچ کرنے کی کوشش کی
"میرا نام محمد موسی ہے اور میرے نام کے ساتھ مولانا کا لفظ نہیں لگتا،تم اس چیز کی تصحیح کر لو”اس کے لبوں پہ ایک مہربان مسکراہٹ چھا گئی تو اس کے ماموں زاد نے اسے پھر سے کالر سے پکڑا اس زور سے دھکا دیا کہ وہ زمین پہ گر گیا”تم جیسے لوگوں کی وجہ سے ہمارے اسلام میں خرابیاں ہیں،بظاہر عاشقی کا ڈھونگ رچاتے ہیں مگر اندر سے پتا نہیں کیا ہیں۔تم جس مدرس سے تعلق رکھتے ہو ہم اسے تم سے زیادہ جانتے ہیں۔تم جیسے لوگوں کے لئے کبھی فلاح نہیں ہے”اس کے ماموں زاد نے نفرت کا اظہار کیا تو اس نے کچھ بھی بولنے سے گریز کیا اور اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا اسے سلام کہہ کر واپس لوٹ آیا۔عشاء کی نماز کے بعد اس وقت بھی وہ محفل میں بیٹھا تھا۔اس کے ذہن پہ ماموں زاد سے ہونے والی تکرار کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔وہ آنکھیں بند کئے درود کی محفل میں شریک بلند آواز میں درود پڑھ رہا تھا۔آج کی محفل میں شرکت کے لئے صرف امام مسجد ہی موجود تھے اور اس کے باقی انتیس ساتھی غائب تھے۔ان دو لوگوں کی محفل دیر تک جاری رہی

"کیا تم مایوس نہیں ہوئے”امام مسجد نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر استفسار کیا”میں کس چیز مایوس ہوں گا،امام صاحب،میں نے کبھی مایوس ہونا نہیں سیکھا”اس نے سکون سے جواب دیا”یہی کہ تم نے اپنے ساتھ جو انتیس لوگ جمع کئے ہیں ان میں سے ایک بھی موجود نہیں ہے”امام صاحب برابر مسکرا رہے تھے”آپ ہر روز مسجد میں پانچ وقت اذان دیتے ہیں،کیا نمازیوں کی کمی پہ آپ کو مایوسی ہوئی ہے”اس نے جواب دینے کی بجائے مولوی صاحب سے سوال کیا

،”نہیں،میں مایوس نہیں ہوا کبھی بھی،ہاں افسوس ضرور ہے کہ پانچ وقت کی نماز کے لئے اتنے بڑے گائوں میں صرف چند نمازی ہی شرکت کرتے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس اس بات پہ ہوا کہ تم نے درود و سلام کی جو محفل شروع کی اس کا آغاز ہم دونوں سے ہوا ہے اور آج بھی ہم دونوں رہ گئے ہیں،نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کے دعوے اب دھرے کے دھرے رہ گئے”امام مسجد بولتے بولتے آبدیدہ ہو گئے تو وہ بھی کچھ بھی نہ بول سکا کیونکہ اس کے پاس دلاسے کے چند جملے بھی موجود نہیں تھے۔کچھ دیر کے لئے امام مسجد نے خاموشی اختیار کئے رکھی اور پھر ذرا توقف کے وہ اس سے ہمکلام ہوئے
"بیٹا،تمہیں ایک ایسی جگہ بتلائوں جہاں دن اور رات چوبیس گھنٹے درود و سلام کا ورد ہوتا ہے۔جہاں ہر روز قرآن کریم کی مکمل تلاوت کی جاتی ہے اور وہاں پہ رہنے والے لوگ دس روز کے لئے دنیا سے کٹ جاتے ہیں”امام صاحب خاموش ہوئے تو اس نے حیرانگی سے امام مسجد کے چہرے کی طرف دیکھا۔

"کیا یہ کوئی انہونی ہے امام صاحب،مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہاں پہ جگہ موجود ہے جہاں درود و سلام پڑھا جاتا ہے”اس نے حیرانگی سے امام مسجد کی طرف دیکھا
"ہاں،چند روز قبل ہی میں نے اس مرکز میں رابطہ کیا تھا جہاں ہر دس دن بعد تیس لوگوں کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے اور وہ دنیا سے کٹ کر درود و سلام پڑھتے ہیں۔قرآن پڑھتے ہیں اور اللہ کی عبادت کرتے ہیں”امام مسجد اسے سب کچھ بتا رہے تھے جب کہ وہ اب بھی حیران ہو رہا تھا

"کیا آپ نے وہاں پہ جانا ہے امام صاحب”اس کے لہجے میں عاجزی اور رشک تھا”نہیں،یہ سعادت تمہارے نصیب میں لکھی گئی ہے اور تم نے وہاں پہ جانا ہے،تین روز کے بعد تم وہاں پہ جائو گے۔اس بار اس پاکیزہ بزم کا حصہ تم بھی بنوں گے جس بزم میں دنیا سے کٹ کر درود و سلام پڑھا جاتا ہے۔تم ایسی بزم کا حصہ بنوں گے جو براہ راست درود و سلام کے ورد کے لئے بنائی گئی ہے”امام صاحب نے اس پہ انکشاف کیا تو وہ اس سعادت کو اپنے نصیب میں دیکھ کر ہوش کھو بیٹھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے

"کک۔۔۔۔کیا۔۔کیا میں اس بزم کا حصہ بنوں گا۔۔۔موسی،یعنی میں،کیا مجھ جیسا گنہگار اس بزم کا حصہ بنے گا”وہ گڑگڑانے لگا تو امام صاحب نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا

"تمہارا ایمان بہت کامل ہے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ بھی تمہیں کمال حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ صرف سترہ سال کی عمر میں ہی یہ سعادت تمہارے حصے میں آئی ہے۔میں تین روز کے بعد تمہیں خود رخصت کروں گا”امام صاحب نے اس کے سر پہ بوسہ دیا تو اس نے روتے ہوئے امام صاحب کا شکریہ ادا کیا اور پھر شکرانے کے دو نوافل ادا کر کے گھر واپس پلٹ آیا۔آج اس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی اور اس سعادت کے لئے اللہ کا شکر ادا کرنے سے قاصر تھا۔

دو روز مزید گزر گئے تو تیسرے روز اسے امام مسجد اور گھر والوں نے مل کر بس اسٹیشن جا کر پہ اس بس پہ بیٹھایا جس پہ بیٹھ کر اسے اس مرکز پہنچنا تھا جہاں حلقہ گوشہ درود تھا۔اس کی ماں نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا

"تم جس جگہ جا رہے ہو اس جگہ پہ درود و سلام کی محفل ہر سال،ہر مہینے،ہر دن اور ہر لمحے سجتی ہے۔تمہیں وہاں پہ کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو تمہیں طعنہ دے یا اور کچھ بولے۔کیونکہ حلقہ گوشہ درود بنانے والے اور اس درود پاک کی محفل سجانے والوں نے ہر کسی کے لئے اپنا در کھلا رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ کام ان پہ کرم ہے۔ان کی کاوشوں میں ایک یہ چیز بھی شامل ہے کہ وہ جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع لوگوں کے دلوں میں بجھتی جا رہی ہے اسے پھر سے روشن کر سکیں۔میری صرف یہی نصحیت یاد رکھنا کہ تم درود و سلام پڑھتے وقت ادب مت بھولنا اور ہمیشہ باوضو ہو کر آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک پکارنا کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام وضو کے بغیر لینے سے بے ادبی ہو گی۔تم اس محفل میں درود پاک پڑھنے کے بعد میرے لئے دعا مانگنا اور اپنی دادی کے لئے بھی جنہوں نے تمہیں ایسا بنایا ہے اور ان لوگوں کو بھی مت بھولنا جو تمہیں ہمیشہ طعنہ دیتے رہے ہیں۔میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کرتی ہوں”ماں نے نصحیت کرنے کے بعد اسے پھر سے گلے لگایا اور بس اسٹیشن پہ کھڑی بس پہ سوار کر دیا۔اس کا سفر شروع ہو چکا تھا۔اس کے احساسات نے اسے ایک بار پھر آنسو بہانے پہ مجبور کر دیا تھا۔تقریبا ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ اس مرکز میں پہنچا جہاں حلقہ گوشہ درود بنایا گیا اور ہر دس دن بعد تیس عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس روز کے لئے گوشہ نیشن ہو جاتے۔مرکز پہنچتے ہی اسے پہلے بار احساس ہوا کہ وہ جس اجنبی شہر آیا ہے وہاں پہ حلقہ گوشہ درود بنانے والے لوگ اس کے لئے اجنبی نہیں تھے۔انہوں نے مرکز پہنچتے ہی اس کے لئے پلکیں بچھا دیں جس کی وجہ سے اسے یہاں پہ اجنبیت کا احساس نہ ہو۔کچھ دیر کے لئے وہ ان لوگوں کے سنگ بیٹھا رہا جو تیس لوگوں کے رخصت ہونے کے بعد درود و سلام کی اس بزم کا حصہ بننے آئے تھے۔ان میں ہی ایک ستر سال کے بزرگ بھی شامل تھے۔وہ ان سب لوگوں میں سے سب سے کم عمر تھا اور اس کی عمر فقط سترہ سال تھی۔جیسے ہی سب لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہوئے تو وہ کم عمر ہونے کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز بن گیا اور اسے اجنبی شہر میں ہوائیں اس مرکز میں راس آ گئیں۔کچھ دیر بعد انہیں ایک کمرے میں آرام کے لئے بیٹھا دیا گیا اور پھر شام کے بعد ان کو دوبارہ ایک جگہ بلایا گیا جہاں پہ دس دس لوگوں پہ مشتمل انہین تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور ان سب میں سے ہر ایک نے ترتیب سے قرآن کریم کی تلاوت کرنی تھی اور ساتھ میں جس قدر ممکن ہو سکے درود و سلام پڑھنا تھا۔وہ بھی ان میں سے ایک گروپ کے لوگوں میں شامل ہو گیا۔ایک رات مزید بیت گئی اور اگلے روز سہ پہر چار بجے وہ درود پاک کی اس محفل میں پہلی بار شامل ہوا جس میں شامل ہونے کے لئے لوگ دور دراز سے سفر کر کے آئے تھے۔اس کی عمر فقط سترہ سال تھی اور اس کے ساتھ ستر سالہ بزرگ بھی بیٹھے تھے جو درود و سلام کا ورد کر رہے تھے۔حلقہ گوشہ درود میں چند لمحات گزارنے کے بعد اسے پہلی بار احساس ہوا کہ واقعی حلقہ گوشہ درود میں جمع ہونے والوں کا دل دنیا سے کٹ کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے جڑ جاتا ہے اور پھر ان کے لئے سب کچھ فقط سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا در ہوتا ہے۔وہ ہر وقت ہر لمحہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ درود و سلام بھیجتے ہیں۔کچھ دیر درود و سلام پڑھنے کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔تقریبا تین گھنٹے مسلسل درود پڑھنے کے بعد اس نے قرآن مجید کے ایک پارہ کی تلاوت کی اور پھر سے درود پاک پڑھنے لگا۔دھیرے دھیرے گزرتا وقت نہ جانے کب آٹھ گھنٹوں تک پہنچ گیا اسے سمجھ ہی نہ آئی اور اس عرصے کے دوران اس نے نماز مغرب اور عشاء ادا کی۔گوشہ درود میں گزرا پہلا روز کئی احساسات سے بھرپور تھا اور اس وقت اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ اس نے یہ جو آٹھ گھنٹے درود پاک پڑھنے میں گزارے ہیں یہ بہت کم ہیں کیونکہ جس طرح وہ درود پاک پڑھنے میں مصروف تھا اسے اس انداز میں بہت لطف آیا اور اس کا جی چاہا کہ وہ دن کا باقی حصہ بھی اسی جگہ پہ بیٹھا یونہی درود و سلام پڑھنے میں گزار دے۔وقت گزرتا گیا اور اس کے احساسات تبدیل ہوتے گئے۔اس کے من میں جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع پہلے سے ہی روشن تھی اب وہ کسی نور کی مانند جگمگا رہی تھی۔درود و سلام کا ورد کرتے نو روز ایسے گزرے جیسے اس نے فقط نو گھنٹے گزارے ہوں۔آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب اسے حقلہ گوشہ درود اور یہاں کے باسیوں کو الوداع کہنا تھا۔وہ درود و سلام پڑھنے سے پہلے وقت کے تھم جانے کی دعا کرتا رہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو پہلے کی نسبت بڑھ چکے تھے۔ایک گھنٹہ گزرا،پھر اسی گھڑی نے دو گھنٹے گزرنے کا الارم بھی بجایا۔دیکھتے ہی دیکھتے آٹھ گھنٹوں پہ مشتمل وقت بھی گزر گیا اور اگلے آٹھ گھنٹوں تک درود و سلام والے باقی دس لوگ بھی آ گئے۔حلقہ گوشہ درود کو چھوڑتے وقت اس کا جی چاہا کہ وہ دھاڑیں مار مار رو دے۔وہ ایک کونے میں بیٹھا تھا۔وقت ختم ہوتے ہی اس نے اپنا سر گھٹنوں میں دے دیا اور بلک بلک کر رونے لگا۔اس جگہ نے اسے حقیقی طور پر درود و سلام کی اہمیت سے آگاہ کر دیا تھا۔گوشہ درود میں گزارے ان دس روز میں اس نے مسلسل دس روزے رکھے اور اسے اس بات کا اندازہ بھی بخوبی ہو گیا کہ واقعی دنیا کی اہمیت کسی مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔وہ اس وقت گوشہ درود نہیں چھوڑنا چاہتا تھا مگر وہاں پہ موجود بزرگ نے اس کے کان میں آ کر بتایا کہ اس کا بھائی اور ماں باپ اسے لینے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔وہ ان دس روز میں فقط دعا کے وقت ہی انہیں یاد کرتا تھا۔گوشہ درود کے لیے مقرر امیر نے مہربان نظروں سے اسے دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا

"یہ حلقہ گوشہ درود دنیا بھر سے آئے تمام عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنایا گیا ہے۔یہاں پہ آنے والے لوگ دس روز تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کرم اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔میں دعا گوں ہوں کہ بہت جلد تم ایک بار پھر سے اس جگہ ہمارے پاس آئو۔اس جگہ پہ آنے کا مقصد فقط یہی ہے بیٹے کہ امت کا ہر فرد اپنے گھر کو گوشہ درود بنائے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ درود و سلام بھیجے۔بس ہمارا یہی مقصد ہے کہ آج کی نوجوان نسل کے اندر جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع بجھ رہی ہے اسے پھر سے روشن کیا جائے۔میں اگلی بار پھر سے تمہیں ایسے ہی ملوں گا جیسے میں آج کے روز تمہارے پاس بیٹھا ہوں،جائو اب تم اپنے اپنوں سے مل لو اور اپنے گھر جا کر اس پیغام حق کو اپنے حلقہ احباب تک پہنچائو۔اپنے گھر کو حلقہ گوشہ درود بنائو جہاں ہر وقت ایسے درود و سلام پڑھا جائے”وہ بزرگ خاموش ہوئے تو وہ روتے ہوئے ان کے گلے سے لگ گیا۔سترہ سال کے اس بچے کا جذبہ قابل دید تھا۔اس کے ساتھ باقی تمام لوگ بھی اشکبار آنکھوں سے اس کی آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عقیدت و محبت دیکھ رہے تھے۔وہاں پہ موجود سب لوگوں نے اسے باری باری گلے سے لگایا اور پھر حلقہ گوشہ درود اور مرکز کی انتظامیہ نے اسے وہاں سے رخصت کر دیا۔وہ سب لوگ اسے گیٹ تک چھوڑنے آئے تھے۔اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اس مرکز کی طرف دیکھا جہاں حلقہ گوشہ درود واقع تھا اور پھر کار میں سوار ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر ماں باپ کے گلے سے لگ کر دیر تک آنسو بہاتا رہا۔

” تم نے اس سارے وقت میں کیا سیکھا ہے موسی”سفر کے دوران اس کی ماں نے نم آنکھوں کے ساتھ اس سے پوچھا

"ماں،تمہارا موسی اب وہ موسی نہیں رہا میں تو اب خاک ہو گیا ہوں”وہ جوابا گویا ہوا”تو پھر تم کون ہو موسی”اس کی ماں نے ایک اور سوال کیا

"میں مصطفوی ہو چکا ہوں ماں،میں مصطفوی ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے گھر کو حلقہ گوشہ درود بنائیں تا کہ ہم سب مصطفوی ہو جائیں”یہ کہہ کر وہ نم آنکھوں کے ساتھ کار کی کھڑکی کے باہر دیکھنے لگا جبکہ کی ماں ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔آج اس کے سامنے وہ موسی نہیں تھا جس پہ سب طنز کرتے تھے بلکہ اس کے سامنے ایک حقیقی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھا تھا جس کے مزاج سے اسے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس پہ بھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کرم ہو گئی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!