اصل لاڈلا کون

0

لاڈلا بچہ بد تمیز بھی ہو جائے تو اس کی بدتمیزی کو نظر انداز کر کے اُس کو راضی رکھا جاتا ہے۔ یہی رویہ اداروں کے بغل بچے نواز شریف کا ہے جو کھیلنے کو چاند کی فرمائش کر بیٹھا ہے اور تمام ادارے لاڈلے کی ضد پوری کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح لاڈلے کو راضی کر لیا جائے۔ 4 سال تک مسلم لیگ نون کی طرف سے تاریخوں پر تاریخیں اور وعدوں پر وعدے کئے جاتے رہے کہ میاں صاحب وطن واپس آ رہے ہیں، لیکن اس وقت تک میاں صاحب راضی نہ ہوئے جب تک ان کی تمام شرائط کو مان کر ان کی راہوں پر ریڈ کارپٹ نہ بچھایا گیا۔ ماں کی میت کو پارسل کر دیا اور اس ڈر سے پاکستان نہیں آئے کہ کہیں دھر نہ لیا جاؤں کیوں کہ اُس وقت تک ڈیل نہیں ہوئی تھی۔

تب تک جنرل باجوہ صاحب اور جنرل فیض حمید صاحب کو کٹہرے میں لانے کے دعویدار تھے اور تقریروں میں ذکر کیا جاتا تھا کہ کس طرح جنرل باجوہ نے اُن کی حکومت کو چلتا کیا اور بائیس کروڑ عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی لیکن جب مقتدر حلقوں کی جانب سے گوشمالی کی گئی تو بیانیہ ووٹ کو عزت دو سے شروع ہو کر ”میں سب کچھ اللہ پر چھوڑتا ہوں“ تک پہنچا۔ مقتدر حلقوں کی جانب سے چھوٹے میاں صاحب کے ذریعے پیغام پہنچا دیا گیا تھا اگر واپسی اور اقتدار عزیز ہے تو اس نعرے سے دستبردار ہو کر آنا ہو گا، اقتدار کے لالچ میں اپنے بیانیے کو دفن کر کے ووٹ سے بُوٹ تک بات پہنچی، تو انتقام اور نفرت پر یقین رکھنے والے شخص نے اپنے بیانیے کو لندن کی مٹی میں دفن کر کے واپسی کی راہ لی۔

نواز شریف کو نہ مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت وطن واپس لا سکی اور نہ بھائی کی حکومت اگر کوئی کامیاب ہوا تو قاضی فائز عیسٰی اور مقتدر حلقے جو میاں صاحب کی ضد پوری کرنے کے لئے سب کچھ اُن کی خواہش کے مطابق کرنے کے لئے تُل گئے تھے، آخر کار لاڈلے کے آگے سر تسلیم خم کر کے ہر بات ماننا پڑی۔ کچھ لوگ نواز شریف کو نجات دھندہ کے روپ میں پیش کر رہے ہیں کہ میاں صاحب نظریاتی لیڈر ہیں، وہ کبھی ڈیل اور ڈھیل پر یقین نہیں رکھتے تو ان کے ریکارڈ کی درستی کے لئے بتاتا چلوں کہ یہ وہی نظریاتی لیڈر ہیں جو جنرل اقبال اور جنرل جیلانی کی گود میں پروان چڑھا اور ضیاء الحق کو اپنا سیاسی امام تصور کرتا رہا اور ہمیشہ فوج کے شانے پر بیٹھ کر حکومت حاصل کی میاں صاحب ہمیشہ سے فوج کی آنکھوں کا تارا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ابھی وہ لاڈلا اس قدر ضدی اور مجرم ہونے کے باوجود کھیلنے کو چاند مانگ رہا ہے کہ وہ کسی صورت جیل میں جانے کو تیار نہیں اس کے خلاف تمام کیسز ختم کئے جائیں۔ لاڈلے نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ صادق اور امین کے ٹائٹل سے نوازا جائے اور عمران خان کو سزا سنائے جانے تک الیکشن نہ کروائے جائیں اور چوتھی بار ملک کا وزیر اعظم بنایا جائے۔ لاڈلے کی ضد کے سامنے سارا نظام لیٹ گیا ہے اور جس شان اور پروٹوکول سے ایک مجرم کو ملک واپس لا کر استقبال اور ضمانت دی گئی اس کی مثال پاکستان جیسے ملک میں ہی مل سکتی ہے۔

لندن سے روانگی ہو تو پاکستان کا ہائی کمیشن وداع کرتا ہے، پاکستان آمد ہو تو ڈی پی او سلیوٹ کرتا ہے، نادرا بائیو میٹرک کے لئے ائیرپورٹ پر سہولت فراہم کرتا ہے، عدالتیں مجرم کو بغیر پیش ہوئے ضمانت دیتی ہیں، نیب کیس کی پیروائی سے اجتناب کرتی ہے، عبوری حکومت العزیزیہ کیس میں سزا معطل کرتی نظر آتی ہے۔ ساری کی ساری ریاستی مشینری صرف ایک آدمی کے آگے باندھی بنی ہوئی ہے۔ پرائیوٹ میڈیا تو دور حکومتی چینل لائیو کوریج کرتا اور تعریفوں کے پُل باندھتا نہیں تھک رہا۔ ان ساری سہولیات سے بات واضع ہو جاتی ہے کہ لاڈلے کی خواہش پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔

عدالتیں جس سرعت سے میاں نواز شریف کو ریلیف دیتی جا رہی اُس سے واضع ہوتا ہے کہ میاں صاحب کو جس عیسٰی کا انتظار تھا اُس کا نزول ہو چکا ہے۔ ایسا سلوک اور چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کے بیانیے کو ہوا دینے کے لئے بکاؤ صحافیوں کی فوج ظفر موج کو اس کام پہ لگا دیا گیا ہے جس میں نون لیگ کے منظور نظر صحافی سہیل وڑائچ نے ماحول سازگار بنانے کے لئے عملی طور پر کام کا آغاز کر دیا ہے کہ”میاں صاحب کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کے لئے واپس لایا گیا ہے“ تاکہ لوگ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں کہ اگلا وزیر اعظم نواز شریف ہی ہو گا۔

ایک نئے این آر او کے تحت ہی ایمپائروں کو ساتھ ملا کے میاں صاحب وطن واپس آئے ہیں۔ جب تک ایمپائر اپنے نہ ہوں میاں صاحب کبھی کسی میدان میں نہیں اُترے، آج بھی میدان صاف کر کے، سیاسی حریفوں کو قید میں ڈال کر اور دبا کر الیکشن سے دور رکھا جا رہا ہے تو لگتا یونہی ہے کہ سلیکشن کے لئے صرف میاں صاحب کی سی وی (CV) ہی جمع ہوئی ہے۔ ایک لڑکا دوڑ کے مقابلے میں فرسٹ آیا تو کسی دوست نے پوچھا دوڑ میں کتنے لوگ تمہارے ساتھ شریک تھے تو اُس نے جواب دیا کہ میں اکیلا ہی شریک تھا۔ میاں صاحب بھی ریس کے وہی لنگڑے گھوڑے ہیں جو چلنے سے بھی قاصر ہیں پھر بھی نمبر ون وہی ہوں گے کیوں کہ تمام اداروں اور بیوروکریسی نے جمہوریت کے خلاف ایسا مذاق کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!