سویڈن میں ایمیگریشن پالیسی سخت ،24ہزار سے زائد افراد ملک بدر
سال 2024 سویڈن میں ملک بدریوں کا طوفان لے کر آیا، ایک شخص کو غزہ ملک بدر کرنے کا فیصلہ
اسٹاک ہوم(رپورٹ:زبیر حسین)سال 2024 سویڈن میں ملک بدریوں کا طوفان لے کر آیاہے، چاہے کوئی سویڈن میں ایک سال رہا ہو یا دس سال یا پھر کمسن بچے جنہوں نے سویڈن میں ہی آنکھ کیوں نہ کھولی ہو سب ملک بدر کئے جانے لگے، ملک بدریوں کا اطلاق ہر اس شخص پر ہونے لگا جن کی یا تو سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہوئیں یا پھر کوئی نئی ایمیگریشن پالیسیوں پر پورا نہ اترا،یہاں تک کہ ایک شخص کو غزہ ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی سامنے آیا۔
تفصیلات کے مطابق سویڈن میں دائیں بازو کی حکومت بننےکے بعد ایمیگریشن کی متعدد پالیسیاں تبدیل کی گئیں، جن میں سب سے اہم پالیسی سیاسی پناہ حاصل کرنے کے قوانین میں ترمیم اور ورک پرمٹ حاصل کرنے کے لئے تنخواہوں میں اضافے کا تعین ہے جو غیرملکیوں پر وبال بن کر نازل ہوا۔
سویڈش ایمیگریشن کے مطابق سال 2023 میں 24000 ملک بدریوں کے فیصلے جاری کئے گئے جن میں سے بہت سے افراد نے سویڈن نہیں چھوڑا، گزشتہ برس برسلز میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں سویڈش شہریوں کی ہلاتک پر کے بعد سویڈش حکومت کی جانب سے ملک بدریوں کو جلد عمل میں لانے کا فیصلہ کیا گیا جس کا اطلاق جنوری سے ہی شروع ہوچکاہے، پاکستان ہو یا افغانستان، غزہ ہو یا روس سے متصل بیلاروس ہر ملک کے افراد یہاں تک کہ تین سالہ اور آٹھ سالہ ایسے بچوں کو بھی ملک بدر کیا جارہا ہے جو فوستر فمیلیز کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
پاکستانی طالب علم عدنان کے لئے ہزاروں مقامی افراد نے پٹیشن دائر کی مگر مائگریشن اپنے فیصلے پر اٹل رہا، افغانستان شہری طاغی وکیلی کودس سال بعد ملک بدر کیا جارہا ، یہاں تک کے جنگ زدہ غزہ کے شہری کو ملک بدری کا فیصلہ موصول ہوا جسے میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد مائگریشن نے اسے اپنی غلطی قرار دے کر ملک بدری روک دی۔
یہاں تک کہ آٹھ سالہ البناین بچی جوکہ ایک فوستر فیملی میں پرورش پارہی ہے اسے اپنے ملک تنہا ڈی پورٹ کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیاہے،عوام الناس میں ان ملک بدریوں کے حوالے سے کافی مایوسی پائی جاتی ہے جبکہ بچوں کی ملک بدریوں پر مائگریشن منسٹر کا کہنا ہے کہ تمام تر ملک بدریاں سویڈش قوانین کو مدِنظر رکھ کر عمل میں لائی جارہی ہیں۔