انتہائی معزز و محترم قارئین اکرام آپ یقیناً اس بات سے اتفاق فرمائیں گے کہ بات انفرادی ہو اجتماعی ہو یا ملکی اور قومی تشخص کا معاملہ ہو اخلاقیات جن کا تعلق تربیت سے ہے اُس میں بنیادی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں ماہرینِ نفسیات تعلیم کے تین حصے بتاتے ہیں جن سے کوئی معاشرہ تشکیل پاتا ہے یا قومیں بنتی ہیں اور وہ ہیں پرائمری ، سیکنڈری اور انوائرمنٹل اولاذکر تعلیم گھریلو ماحول ہی میں پہلے پانچ سالوں میں مکمل ہو چکی ہوتی ہے جس میں خاندانی تربیت کہ بچہ ماں باپ بہن بھائیوں سے کیا سیکھتا ہے اور کیا دیکھتا ہے وہ انمٹ نقوش زندگی بھر اس کی شخصیت پر حاوی رہتے ہیں اِسی لیے دانا ابتدائی پانچ سالوں کو شخصیت سازی کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔
تعلیم کا دوسرا حصہ سکول ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں تکمیل پاتا ہے اور تیسرے حصے میں انسان گرد و نواح میں کیا کچھ دیکھتا ہے اور کیا سیکھتا ہے ۔ قا ئد اعظمؒ کو اگر قدرت نے موقع دیا ہوتا تو وہ یقیناً اپنے چودہ نکات کی روشنی میں کوئی دستورِ عمل تیار کرواتے مگر ان کی راحلت کے بعد مکمل ایک دہائی تک بے ہنگم کھینچا تانی کے معاملاتِ حکومت ہی چلتے رہے اور ١٩۵٨ میں پہلی طویل مارشلائی حکومت آ ٹپکی ،اسوقت بھی جھوٹھے نعروں ، منشوروں اور اسلام دشمن قوتوں کی ایما پر انتہائی گھنائو نا کھیل کھیلا گیا جس کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا اور آج پھر ایک غیر ملکی حکومت کے تھرڈ سیکریٹری کی ایما پہ 1971 والے سارے خاندانوں اور کرداروں کو یکجا کر کے عدلیہ انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کی بے ضابطگیوں سے ایسے حالات پیدا کروائے جا رہے ہیں جس سے بقیہ پاکستان مسلسل خطرے کی زد میں رہے اور ملک کے استحکام اور بقاء کی ضامن اکثریتی جماعت کو ہر ممکن طریقے سے ناکام کروایا جا سکے ۔
ممکن ہے کہ غیر ملکی ہدایات اسٹیبلشمنٹ کی منفی سوچ اور لوٹ مار کے ماہرین سیاستدان اور بیوروکریٹس اپنی ماہرانہ منافقت سے وقتی طور پہ کامیاب بھی ہو جائیں مگر اس سارے عمل کا ڈس کریڈٹ چند کرپٹ لوگوں کی وجہ سے ایک ایسے ادارے کو جا رہا ہے جس سے نفرت و حقارت ملکی اور قومی مفاد میں نہیں ہے ۔ الیکشن کا ڈھونگ بالکل اسی بھونڈے انداز میں رچایا جا رہا ہے جیسے ٩ نو مئی کا ڈرامہ اور اٹھارہ ماہ کی ایسی حکومت جس کے تمام کے تمام کرداروں کا لوٹ مار کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے ہر چند کہ اس سارے عرصے کی قانون سازی بھی ملزمان کو تحفظ نہیں دے پائے گی اور کسی وقت بھی جائز اور فیئر الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی بااختیار اور صاحب کردار لوگوں پہ مشتمل اسمبلی ان قوانین کو عوامی خواہشات کے مطابق بیک جنبشِ قلم کالعدم قرار دے دیگی، جس ڈر سے ایک مقبولِ عام پارٹی کے خلاف ہر ممکنہ زیادتی، ظلم و جبر اور میڈیا ،عدلیہ و الیکشن کمیشن کا خلافِ آئین استعمال ہو رہا ہے اور حسد بغض جھوٹ اور منافقت کا دھونس دھاندلی اور ہر ماہرانہ انداز میں استعمال سے بھی مطلوبہ نتائج ممکن نظر نہیں آرہے اور اسلام دشمن تھاپڑہ لگانے والی قوتیں خود ہی بھانڈہ پھوڑ دیتی ہیں۔
ان دنوں بی بی سی ، سکائی نیوز اور سی سی این کے تبصرے اور امریکن اخبارات میں چھپنے والے پاکستانی نظامِ عدل اور افواجِ پاکستان کے متعلق کارٹون ہر محبِ وطن پاکستانی کے لیے باعثِ ندامت ہیں ۔ اس موقع پہ چاہیے تو یہ تھا کہ گزشتہ پچھتر 75 سالہ غلطیوں سے سبق سیکھا جاتا اور ان کے ازالے کی غرض سے افواجِ پاکستان اپنی پیشہ ورانہ تربیت کو بہتر سے بہتر بنانے پہ توجہ مرکوز کرتی اور یہ دیکھتی کہ ملکی دولت کی لوٹ مار اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے اربوں روپے کے بیرون ملک اثاثے بنا کر فوج کی بدنامی کا باعث بننے والے افراد کو آرمی ایکٹ کے مطابق ہی سہی ان سے جواب طلبی ہوتی مگر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ،اسی طرح عدلیہ اپنے ادارے کا محاسبہ کرتی کہ کتنے ججزنے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا کر اپنے منظورِ نظر لوگوں کو نوازا ہے اور اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کی جائز منی ٹریل فراہم کرتے بے نامی جائیدادوں کی تحقیق کرواتے تا کہ ان کے فیصلوں کی کوئی قانونی اور اخلاقی جوازیت ہوتی اگر یہ دو کام ہو جاتے تو پھر لوٹ مار دلالی اور مافیائی طرزِ عمل میں ملوث سیاستدانوں اور بیوروکریٹس جن کی صرف سویٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑی دولت مملکتِ خداداد پاکستان کے قرضوں سے کہیں زیادہ ہے واپس لانے حکومتی قرضے ادا کرنے اور غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے پراجیکٹس شروع کیے جانے میں آسانی ہوتی۔
مگر موجودہ جھوٹ فریب اور منافقانہ طرزِ سیاست اور انداز حکومت سے دور دور تک اس کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے ۔ جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے ، جمہوری نظامِ حکومت میں صاف ستھرے فیئر الیکشن کا بنیادی مقصد ہی صرف ایک ہوتا ہے کہ عاقل بالغ رائے دہندگان کی اکثریتی رائے کا احترام کرتے ہوئے ایک مضبوط عوامی حکومت قاہم ہو جو مفاد عامہ کے معاملات کو بہتر انداز میں نباہتے ہوئے قومی اور ملکی ترقی میں نمایاں رول ادا کر سکیں اور دنیا میں وہی اقوام باعزت اور پُروقار سمجھی جاتی ہیں جہاں یہ معاملات پوری نیک نیتی اور دیانتداری سے سر انجام پاتے ہیں جہاں پچانوے فیصد باشعور لوگ الیکشن کمیشن انتظامیہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے حسد بغض نفرت اور منافرت پہ مبنی انتقامی کاروائیوں کو بآسانی محسوس کر رہے ہوں کہ یہ سارا عمل گزشتہ پچھتر 75 سالہ کرپشن کے نظام کو دوام بخشنے کی ایک ناپاک سازش کا حصہ ہے ،اس الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کی کیا کریڈیبلٹی ہو سکتی ہے ؟ جس کے قا ئم ہونے سے پہلے ہی غیر جانبدارانہ ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کھلے عام شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے خلائی اور مافیائی قوتوں کے تذکرے کر رہے ہیں ۔
اِس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پہ کافی باتیں من گھڑت اور فیک ہوتی ہیں مگر اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ اسوقت عمران خان نہ صرف پاکستان بلکہ امتِ مسلمہ کے پاپولر ترین ویژنری باجرات لیڈر کے طور پر ابھرا ہے جس سے اسلام دشمن قوتیں بھی نہ صرف خوف زدہ ہیں بلکہ اسے اقتدار سے دور رکھنے کے لیے اپنے کارندوں کے ذریعے تمام کرپٹ عناصر کے اشتراک سے گزشتہ اٹھارہ ماہ سے اس کے خلاف ایک منظم مہم چلوا رہے ہیں مگر قدرت کے فیصلے انسانی سوچوں سے کہیں بالا تر ہوتے ہیں ۔
” وتعز و من تشاء و تذل من تشاء ” بحیثیت انسان اُس کی تمام تر لغزشوں اور کوتائیو ں کے باوجود اُس پہ اللہ کا یہ کرم ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت و وقار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اُس نے اپنے اور اپنی جماعت کے خلاف روا رکھے گئے ظلم و زیادتی اور گھٹیا فیصلوں کے خلاف عوام کو پُر امن رہنے کی اپیل سے ایک بار پھر اپنے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے ۔ عام آدمی کو تو نہ سہی لیکن کاش کے حفاظ اکرام اور قاضی صاحبان کو حضور نبیِ پاک صلی للہ علیہ و سلم کا یہ فرمان یاد ہوتا جو وہ بزبان خود فرمایا کرتے تھے کہ مجھے معلمِ اخلاق بنا کر بھیجا گیا ہے، اس اسوہ حسنہ پہ عمل پیرا ہو کر اپنے آپ کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے الٹا پوری اسٹیبلشمنٹ حسد و بغض جس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے کو اپنا کر اپنی مکمل کم ظرفی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ لمحہِ فکریہ ۔ این سعادت بہ زور بازو نیست ۔ تانبخشد خدای بخشندہ اللہ پاک اپنے کرم و فضل سے وطنِ عزیز کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ہم سب کو نورِ ہدایت سے نوازے ۔ آمین ثمہ آمین ۔