رمضان المبارک کا مہینہ ہر سال رحمت مغفرت اور نجات کی صدائیں لگاتا ہوا ہماری زندگی میں آتا ہے ہر طرف ایک نور کا سماں ہوتا ہے ماہ رمضان کی آمد سے پہلے ساراسال جنت سجائی جاتی ہے اوررمضان آتے ہی جنت کہتی ہے کہ اے اللہ اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کردے اللہ کے خاص بندے وہ ہیں جن کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر موجود ہواوررمضان کے آتے ہی ان پر خوشی اورمسرت کی ایک کیفیت طاری ہوجائے رمضان المبارک کاپہلا مرحلہ روزہ رکھنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم اوراپنے بندے سے محبت کاعالم قابل دید ہے کہ روزے کی حالت میں انسان کو ایسا صبراوربرداشت نصیب ہوتا ہے کہ بھوک اورپیاس کی شدت کا احساس تک نہیں ہوتا اورپھراللہ تعالیٰ نے انسان کی اس کیفیت کو کس قدربلند مقام عطا کیا ہے کہ روزہ دارکے منہ کی بدبواللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبوسے اچھی ہے اسکے بعد دوسرامرحلہ شروع ہوتا ہے جوزہد اورتقویٰ کامتقاضی ہے اس مرحلے میں انسان ہرقسم کے چھوٹے اوربڑے گناہوں سے اجتناب کرتا ہے۔
تیسرےمرحلہ کے ذریعے انسان کو بلند مقام حاصل ہوتا ہے اسکے دل میں ذکرالٰہی کی شمع روشن ہوجاتی ہے اوردل مغرفت الٰہی سے منورہوجاتا ہے رمضان کے لفظ میں پانچ حروف ہیں ’’ر سے مراد اللہ کی رضامندی‘‘ ’’م سے مراد خدا کی محبت‘‘ ’’ض سے مراد خدا اپنے بندوں کا ضامن ہے‘‘ ’’ا سے مراد خدا کی الفت‘‘ ’’ن سے مراد خدا کا نور‘‘۔ تو یہ مہینہ رضامندی ، محبت ، ضمانت ، الفت نور ، بخشش اور عزت کا ہے اور یہ خدا کے ان بندوں کے لئے ہے جو خدا کے دوست اور نیک متقی و پرہیز گار ہیں اس مہینے میں مومنوں کے دل معرفت اور ایمان کے نور سے آراستہ ہوتے ہیں اور جو شخص اس مہینے میں نہ بخشا جائے اس کے حال پر بہت افسوس ہے خدا کے رسول ﷺ نے فرمایا جب تک میری امت کے لوگ رمضان میں روزے رکھتے رہیں گے تو وہ کبھی خوار اور ذلیل نہ ہونگے اگر رمضان میں شراب پینا جاری رکھا جائے ، زناکاری جاری رہے ، برے افعال جاری رہیں تو ایسے لوگوں پر خدا کے فرشتے آئندہ رمضان تک لعنت بھیجتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کردئے گئے ہیں جسطرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی ہوجاؤ (البقرہ ۳۸۱) اللہ رب العزت اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم متقی ہوجائیں تاکہ وہ ہمیں جنت میں اعلی مقام دے سکے رمضان کا مہینہ یہی پیغام لے کر آتا ہے کہ اپنے دل کی دنیا کو بدلنے کے لئے تیار ہو جاؤ اگر تمہارا دل محبتِ الٰہی کی آماجگاہ بن گیا تو نفسانیت اور شیطانیت کے لئے وہاں پر کوئی جگہ نہیں ہو گی یہ مہینہ جسکی ابتدا رحمت ہے اور اسکا درمیان مغفرت ہے اور اس کے آخر میں دوزخ کی آگ سے آزادی ہے اس مہینے میں چار خصلتیں زیادہ اختیار کرنا لازمی ہیں ایک لاالہ الااللہ ہے اور دوسرا استغفار دوسری دو باتیں ایک اللہ سے جنت مانگنا ہے اور دوسری دوزخ سے بچنے کی پناہ اگر کوئی آدمی روزہ دار کو اس مہینے سیر کرکے کھلائے گا تو قیامت کے دن خدا تعالیٰ حوض سے ایسا شربت پلائے گا کہ اس کے بعد پھر وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا اگر اس مہینے مومنہ یا مومن نماز پڑھتا ہے خدا ہر سجدہ کے عوض ایک ہزار سات سو نیکی عطا کرے گا اور یاقوت سرخ سے اسکا جنت میں گھر بنائے گا جس کے سترہزاردروازے ہونگے اور سب سونے کے ہونگے۔
جب مومن ماہ رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ رمضان کے آخر تک کے اس کے گناہ معاف کردیتا ہے اور جب مومن دن رات سجدے کرتا ہے ان میں سے ہر ایک سجدے کے عوض جنت میں ایک درخت عطا کرتا ہے جس کا سایہ اسقدر ہوگا کہ اگر ایک سوار سو برس تک اس کے سایہ میں چلے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے اللہ جنت کے فرشتے رضوان کو پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے جنت آراستہ کرو اور دروازے کھول دو جب تک رمضان گزار نہ جائے دروازے کھلے رکھنا اسکے بعد دوزخ کے دربان کو آوازدی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ محمد ﷺ کی امت کے لئے دوزخ کے دروازے بند کردو اور جب تک رمضان نہ گزر جائے دروازے بند رکھنا آقا ﷺ نے فرمایا اگر روزہ دار سو جائے تو اسکا سونا بھی عبادت ہے اور اسکی خاموش تسبیح ہے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ایک رات شب قدر ہے شب قدر انتہائی قدرو منزلت اور برکتوں والی رات ہے۔
اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے غافل و گناہ گار بندوں کی توبہ فوری قبول فرماتا ہے وہ چھبیس رمضان کا دن اور ستائیس رمضان کی شب تھی جب خدا کے خاص فضل و کرم سے ایک آزاد خود مختار اسلامی فلاحی ریاست ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” کا قیام عمل میں آیا رمضان کی مبارک ساعتوں میں پاکستان کا معرض وجود میں آنا درحقیقت قدرت الٰہی کا بہت بڑا انعام اور رمضان المبارک میں مسلمانوں کی دعاؤں کی قبولیت قرآن کریم کی تلاوت اور کلمہ طیبہ کی برکت تھی اگرہم انبیاء، رسل، صحابہ کرام، اولیاء اللہ کی زندگیوں پر نظرڈالیں اعمالِ صالحہ کی کثرت کے باوجود اللہ سے رو رو کر اُس کی رحمت طلب کرتے تھے کیا ہمیں اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر نہیں؟ ہم اپنے رب سے گڑگڑا کر کیوں نہیں پوچھتے کہ اس نے اپنی رحمت کا دروازہ ہمارے اوپر کیوں بند کر دیا ہے؟ قرآن متقیوں کی تین صفتیں بتا رہا ہے غیب پر ایمان لانا نماز قائم کرنا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اپنے اندر اتر کر خود کا جائزہ لو کہ کیا ہمارے اندر یہ تین صفتیں پیدا ہو سکی ہیں یا نہیں؟ اس رمضان میں ہم اپنی عملی زندگیوں میں تبدلی کو یقینی بنانے کا تہیہ کرلیں اور جہاں تک ممکن ہوسکے ایک دوسرے کیلئے آسانی پیدا کریں جھوٹ نہیں بولینگے غیر ضروری نفع نہیں کھائینگے چور بازاری نہیں کریں گے زنا کاریوں سے اجتناب کریں گے اور دھوکا دہی سے بچینگے تقویٰ ، پرہیزگاری ، ہمدردی ، غمگساری ، محبت وخیر خواہی ، جذبہ خدمت ِ خلق ، راہ خدا میں استقامت ، جذبہ حمیت اور جذبہ اتحاد ، اللہ اور رسول ﷺ سے بے انتہا لو لگائیں گے۔
خدا کے اس تحفہ کی قدر کرتے ھوئے اس مبارک مہینے میں ہم اپنے سابقہ گناہوں سے سچی توبہ اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے اور اپنے نفس کی اصلاح سے خالق حقیقی کے نیک و مقرب بندے بن سکتے ہیں جب حشر میں پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کیلئے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے ان کے سوا کسی اور کا اس دروازے باب الریان سے داخلہ نہیں ہو سکے گا جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں سمیٹنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں