محترم قارئین کرام یہ قانون فطرت ہے کہ انسانی ذہن دل و دماغ اور انداز تفکر اپنے ماحولیاتی اثرات سے مستفیض ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور شاید اسی لیے دنیا بھر کے ماہرین نفسیات نے تعلیم کو بھی تین حصوں میں کچھ اسطرح تقسیم کیا ہے کہ پہلا حصہ پرائمری ایجوکیشن پہلے پانچ سالوں میں گھر کے اندر ہی بچہ جو کچھ اپنے والدین بہن بھائیوں سے سنتا اور دیکھتا ہے وہ اس کے ناپختہ ذہن پہ کچھ اسطرح نقش ہو جاتا ہے کہ زندگی بھر اس کی حرکات و سکنات، طور طریقوں ا،خلاقیات، تہذیب و تمدن سے اس کی نمایاں جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
اسی لیے بچوں کی اچھی تربیت کا کریڈٹ زندگی بھر ” صد دی رحمت جننے والوں کو ” کے طور پر والدین کو ملتا رہتا ہے اور اگر معاملہ مختلف ہو تو بھی گھریلو تربیت کا ذکر ضرور آتا ہے ۔ ایجوکیشن کے دوسرے حصے کو سیکنڈری ایجوکیشن کا نام دیا گیا ہے جس کا تعلق سکول کالج اور یونیورسٹیوں سے ہے اور ماہرین نفسیات تیسرے حصے کو انوائرمینٹل ایجوکیشن کا نام دیتے ہیں کہ ایک باشعور انسان گرد و نواح سے کیا سیکھتا ہے عرصہ دراز ہی سے کسی غیر اسلامی ملک ( جسے کافروں کا ملک کہا جاتا ہے ) میں رہتے ہوئےاور بغرض شوق سیاحت دنیا کے طول و عرض میں گھومنے پھرنے سے اس بات کی ہمیشہ حسرت رہتی تھی کہ کاش میرے وطن عزیز جہاں قدرتی حسن اور دلکش مناظر کی بہتات ہے وہاں بھی کوئی ایسا ہی دیانتدارانہ اور میرٹ پر مبنی نظام حکومت قائم ہو جس سے ہم بھی باوقار ہونے کے احساس سے ترقی پذیر ممالک کی دوڑ میں شامل ہو سکیں مگر ایسا ہو نہ سکا اور بقول شاعر کہ
اصول بیچ کر مسند خریدنے والو
نگاہ اہل نظر میں بڑے حقیر ہو تم
ہوس کے بندے ہو اور بے ضمیر ہو تم
جس سے ایک اسلامی ملک اور اس کے باشندوں کو بین الاقوامی لیول پر عزت و وقار سے ہمیشہ محروم رہنا پڑا ۔آئیں ذرا ایک غیر اسلامی ملک سے آئین سازی کا ہلکا سا موازنہ کر لیں ۔ پارلیمنٹ اور ایوان بالا تو دور کی باتیں ہیں ذرا لوکل گورنمنٹ کی قانون سازی کا انداز دیکھئے ۔ ڈرافٹ ایجنڈا دس دن پہلے پبلش ہوتا ہے جو تمام کونسلرز کو بزریعہ ای میل بجھوا دیا جاتا ہے تین دن کونسلرز کے پاس ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ضروری ایٹم کسی وجہ سے شامل نہ ہو سکی ہو تو اسے شامل کروا دیا جائے ۔
سات دن پہلے ایجنڈے کو حتمی شکل دے کر رولنگ پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی ایک ایک شق پہ تفصیلاًغور و خوض کرتی ہے ۔ مگر شومیے قسمت موجودہ طرز حکومت سے مستقبل قریب میں ایسا ہوتا اس لیے نظر نہیں آرہا کہ مجھے غالبا ًچار دہائیوں کے بعد پاکستان پارلیمنٹ اور اس کے ایوان بالا میں قانون سازی اور آئینی ترامیم کی جس گھٹیا انداز میں کوششوں کا ٹیلی ویژن نشریات سے پتہ چلا، اس سے ہر با شور پاکستانی کے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں، فارم 47والوں کی تو چلو مجبوری ہی سہی کہ وہ جب تک حکومت کے حواریوں میں ہیں اپنی بے ضمیری کا خمیازہ بھگتتے ہی رہیں گے مگر بقیہ کی خاموشی چہ معنی دارد ۔
جس وقت ممبر سروسز ٹیم Recommendations فل کونسل کے لیے تیار کرتی ہے ۔ جس کی متعدد اضافی کاپیاں پرنٹ کر کے کونسل ریسیپشن اور چیمبر کے باہر گیلری انٹرنس کے باہر رکھ دی جاتیں ہیں تاکہ لائبریری ، لاچیمبرز کے ممبران ، سول سوسائٹی یا دیگر لوکل معاملات میں دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات اگر چاہیں تو اپنی اپنی کاپی اٹھا لے جاسکیں ۔ فل کونسل میٹنگ سے چار دن پہلے ہر گروپ اپنی اپنی میٹنگ کر کے ہر ایک ایجنڈا ایٹم کے متعلق یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہم نے کون کون سی آئٹم کو سپورٹ کرنا ہے اور کون کون سی آئٹم کو اپوز کرنا ہے اور اس پہ لیڈ کس نے لینی ہے اور بیک اپ کس کی ذمہ داری ہے۔
بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی شام سات بجے فل کونسل میٹنگ سے ایک گھنٹہ پہلے تمام گروپس کی پری میٹنگ ہوتی ہے جس سے تمام ممبران اپنی ذاتی اور انفرادی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھائے جانے کے لیےکونسل چیمبر میں داخل ہوتے ہیں اور جس سنجیدگی اور خوش اسلوبی سے کونسل ڈیبیٹ ہوتی ہے وہ ڈیکورم یہاں پارلیمنٹ اور سینٹ کے اجلاسوں میں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ اور اگر اجلاس سے ایک گھنٹہ پہلے تک ممبران کو اجلاس کے ایجنڈے کا پتہ ہی نہیں ہے تو انہوں نے ریسرچ کیا خاک کرنی ہے اور اگر پی ڈی ایم کے گزشتہ ادوار میں آ ئینی ترامیم اور قانون سازی اسی طرح ہوتی رہی ہے تو پھر اس سے بد تر کھلواڑ آ ئین پاکستان کے ساتھ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو ملکی وقار کے سراسر منافی ہے ۔
ترقی یافتہ غیر مسلم ممالک کا ہر ممبر اپنی آزادانہ اور نیک نیتی پر مبنی رائے کے مطابق اپنا ووٹ کاسٹ کرتا ہے اور عوام الناس کے مسائل کا بہتر حل تلاش کر کے حقیقی خوشی اور دلی سکون محسوس کرتے ہیں اس طرح حق نمائندگی ادا کرتے ہوئے ہمیشہتابع ضمیر رہ کر ہی اظہار رائے کرتے ہیں نہ کہ جھوٹ فریب اور منافقت سے ہمہ وقت ملمہ سازی کرتے ہیں جس سے شبہ ہوتا ہے کہ وزارت اطلاعات آج بھی ڈارون کے دور کی باتیں کر رہی ہے اور لوگ کنٹرولڈ میڈیا پہ اعتبار کرنے کی بجائے سوشل میڈیا ، الجزیرہ ، بی بی سی اور سکائی چینل پہ انحصار کرتے اور محسوس کرتے ہیں کہ ان کی رپورٹس زیادہ قرین انصاف ہیں ۔ جو باعث ندامت و شرم ہے ۔
دعاگو ہوں کہ رب کریم اس مملکت خداداد پاکستان پہ اپنا کرم و فضل فرمائے اور بے ضمیری حسد بغض کینہ و منافقت کے طوفان سے نجات دلا کر عام آدمی جو مہنگائی کی چکی میں مسلسل پسے جا رہا ہے کی بہتری اور انصاف کا بول بالا فرمائے ۔ آمین ثمہ آمین ۔