جیسے ہی 31 دسمبر کی رات 12 بجتے ہیں تو دنیا بھر میں نئے سال کا ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے، سال کے آخر میں 25دسمبر کو عیسائی کرسمس ڈے مناتے ہیں اور پاکستانی قائد اعظم کا یوم پیدائش مناتے ہیں، سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا واقعی ہندسے بدلنے سے حالات بھی بدل جاتے ہیں؟ وہی سورج ہوگا جو گزرے سال کے آخری دن ڈوبا تھا، وہی لوگ ہوں گے، وہی حالات اور سوچیں ہوں گی، بس لوگوں کو خوشی منانے کا، ڈانس پارٹیاں منعقد کرنے کا ایک موقع مل جاتا ہے، ورنہ سارے دن عام سے ہوتے ہیں اور ایسے لوگ جو نئے سال کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ نیا ٹائم ٹیبل بنائیں گے زندگی میں جو بے ترتیبی ہے وہ اگلے سال ٹھیک کرینگے وغیرہ وغیرہ یہ ایسے ادھورے خواب ہیں جو ہر سال ظاہر ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی کچھ نہیں ہوتا اور چند دن بعد دوبارہ وہی روٹین شروع ہو جاتی ہے۔
سال 2021- 2020کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر سے اربوں افراد نہ صرف بیروزگار ہوئے بلکہ تڑپ تڑپ کر ہزاروں لوگوں نے جان بھی دے دی، برطانیہ میں کساد بازاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا، بیروزگاری سے مہنگائی اور دیگر معاشرتی مسائل نے جنم لیا، بین الاقوامی ائر پورٹس کی بندش، فضائی سروس معطل ‘ اسٹاک ایکسچینج سمیت بڑے کاروباری مراکز بند ہونے سے اب تک برطانیہ سمیت یورپی ممالک اور امریکہ میں لاکھوں افراد بیروزگار ہوئے یہ ایک ایسا وائرس ہے جس کے خوف نے انسانوں کے اندر فاصلوں کو جنم دیا ہے، انہیں نہ صرف ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے بلکہ ان کے اندر محبت، وارفتگی، چاہت اور میل ملاپ کا بھی خون کر دیا ہے، دیکھا جائے تو تمام مذاہب اور قومیتوں کے مختلف تہوار اور خوشی کے ایام ہوتے ہیں، ہر دن کے پیچھے کوئی نہ کوئی پیغام ضرور پوشیدہ ہوتاہے، مغرب نے مدر ڈے ، فادر ڈے ، ویلنٹائنز ڈے وغیرہ متعارف کرایا، جس کا مقصد رشتوں کی پاسداری کرنا ہے کیوں کہ مغرب میں ان رشتوں کو جس طرح سے پامال کیاجاتاہے وہ ہمارے سامنے ہیں۔
مسلمانوں کیلئے عید کی خوشیاں ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کو دکھ سکھ میں ایک دوسرے کاساتھ دینا ہے اور یہ عہد کرنا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہیں کریں گے، کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اس کے دکھ بانٹیں گے اور اس پیار ومحبت کو پورے سال تک برقرار رکھیں گے، نئے سال کے جشن کی بات سمجھ سے بالا تر اور عقل کیخلاف ہے کیونکہ دن تو شمار کیلئے بنائے گئے ہیں، پھر گھٹتے وقت کے خسارے پر غم کے بجائے خوشی کیسے منائی جاسکتی ہے، آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر نئے سال کے جشن کی ابتدا کس نے کیوں اور کب کی،جب نیا سال شروع ہوتا تو صحابہ کرام ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے (اے اللہ اس کو ہم پر امن و ایمان سلامتی اور اسلام کے ساتھ رحمٰن کی خوشنودی اور شیطان سے حفاظت کے ساتھ لائیے) ہمیں بھی صحابہ کرام کی طرح اللہ رب العزت سے سلامتی کی دعائیں مانگنی چاہئیں۔
نئے سال کی خوشیاں ضرور منانی چاہئیں مگر اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو یاد کر کے ان پر قابو پانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے، اللہ سے گزشتہ گناہوں پر صدق دل سے معافی مانگنی چاہیے، نئے سال راہ راست پر چلنے کی دعا مانگنی چاہیے، دن رات زمین آسمان سب کچھ وہی ہے اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسی طرح ہمارے ساتھ ہیں، جس طرح نئے سال میں نیا پن کچھ نہیں، اسی طرح پچھلا سال بھی کسی عذاب سے کم نہ تھا بلکہ ظلم و جبر کی اِنتہا کا سال تھا، قتل و غارت گری کے نئے انداز کا سال تھا، فحاشی و عریانیت کے پھیلائو کا سال تھا، مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کے ساتھ کھلواڑ کا سال تھا، عوام کے ساتھ حکمرانوں کی دورخی کا سال تھا، پچھلے سال بھی ہم غلام تھے اور اِس سال بھی غلاموں کی سی زندگی بسر کر یں گے، کل بھی اِنصاف نہیں مل رہا تھا اور آج بھی ہم اِنصاف کے متلاشی ر ہیں گے، گزرے سال کے آخری دن وہی روایتی سوال خود سے اور دوسروں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ سال کیسا گزرا، کیا کھویا اور کیا پایا۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ ان ہی میں سے ہے (ابوداؤد) آج مسلمانوں کو اپنی روایات کی ناقدری نے احساس کمتری کا شکار بنادیا ہے، ایک مسلمان کی نظر میں نیا سال مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ خوشی منانے کے بجائے اپنا محاسبہ کریں، پورے سال کے اعمال کا جائزہ لیں، کیا کھویا اور کیا پایا ہے، عبادات، معاملات، اعمال ،حلال و حرام، حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی کتنی کی ہے اور کتنا اس میں غافل رہے ہیں، کیا ہم خوشی منانے میں مگن ناچ گانوں کی محافل کا انعقاد آتش بازی اور فضول خرچ کرکے اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے رہے ،حضور کا فرمان ہے تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے، حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن مسلمان سے پانچ سوالات ہوں گے، اپنی عمر کس کام میں بسر کی؟ اپنی جوانی کس کام میں صرف کی؟ مال کس ذریعہ سے کمایا؟ مال کو کس راہ میں خرچ کیا؟ اور جو کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا ۔
پاکستان کو اللہ نے بے شمار وسائل سے نوازا ہے لیکن یہ دولت فلاح ِ انسانیت کیلئے خرچ ہونی چاہیے، عوام کی حالت بہتر بنانے پر صرف کی جانی چاہیے، غربت کے خاتمہ کیلئے منصوبہ بندی کیلئے ٹھوس اقدامات متقاضی ہیں، جرم، ناانصافی اور سماجی برائیوں کے قلع قمع کے لئے کام کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے، پوری دنیا میں شاید سب سے زیادہ پروٹوکول پاکستانی حکمرانوں کا ہے، جن کی آمدورفت کے موقع پر گھنٹوں ٹریفک جام رکھنا عام سی بات ہے، اس دوران ایمبو لینسوں میں مریضوں کی موت واقع ہو جائے، طالبعلم کو تعلیمی اداروں اور ملازمین کودفاتر سے دیر بھی ہو جائے تو حکمرانوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ہماری اشرافیہ نے ان کے مقدرمیں محرومیاں اور مایوسیاں لکھ دی ہیں اور جب مایوسیاں حد سے زیادہ بڑھ جائیں انسان کو اپنی ذات سے بھی محبت ختم ہو جاتی ہے، اس ملک میں امیر امیر تر، غریب غریب ترین ہوتا جارہا ہے، دعا ہے کہ یہ نظام بھی بدلنا چاہیے، ہم پاکستانی ایک ملک میں رہنے کے باوجود آج بھی سندھی بلوچی پٹھان اور پنجابی کی تفریق سے باہر نہیں نکلے۔
آج نئے سال کے آغاز پر تہیہ کرلیں کہ ہم آج سے ہی جھوٹ، مکر، فریب، غیبت، بخیلی، تنگ دلی فضول گوئی، بے صبری، خودنمائی، دروغ گوئی، وعدہ خلافی، لڑائی جھگڑے، آبروریزی ،نفرت، غصہ، احساسِ کمتری، تخریب کاری، چغل خوری، حرام کاری، کام چوری، سود خوری، ظلم، بدعہدی، خیانت جعل سازی رشوت خوری، بدزبانی، بہتان تراشی، فساد انگیزی، تکبر، ہٹ دھرمی، حرص، ریاکاری اور منافقت جیسی برائیوں کا اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرکے نظم وانضباط، تعاون، امدادِ باہمی، محبت، اعتبار، وسعت نظری، سچائی، نیکی، انصاف، پاسِ عہدی، امانت داری، ہمدردی، رحم، فیاضی، فراخ دلی، صبر و تحمل، اخلاقی بردباری، خودداری، شائستگی، ملنساری فرض شناسی، وفا شعاری، مستعدی، احساس ذمہ داری، والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسن سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری، مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت، پاک دامنی خوش گفتاری نرم مزاجی خیر اندیشی، راست بازی، کھرا پن، فراخ دلی اور امن پسندی جیسی اچھائیوں کو اپنائیں گے۔ ہندسوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی زندگی بھی بدلنی ہے، ورنہ ہر نیا ہجری یا عیسویں سال صرف ہندسوں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں۔