سوال یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگرکہیں توہین مذہب کا واقعہ ہوجائے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ۔سوال یہ بھی ہے کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، اگر وہاںتوہین مذہب ہو تو کیا کرنا چاہپیے؟ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے لیکن جن حقائق اور بنیادی امور پر بات کی جانی چاہیے، بہت کم ہوئی ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ گزشتہ تیس سال میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں۔ ایسے واقعات پاکستان کے تمام علاقوں ہوئے ہیں اور ہرطبقہ زندگی کے لوگ ان میں ملوث رہے ہیں۔ توہین مذہب کے نام پر ہونے والے ایسے واقعات کا تسلسل سے ہونا اس مائینڈ سیٹ کی وجہ سے ہے جو ہمارے ہاں رواج پاچکا ہے۔شان میں رسالت ﷺ میں گستاخی اور توہین مذہب کے حوالے سے ہر ایک کا اپنا اپنا معیار ہے۔ اس لئے الزام غلط ہو یا درست ہو، خود ہی الزام عائد کرکے اور خود ہی جج بن کر فیصلہ کیا اور اسے محبت رسول ﷺ کا تقاضا قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد حضورﷺ سے منسوب ایک روایت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ من سب الابنیاء قتل، ومن سب الاصحاب جلد‘‘ یعنی جو کسی بھی بنی کی توہین کرے اسے قتل کراور جو صحابی کی توہین کرے ، اس کوڑے مارے جائیں۔
سیالکوٹ کے تین دسمبر کے واقعہ کے بعد مبینہ مرکزی ملزم نے سری لنکن شہری کے قتل کی بنیاد اسی روایت کو بنایا اور میڈیا کے سامنے اسے بیان کیا۔ یہ روایت سیاح ستہ یعنی بخاری، مسلم، جامع ترمذی، سنن ابودائو، سنن نسائی ، اور سنن ابن ماجہ کے علاوہ موطامام مالک میں کہیں بھی موجود نہیں۔ طبرانی کی اس روایت کوجمہور علماء نے ایک ضعیف حدیث قرار دیا ہے جو حضرت علی ؓسے منسوب ہے اور ان کی وفات کے تین سو سال بعد لکھی گئی۔ اس حدیت کے روای عبیداللہ بن محمد عمری پر جھوٹ گھڑنے کا الزام ہے۔ اس حوالے سے ابن حجرنے لسان المیزان میں اس روای کو جھوٹا لکھا ہے۔ اس ضعیف حدیث کو بنیاد بنا کر قتل کرنا کسی طرح بھء درست عمل نہیں بلکہ بقول اقبال دین کو فی سبیل اللہ فساد کے لئے استعمال کرنا ہے۔اگر کوئی ظالم توہین مذہب یا شان رسالت ﷺ میں کستاخی کا مرتکب ہو، تو اس کے لئے قانون موجود ہے، کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود ہی الزام عائد کرے، فیصلہ سنائے اور اور پھر عمل بھی کرے۔ اس نازک اور حساس معاملہ کو لوگوں نے ذاتی عناد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ انتہا پسندی ، دوسروں پر اپنے نظریات مسلط کرنے اور اختلاف رائے کی عدم برداشت نے معاشرہ میں خوف اور عدم تحفظ کی جو صورتِ حال پیدا کردی ہے اس سے سب آگاہ ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جب ریاست کے ادارے بھی واضح پالیسی اختیار نہ کریں تو ایسے عناصر کو شہ ملتی ہے۔
ذمہ دار وہ وہ مذہبی فکر اور عقیدہ ہے جس نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ ڈال دیا ہے اسوہ حسنہ پر عمل کرو یا نہ کرو لیکن حرمت رسول کے لئے کسی کو جان سے مار دو گے تو عاشق رسول کہلاو گے اور جنت کی بشارت ملے گی۔ اس سلسلہ میں سورہ احزاب کی آیت 61 کا حوالہ دیا جاتا ہے اور اس آیت کے الفاظ قتلوا تقتیلا دہرائے جاتے ہیں۔ حالانکہ سورہ احزاب کی یہ اس آیت کا موضوع مختلف ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ میں منافقین کی جانب سے مسلمان خواتین کو منافقین کی جانب سے جب تنگ کیا جاتا تھا تو پردہ کے احکامات نازل ہوئے اور مسلمان خواتین سے کہا گیا کہ وہ چادر لے کر باہر جائیں تاکہ وہ پہچانی جاسکیں۔ اس کے بعد آیت 60 اور 61 میں یہ کہا گیا کہ اگر منافقین اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں اور بد امنی پھیلائیں تو پھر ان کے خلاف قوت کا استعمال کیا جائے۔ انہیں ریاست کی مراعات سے محروم کیا جائیاور پھر بھی اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں تو انہیں گرفتار کیا جائے اور سختی سے قتل کیا جائے۔ اس غور فرمائیں کہ جو آیات شریف زادیوں کو تنگ کرنے والے منافقین کی سرکوبی کے لئے نازل انہیں انہیں توہین رسالت کے لئے بیان جارہا ہے۔
دوسرا سوال یہ کہ اگر کوئی بدبخت گستاخی رسول یا توہین مذہب کو مرتکب ہو یا اگر کسی پر الزام ہو تو کیا کرنا چاہیے۔ اس صورت میں کسی فرد یا گروہ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ خود ہی مدعی اور خود ہی قاضی بن کر فیصلہ کریں اور سزا دیں۔ اس کے لئے ریاست کا قانون اور عدالتیں موجود ہیں۔ اسلام میں جن سزائوں پر عمل کرنے کا حکم ہے وہ کسی فرد یا گروہ کو نہیں بلکہ ریاست کو کہا گیا ہے۔ یہاں ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی نادانی اور جہالت کی بنیاد پر توہین کا مرتکب ہوجائے لیکن بعد میں توبہ کرلے تو کیا اس کی توبہ قابل قبول ہوگی؟ یا اسے معاف کیا جاسکتا ہے؟ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا (بحوالہ ردالمختار ۴ـ: ۲۳۶) ۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتاب احکام اسلام اور تحفظ ناموس رسالت کے صفحہ ۳۴۰ پر یہی حوالہ نقل کیا ہے۔ پاکستان میں غالب اکثریت امام ابوحنیفہ کی پیروی کرتی ہے اس لئے انہیں امام اعظم کے اس اصول کی روشنی میںدیکھنا چاہیے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان سے باہر دنیا کے دیگر ممالک میں خصوصا یورپ اور وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت ہیں، وہیاں اگر اسلام کی توہین یا گستاخی رسول کا واقعہ ہوجائے تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ ایسے واقعات کہیں بھی ہوں، اسلام نے ہمیں ایک بہترین اصول قرآن حکیم کی نساء کی آیت 140میں یو ں دیا ہے کہ’’ اور بیشک (اللہ نے) تم پر کتاب میں یہ (حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اْڑایا جا رہا ہے تو تم ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ (انکار اور تمسخر کو چھوڑ کر) کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔ ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔ بیشک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں جمع کرنے والا ہے‘‘ ۔
اگر ہم اس حکم پر عمل کریں اور کہیں کوئی توہین آمیز گفتگو کرنے کی کوشش کرے تو وہاں سے سلجھے انداز میں واک آئوٹ کرمہذب انداز میں اپنا رد عمل دیں اور اپنے آپ کو ایسے بد بخت عناصر سے الگ رکھیں۔