انٹرویو:طاہر محمود چوہدری
کامیابی انہی لوگوں کے قدم چومتی ہے جو محنت، صبر اور استقامت کے ساتھ زندگی کے کسی بھی میدان میں نکل کر جدوجہد کرتے ہیں اور مستقبل میں کچھ کر گذرنے کی تمنا رکھتے ہیں اور بے شک محنت اور کمٹ مننٹ جہدِ مسلسل کرنے والوں کو ان کی منزلِ مقصود تک پہنچا دیتی ہے،پاکستان کے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کے محلہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ ماہ رُخ چوھان نے بھی رواں سال سی ایس ایس کے امتحان میں 73 ویں پوزیشن لے کر شاندار کامیابی حاصل کی ہے اور انہیں سی ایس ایس ( 50کامن) پاکستان کسٹم سروس گروپ الاٹ ہوا ہے، ماہ رُخ چوھان نے ایک منفرد ریکارڈ یہ بھی بنایا ہے کہ وہ نہ صرف رواں سال پاکستان کسٹم سروس بلکہ اب تک پاکستان کسٹم سروس گروپ کی تاریخ میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والی سب سے کم عمر ترین امیدوار ہیں، انہوں نے یہ معرکہ محض 23 سال کی عمر میں اپنی پہلی کوشش اور بغیر کسی اکیڈمی کو جوائن کیے خود سے تیاری کر کے سرانجام دیا ہے، ماہ رُخ چوھان پاکستان آرمی کے سابق میجر (ریٹائرڈ) محمد اختر عابد چوھان کی صاحبزادی ہیں اور آج کل بہاولپور میں مقیم ہیں، ان کی تعلیم پاکستان کی مختلف کنٹونمنٹ میں ہوئی، دوران تعلیم ان کے والد کی ٹرانسفر پوسٹنگ کی وجہ سے دس کے قریب ان کے ہائی سکول تبدیل ہوئے، مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی کامیابیوں کا سفر جاری رکھا، ہم نے مس ماہ رُخ چوھان کی اس بےمثل کامیابی کے پیچھے محرکات اور ان کی اس شاندار سٹوری کو جاننے کے لیے ان سے تفصیلی انٹرویو کیا،جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔
ماہ رُخ چوھان نے بتایا کہ ان کی فیملی کا بنیادی طور پر تعلق تو پاکستان کے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کے محلہ اسلام آباد سے ہے لیکن وہ پچھلے 10 سال سے بہاولپور میں مقیم ہیں، ان کے والد پاکستان آرمی سے میجر (ریٹائرڈ) ہیں، تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے والد اپنی دوسری جاب کی وجہ سے فیملی کے ہمراہ بہاولپور میں ہی مقیم ہیں،تین بہنوں اور ایک بھائی پر مشتمل اس فیملی میں ماہ رُخ سے بڑی ایک بہن ڈاکٹر ہے جس نے حال ہی میں ایف سی پی ایس کا (پارٹ ون) کیا ہے جبکہ چھوٹی بہن ایم بی بی ایس کے چوتھے سال میں ہے اور چھوٹا بھائی حافظ قرآن اور فرسٹ ایئر کا طالب علم ہے۔
ماہ رُخ کا اپنی تعلیمی استعداد کے حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اسلام آباد سے اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس میں بی ایس کیا ہوا ہے، انہوں نے 2020 ء میں گریجوایٹ ہونا تھا مگر کووڈ-19 کی وجہ سے ان کا آخری سمسٹر بروقت مکمل نہ ہو سکا، یونیورسٹی بند ہو گئی اور پھر بعد میں یونیورسٹی نے آن لائن امتحان لیا تھا، کوڈ-19 کے انہی فارغ دنوں میں، میں نے سی ایس ایس کی تیاری شروع کر دی تھی، ایک لحاظ سے کورونا میرے لیے اچھا ثابت ہوا کیونکہ مجھے سی ایس ایس کی تیاری کا بھرپور موقع مل گیا۔ جون 2020ء میں، میں گریجوایٹ ہوئی اور فروری 2021ء میں، میں نے سی ایس ایس کے پیپرز دے دئیے تھے۔
اس سوال کہ سی ایس ایس کی تیاری خود سے کی تھی یا کسی اکیڈمی کو جوائن کیا تھا؟ کے جواب میں ماہ رُخ کا کہنا تھا کہ "انہوں نے ساری تیاری خود سے کی تھی ، بہاولپور میں اس قسم کی کوئی باقاعدہ اکیڈمی تو نہیں ہے، جو سی ایس ایس کی تیاری کرواتی ہو، اس لیے میں نے ساری تیاری انٹرنیٹ سے مدد لے کر خود ہی کی تھی، انٹرنیٹ پر آج کل سارا مواد آپ کو مل جاتا ہے، ایک ایک مضمون سے متعلق مٹیریل آسانی سے دستیاب ہے، کہیں اور جانے کی ضرورت آپ کو کم ہی پیش آتی ہے، آخر میں جب میں نے ساری تیاری کر لی تھی، امتحان سے ایک مہینہ پہلے میں نے ایک لوکل ریگولر اکیڈمی میں ایک موک (فرضی) امتحان کی طرز پر اپنے پیپر دے کر چیک کروائے تھے۔”
سی ایس ایس کے تحریری امتحان کامشکل مرحلہ، عموماً دو سو نمبرز کا (Essay) مضمون نویسی اور (Precis) پریسی کا پیپر شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ 98 فیصد امیدوار تحریری امتحان کے دوران اس مضمون میں فیل ہو جاتے ہیں، آپ نے اس کی تیاری کیسے کی تھی؟ اس حوالے سے ماہ رُخ نے بتایا کہ "یہ حصہ بھی انہوں نے خود سے ہی تیار کیا تھا، تاہم مضمون نویسی کے لیے آن لائن انگلش کے ایک پروفیسر سے مدد لے لیتی تھی، جن کو میں مضمون نویسی کی پریکٹس کرتے ہوئے مضامین لکھ کر دکھا دیتی تھی،وہ اس کو چیک کر کے غلطیاں نکال دیتے تھے،پھر وہ مجھے کوئی اور ٹاپک دے دیتے،اس طرح سے میری کافی پریکٹس ہو گئی تھی، پریسی میں، میں نے کافی محنت کی تھی کیونکہ بعد میں جب امتحان ہوا تو پریسی والا پیپر بھی کافی مشکل آیا تھا، اکثر امیدوار انہی مضامین میں فیل ہوتے ہیں، اس کا مجھے بخوبی اندازہ تھا، اس لیے اپنی طرف سے تیاری کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔”
سی ایس ایس کرنا آپ کی خواہش تھی، یا فیملی نے جذبہ دلایا کہ اس کو ضرور کریں؟ کے جواب میں ماہ رُخ چوھان کہتی ہیں کہ”انہیں بچپن سے تو یہ شوق تھا کہ بڑے ہو کر وکیل یا جج بننا ہے،سی ایس ایس کرنے کا زیادہ خیال انہیں میٹرک کے بعد آیا تھا کہ انہیں یہ ضرور کرنا ہے، انٹر کے بعد بیچلر ڈگری میں بھی اکاؤنٹس، فنانس اور بزنس مینجمنٹ اسی لیے رکھے تھے کہ سی ایس ایس میں یہ مضمون ہونے کی وجہ سے انہیں ان کا فائدہ مل جائے گا، دوسرا فوج کی ملازمت میں اپنے بابا (والد) کو دیکھا ہوا تھا، مجھے خود بھی شوق تھا، میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ مجھے یہی کرنا ہے،حالانکہ ان کی دوسری دونوں بہنیں ڈاکٹر ہیں۔”
اس سوال کہ سی ایس ایس کرنا کیا کافی مشکل کام ہوتا ہے؟ کے جواب میں ماہ رُخ نے بتایا کہ”انہیں لگتا ہے کہ سی ایس ایس کی تیاری میں کتابیں وغیرہ پڑھنے سے زیادہ یہ آپ کے اعصاب کا امتحان ہوتا ہے کہ آپ کتنا پریشر برداشت کر سکتے ہیں،کم از کم چھ سات مہینے کمرے میں بیٹھ کر آپ امتحان کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں جبکہ آپ کی دیگر کلاس فیلوز جابز یا دیگر معاملات میں مصروف ہوتی ہیں اور آپ ایک امتحان کے بعد دوسرے امتحان میں جا رہے ہوتے ہیں،یہ کافی برداشت والا کام ہے۔
ماہ رُخ کا کہنا ہے کہ سی ایس ایس کا سفر آسان نہیں ہے، اس کے لیے موٹیویشن، مثبت سوچ اور کمٹ منٹ ہونی بہت ضروری ہے، روزانہ آپ کو پڑھنا پڑتا ہے ، پھر امتحان کے دوران آپ کے پاس ایک پیپر کے بعد دوسرے پیپر کے لیے وقت بہت کم ہوتا ہے، یہ ساری ٹائم مینجمنٹ ہے، یہ ناممکن تو بالکل نہیں ہے، البتہ مشکل ضرور ہے، آپ کے اندر یہ شوق ہونا چاہیے کہ آپ نے ہر حال میں یہ کرنا ہے، تو پھر وہ یقیناً ہو جاتا ہے۔”
سی ایس ایس میں آپشنل مضامین آپ نے کون کون سے لیے تھے؟ کے جواب میں ماہ رُخ نے بتایا کہ "انہوں نے لازمی مضامین کے علاوہ اکاؤنٹنگ، بزنس ایڈمنسٹریشن، سوشیالوجی، جینڈر سٹڈیز اور انڈو پاک ہسٹری لیے تھے۔”
تحریری امتحان کے بعد انٹرویو کا تجربہ کیسا رہا؟ کے متعلق ماہ رُخ کہتی ہیں کہ "ان کا انٹرویو کافی اچھا رہا تھا،بیس پچیس منٹ دورانیہ پر مشتمل انٹرویو تھا، میرے انٹرویو میں 170 نمبر آئے تھے، انٹرویو پینل میں چار لوگ شامل تھے جو انٹرویو کے دوران کافی ہیلپ فُل تھے، اگر میں کہیں اٹک یا بھو ل جاتی تو وہ وہی سوال دوسرے اینگل سے پوچھ لیتے تھے، اگر میں کہتی کہ سوری سر! مجھے نہیں معلوم تو وہ ہسٹری کے سوالات میں مجھے اس چیز پر ابھارتے تھے یا پھر اشاروں کنائیوں میں بتاتے تھے کہ یاد کرنے کی کوشش کریں کہ اس سن میں یہ بھی ہوا تھا، وہ واقعہ بھی ہوا تھا، اس طرح مجھے یاد آ جاتا تھا، میرا زیادہ تر انٹرویو انڈو پاک ہسٹری پر ہوا تھا، جیسے سراج الدولہ اور جنگ پلاسی کے حوالے سے سوالات اور پھر کئی دیگر ضمنی سوالات پوچھے گئے تھے۔”
اس سوال کہ انٹرویو کے بعد کیا آپ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آپ سی ایس ایس کوالیفائی کر جائیں گی؟ کے جواب میں ماہ رُخ نے بتایا کہ "کافی حد تک پینل میں شامل لوگوں کے روئیے اور فیس ریڈنگ سے آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے ، مجھے بھی اپنے انٹرویو سے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ میں کوالیفائی کر جاؤں گی، میں نے ویسے اپنی دوسری ترجیح میں پاکستان کسٹم رکھا ہوا تھا، شکر ہے کہ وہی گروپ مجھے ملا ہے۔”
ماہ رُخ نے بتایا کہ "شروع میں انہوں نے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے بعد دوسری ترجیح میں فارن سروس رکھی تھی، پھر بعد میں، میں نے اپنے شوق اور دوسروں سے مشورہ کرنے کے بعد کسٹم سروس کو دوسری ترجیح پر رکھا، اس کی ایک اور وجہ کسٹم کے کام کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے میں نے اسے سیکنڈ آپشن جبکہ فارن سروس کو تیسری ترجیح قرار دیا تھا۔”
سی ایس ایس کرنے کی خواہش رکھنے والے اور اس جانب نئے آنے والے لوگوں کو آپ اپنے تجربے کی بنا پر کوئی نصیحت یا کیا ٹپس دینا چاہیں گی؟ پر ماہ رُخ کا کہنا تھا کہ "اس امتحان یا کسی بھی اور امتحان میں یہ سوچ کر مت جائیں کہ یہ مجھ سے نہیں ہو گا،یہ تو بہت مشکل ہے، ہمیشہ مثبت رہیں،کسی کام کے لیے اگر مصمم ارادہ کر لیں تو وہ ہو جاتا ہے، مگر اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے، آپ کو جان لڑانی پڑتی ہے،اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے نہیں بھی ہوتا تو اس کے علاوہ بھی بڑی وسیع دنیا ہے، ہمت نہ ہاریں،سب سے بڑی یہ بات کہ اللہ پر بھروسہ کریں، اپنی طرف سے محنت ضرور کریں، کامیابی اور ناکامی تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، حوصلہ رکھیں۔”
ماہ رُخ کہتی ہیں کہ”اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے علاوہ ان کی اس کامیابی میں ان کے والدین، بہن بھائیوں اور ان کی قریبی دوستوں کا بھی حصہ ہے، جو سب میری ہمت بندھاتے رہے، میرے لیے ان کی دعائیں اور موٹیویشن بہت کام آئی،خصوصاً اپنی فیملی کی طرف سے ان کے امتحانات کے دوران انہیں ’کمفرٹ زون‘ مہیا کیا جانا سب سے مثبت بات رہی، اللہ تعالی کی کرم نوازی، والدین اور دوستوں کی دعائیں میرے ساتھ شاملِ حال رہیں، تبھی اس کامیابی کا حصول میرے لیے ممکن ہو سکا۔”
ماہ رُخ کے والد میجر (ریٹائرڈ) محمد اختر عابد چوھان کا اپنی بیٹی کی اس کامیابی کے حوالے سے کہنا تھا کہ "وہ اور ان کی ساری فیملی ماہ رُخ کی اس کامیابی پر بے حد خوش ہے، انہیں 100 فیصد یقین تھا کہ ماہ رُخ سی ایس ایس کوالیفائی کر لے گی، ان کے ذہن میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ وہ ایسا نہیں کر سکے گی کیونکہ وہ میٹرک کے بعد سے سی ایس ایس کے امتحان کی پلاننگ اور تیاری کر رہی تھی، اس نے انٹر کے بعد گریجوایشن میں مضامین بھی ایسے رکھے جو اسے امتحان میں مدد دے سکیں، ماہ رُخ نے گریجوایشن کے بعد ایک دن بھی ضائع کیے بغیر مقابلے کا امتحان دیا اور اللہ کے فضل سے پاس کر لیا ہے، انہوں نے ہمیشہ اپنے سارے بچوں کو تعلیم کے معاملے میں پوری آزادی دی ہے کہ جو کچھ وہ پڑھنا چاہیں پڑھیں، انہیں اور ان کی فیملی کو اپنی بیٹی کی اس شاندار کامیابی پر فخر ہے۔”
واضح رہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سی ایس ایس 2021ء کے امتحان میں کل 17240 امیدواروں نے حصہ لیا، جن کے نتائج کا اعلان فروری 2022ء میں کیا گیا، تحریری امتحان میں صرف 365 امیدوار کامیاب قرار پائے جبکہ 349 امیدواروں نے انٹرویو کوالیفائی کیا،جن میں سے 218 مرد اور 131 خواتین امیدوار تھیں، آخر میں کمیشن نے صرف 207 پاس امیدواروں کی تقرری کی سفارش کی جن میں سے 134 مرد اور 73 خواتین شامل ہیں،جبکہ مجموعی طور پر کامیاب امیدواروں کا تناسب 2.2 فیصد رہا۔