ابلاغی محاذ پر اظہارِ آزادیِ رائے کا گلا جس طرح اظہارِ آزادیِ رائے کا نعرہ بلند کرنے والوں نے گھونٹا ہے اس کی مثال شاید دورِ بادشاہت میں بھی نہ ملے
جنگ میں سب سے پہلا حملہ سچ پر کیا جاتا ہے۔ گوکہ جنگ میدانوں میں لڑی جاتی ہے لیکن میڈیا کے محاذ پر اس کی تیاری بہت پہلے کی جاچکی ہوتی ہے۔ جنگ محض کسی ملک پر عسکری قوت سے حملہ کرکے فتح حاصل کرلینے کا نام نہیں، بلکہ دور جدید میں پورا میڈیا بھی اس جنگ میں شانہ بشانہ کھڑا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحافی بھی اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ان جنگوں میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ دورِ قدیم سے شروع کیا جانے والا پروپیگنڈا دورِ جدید میں ایک نیا رخ اختیار کرچکا ہے۔ اس پروپیگنڈا کے بہت سے مقاصد ہوتے ہیں مثلاً دورانِ جنگ قوم کو امید دلانا، ان کو دشمن پر نفسیاتی برتری میں مبتلا رکھنا، اپنا نقطہ نظر ایک خاص انداز میں عوام تک پہنچانا تاکہ ان کی ہمدردیاں حکومتوں کے ساتھ رہیں، دشمن کو دشمن بنانا، یا ایک سنگین خطرے کے طور پر متعارف کروانا، جنگ میں مدمقابل کے پروپیگنڈہ کا توڑ کرنا اور دوسری طرف کے بیانیہ، اطلاعات اور مشاہدات تک عوام کو رسائی نہ دینا۔ جب یہ تمام عناصر یکجا ہوجائیں تو جنگ کا اصل میدان سجتا ہے۔ یہی کام پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ نے ان ہی امور کی انجام دہی کے لیے ”وار انفارمیشن بیورو“ (1942-1945) قائم کیا۔ پہلی جنگ خلیج 1990ء میں پہلی بار embedded Journalism کی اصطلاح متعارف ہوئی اور دوسری جنگِ خلیج 2003ء میں یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ یہ ایک ایسی صحافت تھی جس کی صحافتی اقدار میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اس قسم میں رپورٹنگ کرنے والے صحافی افواج کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہیں اور اس کو رپورٹ کرتے ہیں، گوکہ کہا یہ گیا کہ یہ سب کچھ ان صحافیوں کے لیے کیا جارہا ہے کہ صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ لیکن کیا پیش قدمی کرتی ہوئی افواج پر حملے کے بعد صحافی محفوظ رہ سکتے ہیں؟ دوسرا جو سنگین الزام اس قسم کی صحافت پر ہے وہ یہ کہ صحافی توازن و معروضیت سے عاری ہوکر صرف ایک طرف کا نقطہ نظر سامنے لاتا ہے اور دوسری جانب کا نقطہ نظر اور وہاں کیا کچھ ہورہا ہے وہ اس کی نظر سے اوجھل ہے۔
عام فہم الفاظ میں صحافی بھی اس جنگ میں ایک فریق بن جاتا ہے جس کی بنیاد پر اطلاعات و رپورٹنگ میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ جنگِ خلیج دوم یا عراق پر امریکی حملے 2003)ء) میں تقریباً 600 صحافی Embadded journalist کی حیثیت سے امریکی و اتحادی افواج کے ساتھ بغداد میں داخل ہوئے تھے۔ یعنی اتنی بڑی تعداد میں یک طرفہ رپورٹنگ کہ جس کا سچ ایک عرصے بعد سامنے آیا جب باضابطہ طور پر یہ اعلان کرنا پڑا کہ عراق کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں تھے اور یہ حملہ محض غلط خبروں کا نتیجہ تھا۔ ان خبروں کو مبینہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں نے میڈیا تک پہنچایا، اور پھر میڈیا نے وہ طوفان کھڑا کیا کہ عراق دنیا کا سب سے بڑا خطرہ بن گیا۔ معروضی اور متوازن صحافت نہ ہونے سے تقریباً ایک ملین (دس لاکھ) عراقی مارے گئے، عراق کو تباہ کردیا گیا اور بھوک و افلاس میں مبتلا کرکے اس کو چھوڑ دیا گیا۔
اس بنیادی تمہید کا مقصد ماضی میں ہونے والے ایسے واقعات کی یاد تازہ کرکے خطرے سے آگاہ کرنا ہے۔ حالات و واقعات میں کچھ تبدیلی کے ساتھ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ میں بھی کچھ ایسا ہی منظرنامہ سامنے آرہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا جنگ کو اپنے خاص مفادات کی نگاہ سے دکھا رہا ہے کہ جہاں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، روس کو ایک عالمگیر خطرے کے طور پر پیش کرنا، مغرب کو انسان دوست اور بنیادی انسانی حقوق کے سب سے بڑے علَم بردار کے طور پر پیش کرنا اور دنیا کو یہ بتانا کہ روس جوہری جنگ چھیڑ رہا ہے۔ دورِ جدید میں روایتی میڈیا کی جگہ اب نئے میڈیا جس کو ڈیجیٹل میڈیا کہا جاتا ہے، نے لے لی ہے۔ بنیادی طور پر دس میں سے آٹھ افراد جو بھی خبریں اور معلومات حاصل کرتے ہیں وہ اسی میڈیا کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔ روایتی میڈیا بھی اپنے آپ کو اس ڈیجیٹل قالب میں مکمل طور پر ڈھال چکا ہے، لہٰذا پروپیگنڈا اور اطلاعات کے بہاؤ کو ایک سمت میں رکھنا یعنی متبادل ذرائع تک رسائی نہ دینا، اقتصادی پابندیوں کے مقابلے میں ڈیجیٹل اقتصادی جنگ اور خبر کے مقابلے میں خبر یا پروپیگنڈا اس وقت اس جنگ میں عروج پر ہے۔ کیونکہ پورے میڈیا پر مغربی رنگ نمایاں ہے لہٰذا اس بارے میں بھی ایک خاص نقطہ نظر سے بین الاقوامی موقف سامنے لایا جارہا ہے۔ عوام کی اکثریت اس بات سے قطعی لاعلم ہے کہ دونوں اطراف سے کیا ہورہا ہے اور آگے کیا ہونے جارہا ہے، کیا جنگ سے صرف روس کا اقتصادی و معاشی بیڑا غرق کیا جارہا ہے؟ یا پھر مغرب کے خلاف بھی روس اسی قسم کی کارروائیاں کررہا ہے۔ ابلاغی محاذ پر اظہارِ آزادیِ رائے کا گلا جس طرح اظہارِ آزادیِ رائے کا نعرہ بلند کرنے والوں نے گھونٹا ہے اس کی مثال شاید دورِ بادشاہت میں بھی نہ ملے۔ گوکہ میڈیا آزاد ہے لیکن کیا واقعی میڈیا اس جنگ کی متوازن کوریج کررہا ہے ؟ کیا جنگ کی جو وجوہات دنیا بھر کے عوام کو میڈیا بتارہا ہے وہی سچ ہے؟ کیا دوسرے فریق کو بھی ایسا موقع دیا جارہا ہے کہ وہ اپنا موقف سامنے رکھ سکے؟
ان سوالات کے ساتھ اب موجودہ صورت حال کی جانب آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روس پر پابندیوں کے بعد سے روس کا معاشی بائیکاٹ تو کیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی گوگل اور آئی اسٹور نے روس کا ابلاغی ناطقہ بند کرنا شروع کردیا۔ گوگل پلے اسٹور اور آئی اسٹور نے روس کے ابلاغی اداروں رشیا ٹوڈے (RT) اور اسپیوٹنک (Sputnik) کی ایپ کو بند کردیا۔ گوگل نے الزام عائد کیا کہ یہ دونوں سرکاری امداد پر چلنے والے نشریاتی ادارے تھے لہٰذا ان کو بند کردیا گیا، جس کا دائرئہ کار یورپ تک ہوگا۔ حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق آر ٹی نیوز کی ایپ کے 75 لاکھ ڈاؤن لوڈ موجود تھے جبکہ موازنے کے طور پر ایپل فٹ پرنٹ کے صرف 25 لاکھ ڈاؤن لوڈ تھے۔ اسپیوٹنک نیوز کے تقریباً 30 لاکھ ڈاؤن لوڈز تھے۔ ان دونوں ابلاغی ایپ کو بند کرنے کی بنیادی وجہ ان کا بڑھتا ہوا ڈاؤن لوڈ تھا، یعنی لوگ متبادل ذرائع سے بھی دوسرے کی بات سننا چاہتے تھے۔ صرف جنگ کے آغاز کے بعد سات دنوں میں دونوں ایپ کے ڈاؤن لوڈز میں بالترتیب 364 اور 257 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یوٹیوب نے بھی آر ٹی اور اسپیوٹنک کے چینلز کو بند کردیا تھا۔ مائیکروسافٹ نے بھی آر ٹی کو ونڈرز ایپ اسٹور پر ڈی رینک کردیا اور اس کے سرچ انجن Bring پر بھی آر ٹی کی خبر کو سرچ نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی اب جو بھی نقطہ نظر، خبریں، تجزیے و تبصرے سامنے آئیں گے وہ سب کے سب ایک فریق کی جانب سے پیدا شدہ پروپیگنڈے کے زیراثر ہوں گے، اور دوسری جانب سے اطلاعات، تجزیوں و تبصروں تک رسائی نہ ہونے کے باعث عام آدمی آزادانہ رائے نہیں بنا پائے گا۔ یہ وہ اقدام ہے جس کو دنیا کو ایک آنکھ سے دکھا کر بتایا جارہا ہے کہ بس یہی حق و سچ ہے، اور دوسری آنکھ کھولنے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ہے۔ اس تمام صورت حال کے جواب میں روس بھی ڈیجیٹل میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لارہا ہے اور اپنے ابلاغی چینلز کو مغرب کی جانب سے بلاک کرنے کے جواب میں مبینہ طور پر روس بھی اس ابلاغی محاذ پر مغرب کے ابلاغی چینلز کو بلاک کررہا ہے۔ Pressreader ایک ایسی ایپ ہے جس کے پچاس لاکھ سے زائد ڈاؤن لوڈز موجود ہیں۔ برطانیہ میں کورونا کی وباء کے بعد سے متعدد لائیبریریوں میں اخبارات و رسائل کی ترسیل کو روک دیا گیا ہے اور تقریباً تمام لائبریریاں اپنے ممبرز کو اخبارات پڑھنے کے لیے اس ایپ تک رسائی دیتی ہیں۔ یعنی برطانیہ میں یہ ایپ اخبارات تک رسائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ گزشتہ دو دنوں یعنی 5 اور 6 مارچ 2022ء سے یہ ایپ کسی ممکنہ سائیبر حملے کی زد میں آنے کی وجہ سے بند ہے اور نئے اخبارات و رسائل تک رسائی اب اس ایپ کے ذریعے ممکن نہیں۔ ماہرین کے خیال میں یہ روس کی جانب سے اس کے ابلاغی اداروں کو مغرب میں بند کرنے کے خلاف ایک ردعمل ہے۔
روس پر پابندیوں کے بعد سے اب ویزا اور ماسٹر کارڈز کے ذریعے روس کے شہری کوئی بھی بین الاقوامی ادائیگی نہیں کرسکیں گے، جس کا مطلب روس کو معاشی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانا ہے، جبکہ مغرب میں روسی بینکوں کے اثاثے منجمد کردئیے گئے ہیں جس سے روس کی معیشت کو تقریباً 640 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاؤہ ڈیجیٹل پے منٹ پلیٹ فارم Swift نے بھی روس کو اپنی لسٹ سے نکال دیا ہے۔ اس سے مقابلے کے لیے روس نے چائنا کے ڈیجیٹل پے منٹ پلیٹ فارم یونین پے سسٹم کو متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے، اور جلد ہی تمام بینک یونین پے پر منتقل ہوجائیں گے۔ روس پر پابندیوں کے بعد سے متعدد ممالک اپنا فلائٹ آپریشن روس کے لیے معطل کرچکے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر 24 اور 25 فروری کو اچانک برٹش ایئرویز کی پروازیں سسٹم میں خرابی کے باعث شدید تعطل کا شکار ہوئیں اور متعدد پروازیں منسوخ بھی ہوئیں۔ برٹش ایئرویز نے اعلان کیا کہ کسی تکنیکی مسئلے کی وجہ سے سسٹم میں خرابی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے ویب سائٹ، ایپ اور ایئرپورٹ آپریشن سسٹم میں تعطل پیدا ہوا۔ تاہم برٹش ائیرویز نے کسی بھی سائیبر حملے کے امکان کو مسترد کیا۔ برٹش نیشنل سائیبر سیکورٹی سینٹر نے کمپنیوں اور اداروں کو متنبہ کیا تھا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد کسی بھی سائیبر حملے کا امکان موجود ہے، لہٰذا اس کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ روس کی جانب سے شدید نوعیت کا سائیبر حملہ تھا جس نے برطانیہ کی سرکاری ائیرلائن کو معطل کرکے نہ صرف پیغام دیا ہے بلکہ اپنی معاشی پابندیوں کا بدلہ لینے کے لیے برطانوی ائیرلائن کو بھاری نقصان سے بھی دوچار کیا ہے۔ امکان ہے کہ ان حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور شاید بینک، مالیاتی ادارے اور اسٹاک ایکسچینج بھی اس کی زد میں آئیں۔ گوکہ روس کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی دنیا کی نظر سے ابھی تک پوشیدہ ہے یا پوری طرح آشکار نہیں ہوسکی، لیکن وکی لیکس اور اس قسم کی چند اہم معلومات تک رسائی اور ان کو چرانے کے بعد بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنانے اور دنیا میں عدم استحکام پیدا کرکے روس نے اس ٹیکنالوجی پر بھی اپنی برتری ثابت کی ہے۔
دوسری جانب پاناما اور پینڈورا لیکس کو امریکہ کی جانب منسوب کیا جاتا ہے کہ جس نے مبینہ طور پر ان معلومات تک رسائی کے بعد پوری دنیا میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔ یاد رہے کہ پاناما لیکس آنے کے بعد پاکستانی سیاست دان اس کی زد میں آئے تھے اور وزیراعظم نوازشریف کا پاناما لیکس میں نام آنے کے بعد ان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ اب پینڈورا لیکس میں پاکستانی جرنیلوں کے غیر ملکی اکاؤنٹس کے باعث فوج پر عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔ حکومتیں بنانے اور ان کو گرانے، عوام میں اعتماد پیدا کرنے اور بداعتمادی سے دوچار کرنے کا جو کام پہلے میڈیا سے پروپیگنڈے کے ذریعے سرانجام دیا جاتا تھا اب یہ کام ڈیجیٹل میڈیا روایتی میڈیا سے کہیں زیادہ تیز اور موثر انداز میں انجام دے رہا ہے۔ شاید عام آدمی کی رائے میں ڈیجیٹل میڈیا جھوٹ کو سامنے لارہا ہے، لیکن حقیقت میں ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے من پسند معلومات و حقائق کو ایک خاص وقت میں خاص طریقے سے خاص مقاصد کے لیے آشکار کیا جاتا ہے اور پھر اس کے نتائج اپنے حق میں سمیٹے جاتے ہیں۔ اگر اس قسم کی معلومات کی عام فرد تک رسائی ہر ایک کا حق سمجھا جاتا ہے تو پھر جولین آسانج پر کیوں وکی لیکس کے بعد عرصہ حیات تنگ کردیا گیا؟ اور اس کی اس کاوش کو کیوں اظہارِ آزادیِ رائے کے بجائے بغاوت اور اہم قومی رازوں کی چوری کا نام دیا گیا؟
عالمی بساط پر سرد جنگ کے بعد سے جو خاموشی تھی وہ اب شور میں تبدیل ہورہی ہے۔ اس خاموشی کو شور میں تبدیل کرنے کا بنیادی ماخذ یہی ڈیجیٹل میڈیا ہے جس نے دنیا بھر میں ایک تبدیلی پیدا کردی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ہم ایک عہد آزادیِ رائے میں داخل ہورہے ہیں جہاں ہر فرد کو مکمل آزادیِ اظہار حاصل ہے۔ لیکن میری رائے میں یہ ایک عہدِ بدترین غلامی ہے کہ جہاں انفرادی طور پر چند جملے لکھنے پر سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل کردیئے جاتے ہیں وہیں پر بحیثیتِ مجموعی یک طرفہ بیانیے کے سوا کسی اور متبادل یا متوازن بیانیہ کے لیے بھی کوئی جگہ موجود نہیں۔ یہ یک قطبی دنیا کا وہ مکروہ چہرہ ہے جوکہ شہنشاہیت سے زیادہ گھناؤنا ہے، کیونکہ اس دورِ جبر میں بادشاہ کو جبر و استبداد کی علامت کسی نہ کسی طور پر سمجھا جاتا تھا، لیکن آج تمام تر مادی، مالیاتی، ابلاغی ذرائع مسدود کرنے کے باوجود یک قطبی دنیا کو آزادی کا دیوتا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اس تمام تر صورت حال میں دنیا کا مستقبل اب اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے، اور ابلاغی، مالیاتی، معاشی جنگ اب اس محاذ پر لڑی جارہی ہے اور آئندہ بھی لڑی جائے گی۔ لہٰذا اس پر ایک وسیع اور موضوعاتی بنیادوں پر مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ پہلے اس کے چیلنج کو سمجھا جائے اور اس کے بعد اس یک قطبی بہاؤ کے مخالف کوئی ارتعاش، جدوجہد کرنے کے لیے طویل المدتی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جائے۔ یہ آج کی تحریک اسلامی کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے لیے آج ہی ہنگامی بنیادوں پر اقدام کی ضرورت ہے۔