اضطرابِ جھاں اور ہم

0

کسی ملک کا مشکل دور سے گزرنا تو ہم سنتے ہی چلے آرہے ہیں مگر پوری دنیا کو اضطراب کا شکار ہونا پڑے گا یہ ہم نے سوچا ہی نہیں۔گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا دہشتگردی اور جنگوں کے بھنور میں پھنسی رہی، پھر وقت کی ستم ظریفی نے دنیا کو اس بھنور سے نکال کر وباء کی قید میں بند کردیا۔کسی بھی ملک کے مشکل دور کا اگر پر نظر دوڑائیں تو صورتحال کچھ یوں بنتی ہے کہ یا تو مذہب و عقیدوں کا انتشار ملک میں افراتفری کی وجہ بنا یا پھر سیاسی گہماگہمی نے تشدد کا عالم برپا کیا،گویا جو حالات و واقعات کسی ملک کےمشکل دور کی وجہ بنے پھرتے تھے آج دنیا بھی کچھ اسی نہج پر ہے، کل تک کوئی ملک پریشانی میں مبتلا ہونے لگتا تو ایک ہی آواز سنائی دینے لگتی تھی کہ بیرونی سازشوں نےملک کے استحکام کو ضرب لگائی ہے، مگر اب جب دنیا بالکل اسی سمت کی طرف گامزن ہے تو دنیا میں انارکی کی وجہ کون سے سیارے کی بیرونی سازش ہوسکتی ہے؟ دنیا کے مسائل کا اگر مجموعی جائزہ لیا جائے تو معلوم یوں ہوتا ہے کہ کوئی ایسا ملک یا کوئی ایسا انسان نہیں جو سیاسی، معاشی یا مذہبی افراتفری سے متاثر نہیں،سیاسی دنگل اور معاشی دلدل سے مشرقی دنیا تو مذہبی کارڈ مغربی دنیا میں سیاست اور معیشت کو اثر انداز کر رہا ہے،وہ اس طرح کہ ترقی پذیر ممالک میں غربت کے نام پرووٹ کا ویپار عام ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں قرآن سوزی کے واقعات سے سیاسی مقاصد پورے کئے جارہے ہیں، غرض یہ کہ دنیا میں مکمل اور حقیقی جمہوریت سے آمریت کی روداد سنائی دی جارہی ہے باالفاظِ دیگر عوام الناس جہموری غلامی میں مبتلا ہیں جبکہ سیاسی طاقتیں عوام سمیت عسکری طاقتوں کے ساتھ کھلواڑ میں مصروف ہیں۔

اضطرابِ دنیا ایک طرف اور ہم ایک طرف، دنیا میں اس وقت ایسے معاملات زیرِغور ہیں جس سے عام آدمی کو معاشی مسائل سے بچایا جاسکے جبکہ ہمارے عزیز ہم وطن دنیا بھر میں شور برپا کئے ہوئے ہیں کہ’ کیوں دی ہمیں آزادی کہ جب رہنا ہی تھا غلام‘، جناب ہم بطور قوم گھر کی بات گھر میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ جگ ہنسائی سے بچا جاسکے مگر جب ملک کی بات آئی ہےتو ہمارے تیور بدلےبدلے سے دکھائی دیتے ہیں، ہم دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہمارے حکمران چور اور کرپٹ ہیں جبکہ کرپشن فقط زر زمین سے ہی نہیں ہوتی بلکہ وطن کے وقار کو پامال کرنا اور گمراہی کی جانب خود کو اور دوسروں کو دھکیلنا بھی کرپشن کی بدترین مثال ہے۔دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب جب کسی قوم نے اپنی عسکری قوت کی مخالفت کی ان کا نام صفحۃ ہستی سے مٹ گیا یا پھر رسوائی ان کا مقدر بنی، اگر گزشتہ چند دہائیوں کی بات کی جائے تو مسلم ممالک میں اس کی مثال عام ملتی ہے کے عراق میں صدام کی مخالفت اور شام میں عسکری قوت سے رنجش نے تباہی پھیر دی۔ہم بڑے فخر سے سوشل میڈیا پر سری لنکا کے حالات سے پاکستان کی مشابہت کرنے لگے ہیں جبکہ ایک منظم طریقے سے عسکری قوت کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ دوسری جانب اگر دنیا کی عسکری پیش رفت کا جائزہ لیں تو ترقی یافتہ ممالک اپنی فوج کو سہارا دینے کے لئے نیٹو میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔

مملکتِ خدادادچونکہ ایٹمی طاقت ہے اس لئے آج تک ہمارا وجود دنیا میں قائم و دائم ہےاگر پاکستان دشمن طاقتوں کے لئے ہم آسان ہدف ہوتےتو شاید ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانا کوئی مشکل کام نہ ہوتا، آج نقطہ ور یہ کہتے ہیں کہ ملک کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری ان ہی لوگوں کی ہے جنہوں نے ملک کو تحفظ فراہم کر رکھا ہے، جناب عالی دنیا بھر میں ایک مثال عام ہے کہ کارخانوں اور فیکٹریوں میں سب سے عزت جس ملازم کی ہوتی ہے اسے چوکیدار کہتے ہیں، کیونکہ چوکیدار وہ شخص ہے جو آپ کو سکون کی نیند حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے اور آپ کے اثاثوں کی حفاظت کرتا ہے۔ہوش کے ناخن لیتے ہی ہم کو یہ بتایا گیا کہ ملکی تحفظ سب سے اہم اور جس ادارے کی یہ ذمہ داری ہے وہی ہمیں سنبھالے ہوئے ہے۔مگر یکایک تبدیلی کے بادل کچھ یوں چھائے کہ ہم ایک نئی روش پر چلنے لگے،تمام تر توپوں کے رخ ہم نے ہماری حفاظت پر مامور ادارے کی جانب موڑ دئیے جبکہ دنیا کی بدلتی صورتحال میں شاید ہمیں سب سے زیاد ضرورت انہی سپہ سالاروں کی ہو۔

عین ممکن ہے کہ چند دنوں میں آنے والے یومِ تکبیر کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جائے گا ، یقیناً ہم کافی باشعور ہوچکے اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ سیاست کے اکھاڑے میں موجود تمام کھلاڑیوں کی سچائی بھی کھل کر سامنے آچکی مگر کیا ہم نے یہ سوچا کہ سارے نظام کو لپیٹ کر ہم کرنے کیا جارہے ہیں نئے پاکستان کے نعرے سے حقیقی آزادی مارچ تک کے سفر کا حاصل یا لاحاصل جاننے کے لئے ہمیں موجودہ حکومت کا امتحان لینا ضروری ہے، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں سے ملک نہیں چل سکتا تو ہمیں یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ کر نئے انتخابات کا انتظار کرنا چاہئے تاکہ عوام پر یہ بات عیاں ہوسکے کہ گزشتہ حکومت نے ملک کو بہتر چلایا اور موجودہ حکومت کی نااہلی نے ملک کو خسارے میں ڈالا بجائے اسکے کہ ہم سڑکوں پر نکل کر ملکی معیشت اور استحکام کو فقط اس نعرے کے تحت بچانے نکلیں کہ یہ کاوش حقیقی آزادی کی ہے تو یقین جانیں ہمیشہ بیرونی قوتوں نے آزادی کی آواز بلند کرنے والی عوام کی مدد کرکے ان کے ممالک کو قبرستانوں میں بدل دیا۔

سیاستدانوں سے لے کر ماہرِ معاشیات، ناقدین سے لے کر تجزیہ کارہر جانب سے ہمیشہ یہ ہی آواز سنائی دیتی ہے کہ پاکستان کی معیشت برے حالات کی جانب بڑھ رہی ہے کبھی گرے لسٹ کا ڈر تو کبھی مہنگائی کا طوفان، جب ملک ان حالات سے گزر رہا ہے تو بیرونی سازش کے تحت لائی گئی حکومت نے کیا حاصل کرنا ہے؟ ہمیں وقت کو غنیمت جان کر موجودہ حکومت کی نااہلی کا خلاصہ کرنے کے لئے انتخابات کی تیاری کی جانب دیکھنا ہوگا تاکہ کسی کو سیاسی شہید ہونے کاموقع نہ ملے اور عوام درست فیصلہ کرسکے۔اضطرابِ جھاں نفسانفسی کی منظر کشی کررہا ہے جہاں ہر ریاست سنبھلنے اور بہتری کے لئے کوشاں ہے جبکہ ہم سیاسی مدبھیڑ میں اپنے مسائل بھول بیٹھے ہیں۔ کیا ہم ہمسائیوں کے شر سے محفوظ ہیں؟ کیا ہم نے یاسین ملک کے لئے آواز اٹھائی؟ کیا بطور اسلامی مملکت ہم نے قرآن سوزی کے خلاف آواز اٹھائی؟ یقیناً ہم یہاں کوئی جواب دینے کے قابل نہیں، اگر ان سب سوالات کا جواب منفی ہے تو ہمیں اپنی ترجیحات کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے ناکہ معیشت اور ملکی استحکام کو مزید مشکلات کی طرف دھکیلنے کی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!