کراچی میں زیرتعمیر شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال دسمبر 2023 میں مریضوں کیلئے کھول دیا جائیگا،نائلہ خان
کینسر جیسی بیماری کے علاج کیلئے مخیر حضرات کو اس مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے،فخر عالم
جرمنی میں جلد شوکت خانم کینسر اسپتال فنڈریزنگ کے لیے اعلیٰ سطح پر کمیٹی تشکیل دینگے،طارق جاوید
برلن(رپورٹ:مہوش ظفر)شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر لاہور اور پشاور میں پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی عوام کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اوراب کراچی میں بھی سابق دونوں ہسپتالوں سے بڑا ہسپتال سمندر پار پاکستانیوں کے تعاون سے بننے کو تیار ہے جس کو اگلے سال دسمبر میں کینسر کے علاج کے لئے کھول دیا جائے گا۔ مگر اس کے لئے ابھی ایک بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے جو کہ سمندر پار پاکستانیوں کے تعاون کے بناء ناممکن ہے۔ان خیالات کا اظہار شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر نائلہ خان نے برلن میں آگاہی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب کا اہتمام معروف بزنس مین طارق جاوید نے کیا تھا۔کمپیئرنگ کے فرائض مایہ حیدر نے ادا کئے۔تلاوت قرآن پاک کی سعادت حافظ ذیشان نے حاصل کی ۔شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر نائلہ خان نے مزید بتایا کہ شوکت خانم ہسپتال لاہور نے 29دسمبر 1994کو اپنے دروازے مریضوں کے لیے کھولے تھے اور اس وقت سے آج تک خدمت کا یہ سفر کبھی نہیں رکا بلکہ وقت کے ساتھ اور لوگ بھی اس مشن کا حصہ بنتے گئے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا اور مارچ 2011 میں پشاور میں دوسرے شوکت خانم ہسپتال کی بنیاد رکھ دی گئی جو 29دسمبر 2015 کو پایہ تکمیل کو پہنچا جہاں 75 فیصد مریضوں کو علاج بالکل مفت فراہم کیا جاتا ہے۔
جس کا مریض کے علاوہ کسی کو علم نہیں ہوتا کیونکہ ہر کمرے میں دو مریضوں کو ٹھہرایا جاتا ہے جس میں سے ایک خود اپنے علاج کے پیسے دے رہا ہوتا ہے جب کہ دوسرا غریب نادار مریض ہوتا ہے۔اس وقت پاکستان کے تیسرے اور سب سے بڑے شوکت خانم ہسپتال کراچی کی تعمیر تیزی سے جاری ہے جس کی تکمیل دسمبر2023 تک ہو جانے کی توقع ہے ۔انہوں نے کہا کہ شوکت خانم ہسپتال پشاور اپنے معیار میں کسی بھی طرح لاہور کے شوکت خانم ہسپتال سے کم نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ لاہور کی طرح اس ہسپتال کو بھی جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل سے ایکریڈیٹیشن حاصل ہو چکی ہے اور کراچی کا ہسپتال دونوں ہسپتالوں سے بڑا ہوگا۔
نائلہ خان نے مزید کہا کہ کینسر مہنگا علاج ہونے کے باعث ایک خطرناک بیماری ہے جبکہ غریب مریضوں کے علاج کے لیے پاکستانیوں نے شوکت خانم کے لیے اب تک 63 ارب روپے دیے جوکہ خرچ ہوچکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کینسر کی بیماری دیگر بیماریوں سے اس لیے خطرناک ہے کیونکہ کسی کو کینسر کا پتہ چلتا ہے تو موت کا خوف ہوتا ہے اور دوسرا اس کا علاج سب سے مہنگا ہے۔
اس موقع پر معروف سنگر و سماجی شخصیت فخرعالم نے کہا کہ جن کے پاس علاج کے لیے وسائل نہیں ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، بدقسمتی سے کینسر ایسی بیماری ہے جس کا فوری کوئی علاج نہیں ہے اور مخیر حضرات کو اس مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے۔تقریب کے دوران شوکت خانم ہسپتال سے متعلق ایک دستاویزی فلم بھی دکھا ئی گئی اور وہاں زیر علاج کینسر کے مریضوں کے خیالات بھی شیئر کئے گئے کہ کس طرح بروقت شوکت خانم ہسپتال میں آکر وہ دوبارہ سے اپنی زندگی جی پائے۔ فخر عالم نے کہا کہ ہمارے پاس ہسپتالوں کی کمی ہے، ہر روز کینسر کے مریض آتے ہیں لیکن جگہ کم ہوتی ہے اور قابل علاج ہونے کے باوجود واپس بھیج دیئے جاتے ہیں، اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کراچی کا ہسپتال بنایا جارہا ہے اوراگلے سال تک وہ فعال ہوجائے گا۔
تقریب سے معروف بزنس مین و میزبان طارق جاوید نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شوکت خانم اسپتال کے ساتھ ہونے والے اپنے ذاتی تجربات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ چند وجوہات کی بناء پر اپنے کینسر زدہ قریبی رشتے دار کو شوکت خانم سے یہاں جرمنی لے کر آئے تو یہاںکے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یقیناً شوکت خانم ہسپتال یورپ کے اسپتالوں کی طرح سہولیات فراہم کررہا ہے۔ طارق جاوید نے کہاکہ جرمنی میں جلد شوکت خانم کینسر اسپتال فنڈریزنگ کے لیے اعلیٰ سطح پر کمیٹی تشکیل دینگے ۔تقریب کے اختتام پر پاکستان بزنس مین زبیر صدیق کی جانب سے پاکستانی کھانوں سے سامعین و شرکاء کی تواضع کرائی۔