کہاوت ہے کہ دیہاتوں میں خواتین اپنے شوہروں کا نام نہیں لیتیں کہ یہ بد تہذیبی میں شمار ہوتا ہے یہا ں تک کہ جب وہ نماز پڑھتی ہیں تو سلام پھیرتے ہوئے ہوئے رحمت اللہ کی بیگم ”اسلام علیکم و رحمتہ اللہ“کہنے کے بجائے بیچاری ’اسلام علیکم منے کے اباء “ کہتی ہے۔ کچھ یہ حال اسوقت ہماری حکومت کا ہوا ہے بھاگ دوڑ میں حکومت سنبھالنے کے بعد ان نہائت تجربہ کار اور کئی مرتبہ پارلیمانی جمہوریت کا حصہ بننے والے یہ نہیں کہہ پارہے کہ ہم ”دیوالیہ“ہوچکے ہیں۔ بس چونکہ اقتدار میں ہیں گزشتہ حکومت کی مہربانیوں کی وجہ سے جہاں گزشتہ حکومتوں نے 71 برسوں میں تقریباََ 25ہزار ارب روپیہ قرضہ لیا جبکہ عمران خان نے صرف پونے چار سال میں 20 ہزار ارب کا اس میں اضافہ کیا۔ سابقہ حکومتوں نے اس قرضے سے ایٹمی پروگرام، میزائل پروگرام، موٹروے اور بجلی کے کارخانے لگائے لیکن تاریخ میں سب سے زیادہ قرضہ لینے والے کے کریڈٹ پر کوئی ایک بھی قابلِ ذکر منصوبہ نہیں ہے۔ اس نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا جو وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بیرونِ ملک سے لوگ نوکریاں کرنے کے لیے پاکستان آئیں گے۔ وہ اس طرح نبھایا کہ لاکھوں لوگوں کو مزید بیروزگار کردیا اور جن کے پاس سر چھپانے کے لیے کرائے کی چھتیں تھیں، اس سے بھی ان کو محروم کردیا۔
ان پر تاریخی مہنگائی مسلط کردی البتہ بیرونِ ملک سے شہزاد اکبر، شہباز گِل، زلفی بخاری اور ان جیسے کئی ”امپورٹڈ“ نا بالغ بے روزگاروں کو اس قوم کے خزانے پر مسلط کردیا۔اب سرکا ر یہ نہیں کہہ پا رہی کہ ”ملک دراصل دیوالیہ ہے جسے اللہ کی مہربانی سے پھر کچھ ممالک طاقت کا انجکشن دینگے تو بات آگے بڑھے گی، حکومت میں آنے کے بعد انہیں علم ہوا کہ کام تو بہت ہی خراب ہے، بین الاقوامی معاہدے ایسے ہیں جس پر عمل نہیں کیا گیا اور حکومت چلانے یا متوقع انتخابات میں کامیابی کیلئے معاہدوں کے مطابق آئی ایم ایف سے کئے گئے اپنے معاہدے کونظر انداز کرتے ہوئے ”سبسڈی“دیتے ہوئے نا مساعد معیشت میں بلاول کے لانگ مارچ کے دباؤمیں پیٹرول اور بجلی کی قیمت کم کردی۔چار سال تک معاشی انتظام بہتر نہ ہوسکا یک بعد دیگرے تجربات کیلئے چا ر سے زائد وزراء خارجہ متعین کئے گئے جو اپنی اپنی باری باری پر ملکی خزانے کے بوجھ میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے اپنے راستوں پر ہوئے، عوام بے چاروں کو صرف ووٹ کے وقت یہ یا د کیا جاتا ہے اسکے بعد ان سے ہر معاملہ خفیہ رکھا جاتا ہے چونکہ ہیرا پھیری جو کرنی ہوتی ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدے کی شقوں کو چھپایا گیا، جس پر رضامندی ظاہر کرکے آئے تھے اسکے متعلق کہا گیا ہم نے شرائط ماننے سے منع کردیا ہے۔ حکومت سے علیحدگی کے بعد عمران خان نے حکومت کی برطرفی کو امریکی سازش قرار دیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر انکا دعوی ہے کہ انکی حکومت ترقی کی طرف گامزن تھی، ملک کو اعلی مقام دلا رہی تھی تو اتنی بڑی ساز ش پر انہیں تمام دھرنوں کا محور اور مقام صرف اور صرف اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ ہونا چاہئے مگر وہ حسب عادت اپنے بیانیوں پر بھی u-turn لیتے رہے، کبھی اداروں پر تنقید انکے نیوٹرل ہونے کا شکوہ، کبھی عدلیہ کو دھمکی جس سے انکے چاہنے والوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ انکی بات کو سنجیدہ نہ لیاجائے، اسکا مظاہرہ 25مئی کو ا نکے دھرنے کا اعلان اور اسلام آباد میں قیام و طعام کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہمراہ لائے ہوئے صوبہ سرحد کے مہمانوں کو اسلام آباد میں چھوڑ کر واپس جانا پڑا۔
سیاسی حلقے 25 مئی کے دھرنے کو ہندوستان دوستی سے تعبیر کررہے ہیں اور یہ بات پاکستان کے سابقہ حالات ، عمران خان کی مودی کے متعلق یہ خواہش کہ ”میری دعا ہے کہ مودی اقتدار میں آجائے، تو مسئلہ کشمیر حل ہوجائے“ مودی نے مسئلہ کشمیر کو حل کردیا اور اسوقت کشمیر پر بھارتی فوجی محاصرے کو تین سال ہونے والے ہیں، بھارت وہاں دندنا پھر رہا ہے، اور حکومت نے کسی بھی فورم پر سنجیدگی سے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا یہاں تک اپنی ناقص خارجہ پالیسی کی بناء پر مسلم ممالک کی تنظیم OIC میں انکی حکومت چالیس سے زیادہ اسلامی ممالک کے فورم میں 14 ممالک کی حمائت حاصل نہ کرسکی، اسلامی ممالک کے اس فورم میں دوست اور قریب ترین محسن ممالک کو ناراض کرتے ہوئے دراڑ ڈالنے کی کوشش کی اور منہ کی کھانی پڑی۔ 25مئی کے دھرنے کی بھی کچھ یہ ہی کہانی لگتی ہے۔ کشمیری حریت پسند یسین ملک کو اس دن بھارتی عدالت سے سزا کا اعلان ہونا تھا ایک عالمی مسئلہ اور عالمی میڈیا کی خبر بننی تھی۔ یسین ملک کی اہلیہ اور انکی معصوم بچی نے کئی مرتبہ درخواست کی کہ دھرنے یا مارچ کی تاریخ صرف دو دن آگے بڑھا دیں مگر وہ تو پلان تھا تحریک انصاف نے ایسا نہ کیا پاکستان میں جلاؤ گھیراؤ، کا سماں تھا تمام میڈیا اسکی کوریج میں مصروف تھا 24گھنٹے اسکے دوران ایک کمزور سی ”بریکنگ نیوز“آئی کہ بھارتی عدالت نے عمر قید کی سزا سنا دی اور میڈیا ہاؤسز کے ہر چینل نے اسلامی ٹچ کی خبریں اور جلتے ہوئے درخت دکھانا شروع کردئے اور ہماری پوری قوم نہائت بے حسی میں یہ سب کچھ دیکھتی رہی۔
ایک زمانہ تھا حکومت اور عدلیہ کی رٹ ہوتی تھی، الطاف حسین، نواز شریف کو پاکستانی میڈیا پر نہ دکھاؤ اور ایسا ہی ہوتا تھا بلکہ آج تک ہے۔کیا موجودہ حکومت کم از کم بھارتی عدالت کے فیصلے کے موقع پر یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ کوئی دھرنہ، لانگ مارچ کم از کم 24 گھنٹے نہ دکھاؤصرف یسین ملک کی خبر دکھا کر کم از کم اسی طرح کفارہ ادا کرو مگر ایسا نہیں ہوا کہ عدالت نے کہنا ہے اظہار رائے پر پابندی قبول نہیں ۔ جس آزادی اظہار اور لانگ مارچ کی اجازت اعلیٰ عدلیہ نے دی تھی اسکا حشر پوری قوم نے دیکھ لیا ہوا وہی جو تحریک انصاف نے کرنا چاہا، ہاں D چوک پر نہیں گئے مگراور کہیں بھی نہیں گئے وہ واپس بنی گالہ ، صوبہ سرحد واپس لوٹ گئے MISSION SUCESS FULLچونکہ یسین ملک کی سزا کی خبر لانگ مارچ اور درختوں، گاڑیوں کے دھوئیں اور شعلوں میں دب چکی تھی۔اگر میں یہ سوچوں اور لکھوں کہ اس مشن کی کامیابی میں صرف تحریک انصاف ہی نہیں موجودہ اتحادی حکومت (جس میں اتحاد نظر نہیں آتا)اور ”دیگر“ سب ہی نے بھر پور کردار ادا کیا خدا ناخواستہ اگر یسین ملک کو پھانسی بھی دے دی جاتی تو یہ ہی کچھ ہوتا۔
IMF کے بوجھ تلے، تباہ معیشت، خزانہ خالی حکومت کام کررہی ہے مگر ہاتھ پیر پھولیں ہیں عوام کو ریلیف نہیں مل رہا، صرف بیان بازی ہے منظر نامے پر صرف مسلم لیگ ن ہی مصائب کا شکار نظر آرہی ہے، کہتے ہیں کہ بند کمرے میں اتحادی فیصلہ کرتے ہیں مگر منظر نامے میں نہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں مسلم لیگ ن کبھی کامیاب نہیں رہی اسلئے پنگا تو سب نے ملکر لیا ہے مگر منظر نامے میں نہیں نظر آتے، میں نے کل رات ایک ملاقات میں اتحاد کے اہم رکن مولانا فضل الرحمان سے جدہ میں یہ پوچھا کہ منظر نامے پر ، بیانات میں کوئی دوسرا اتحادی نظر نہیں آتا لگتا ہے صرف مسلم لیگ ن ہی مقابلے کے لئے ہے، مولانا نے اپنی روائتی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،”میں نے جلسے کئے ہیں‘‘ اس جواب کے بعد عشائیہ شروع ہوگیا۔