قلعہ روہتاس جی ٹی روڈ دینہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے ،دو ہائی اسکول،تین امام بارگاہیںاور تقریبا پچیس مسجدیں بھی قائم ہے۔اس وقت چند دروازوں ، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سسر راجا مان سنگھ کے محل اوربڑے پھانسی گھاٹ کے سوا قلعہ کا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کے باہرکی آبادی کو محفوظ کرنے کے لئے قلعہ کی تو سیع کروائی اور 3کلومیٹر رائونڈ میں قلعہ تعمیر کیا گیا،جبکہ ۱ کلومیٹر رائونڈ میں قلعہ پہلے سے موجودتھا۔یہ آبادی روہتاس گاؤں کے نام سےپہچانی جاتی ہے۔ سلیم شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اورحوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا ۔ یہ قلعہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل مقامات میں سےایک ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ نے قلعہ کی مرمت اور بحالی کے لئے کو ئی خاطر خواہ اقدام نہ اُٹھایا،جسکی وجہ سے قلعہ آج کھنڈرات میںتبدیل ہو رہا ہے۔تاہم قلعہ روہتاس کے مقیم قلعہ کی اس حالت کو دیکھ کر بہت افسردہ ہیں اور قلعہ کی اس حالت کا ذمہ دار محکمہ آثار قدیمہ اور پنجاب گورنمنٹ کو ٹھہراتے ہیں۔
روہتاس گاؤں جو قلعے کے وجود کے ساتھ ہی وجود میں آیا تا ہم ابھی تک روہتاس کے رہائشیوں کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو انکابنیادی حق ہے ۔ روہتاس گاؤں تاریخی اعتبار سے بھی قلعہ روہتاس کی پہچان ہے ۔یہاں کے رہائشی باقی علاقے سے مختلف روایات اور تہذیب کے حامی ہیں جو قلعہ کی تاریخ اور شیر شاہ سوری کی یاد کو تازہ کرتے ہیں ۔
روہتاس گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ قلعہ کا جو بھی حصہ قائم و دائم ہے وہ انکی ہی وجہ سے قائم ہے اور کچھ حصہ گورنمنٹ کی عدم توجہ کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
گاؤں کے لوگ اندرون و بیرون سے آنے والے سیاح کو مہمان خصوصی کی طرح عزت دیتے ہیں اور ہر آنے والے سے ایک ہی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں مالکانہ حقوق دلوائے جائیں اور روہتاس گاؤں کو ماڈل گاؤں ڈکلئیر کیا جائے۔