ہماری اسٹبلشمنٹ کو دو ہزارہ اٹھارہ سےقبل لگتا تھا کہ شاید عمران خان ہی واحد ایسا لیڈر ہے جو ملکی تقدیر کو بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے جس کا ذکر گزشتہ دنوں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام نے بھی بلدیاتی الیکشن مہم کے دوران جلسے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا اور جناب عمران خان کے لئے اقتدار کی راہیں ہموار کی گئیں مگر یہ تجربہ ناکام ہوا اور ایک دم سے اسٹبلشمنٹ کو لگنے لگا کہ ایک اور تجربہ کیا جائے تاکہ ملک میں بہتری لائی جاسکے۔
اسٹبلشمنٹ نے ” نیوٹرل ” ہوکر پی ڈی ایم کی جماعتوں کے اقتدار کی راہ ہموار کر دی مگر بدقسمتی سے یہ تجربہ بھی انتہائی بری طرح ناکام ہوگیا اور ملک میں معاشی بحران نے مزید زور پکڑا اور اسکے ساتھ ساتھ سیاسی بحران بھی تیز ہوتا چلا گیا قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ہم پاکستان محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے ملک نہیں بنا رہے بلکے ایک ایسی تجربہ گاہ بنا رہے ہیں جس میں اسلام کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
قائد کی خواہش کے مطابق یہ تجربہ کبھی شروع ہی نہیں ہوا تاہم ہمارے ہاں اب تک ایسے ایسے تجربات ہوچکے ہیں کہ پاکستان دنیا کی بہترین تجربہ گاہ کے طور پر ابھرا ہے ایک تجربہ ایٹمی دھماکوں کا تھا جس میں پاکستان کامیاب ہوا مگر اقتدار کی کرسی کے قابل بنانے والے تجربات نے لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے تمام محلول کے حامل سیاست دانوں اور عسکری ڈکٹیٹروں کو آزما لیا مگر رزلٹ امیدوں کے مطابق نہیں آیا بلکے اب گزشتہ تجربات کا ہی آڑا جوڑا کرکے ملک کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے کندھوں کا سہارا لینے والے سیاست دان اپنا کوئی تجربہ کرتے ہیں یا ایک مرتبہ پھر سے اسٹبلشمنٹ کو ہی اسکا فیصلہ کرنا پڑے گا۔