گولی کا چکر

0

نیزوں، تیر، تلوار اور کلہاڑوں کی جنگ و جدل کے بعد انسان کو بہادر اور بزدل بنانے کے لئے جو آلہ دنیا میں لایاگیا اسے گولی کہا جاتا ہے، یہاں انسان کا بے باک اور ترسان ہونا گولی کے رخ پر منحصر ٹھرا، مگر برِصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے اوراق گولی کو ایک ایسامعمہ بیان کرتے ہیں جو حل ہوکر ہی نہیں دے رہا، قصہ کچھ یوں ہے کہ بچپن میں ہم نے جب ٹام اینڈ جیری میں گولی چلتے دیکھی تو گولی اپنے حدف کا اس طرح تعاقب کرتی تھی جیسے آج کے دور کا کوئی جدید مزائل یعنی ٹارگٹ چاہے اپنی سمت بدلے، درخت پر چڑھ جائے یا زمین بوس ہوجائے گولی نے اپناکام دکھا کر ہی دم لینا ہوتا تھا۔ لڑکپن اور جوانی میں جب پنجابی فلموں میں گولی چلتےدیکھی تو ٹھا کی آواز پر ہی دشمن سمیت تماشائیوں کا بھی دل دہل جاتا تھا۔

حالیہ پاکستانی فلموں میں گولی کو ٹیکنالوجی کی مدد سے اتنا جدید کر دیا گیا کہ اگر ہیرو نماز پڑھ رہا ہو تو گولی اس کے سجدے میں جانے کی وجہ سے نقصان پہنچائے بغیر عقب میں موجود دیوار میں پیوست ہوجائے، دیکھا یہاں تک بھی گیا کہ اکثر فلموں میں چلائی جانے والی گولیوں کو ہیرو اپنی انگلیوں سے پکڑ کر دشمن کی جانب اس کا رخ کردیتا یا پھر اپنے دانتوں کی مدد سے گولی کو پکڑکر تھوک دیتا۔معمہ یہ نہیں کہ گولی صرف جان لیوا ہے رولا یہ ہے کہ بطور لفظ اس گولی نے عوام کو چکر میں ڈال رکھا ہے، جیسے سر درد کی گولی ، زخم کو پیوند کرنے والی گولی، زہر کی گولی، معاملہ یہیں نہیں رکتا محاورتن بھی گولی نے بڑی مثالیں قائم کر رکھی ہیں، کراچی میں اگر کوئی شخص کسی کو ٹال رہا ہو تو اسے حرفِ عام میں کہا جاتا ہے کہ بندہ گولی دے رہا ہے۔

ان سارے چٹکلوں کو ایک طرف رکھ کر اگر پاکستانی سیاست کی طرف نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس گولی نے وزیرِاعظم اوّل لیاقت علی خان سے لے کر اوّل خاتون وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو جیسی قیادتوں کی زندگی کے باب کا اختتام کیا، اسے کچھ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ گولی نے ہمیں ہمیشہ ہی محرومیوں کا شکار کیا۔سیاست میں گولی کے کردار نے وطن عزیز کو معاشی ، اقتصادی اور سماجی بدحالی کی جانب مائل رکھا75سال میں ہوائی فائرنگ، نامعلوم افراد کی فائرنگ، اندھی گولیاں یہ سارے واقعات و سانحات خبروں کی زینت بنے رہے ، گولی نے کارٹون کرداروں ٹام اینڈ جیری کی کہانی کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔

گولی کی وجہ سے پیش آنے والے ایک اور سانحہ ’’دی وزیرآباد مسٹری‘‘ میں کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے جہاں ایک لانگ مارچ میں ایک شخص ہوا میں پستول لہراتاہوا ہوائی فائرنگ کرتا ہےجس کی گولی بالکل اسی طرح ہدف کا تعاقب کرتی ہے جیسے ٹام اینڈ جیری میں ہوا کرتا تھا،معمہ یہ بھی ہے کہ پولیس رپورٹ کے مطابق گولیوں کےخول مختلف ساخت کے تھے، پتہ یہ بھی چلا کہ گولی لوہے کی چادر کو چیرتی ہوئی کسی کے رخسار سمیت چار مختلف جگہ نقصان پہنچانے میں کامیاب رہی۔

پھر اس کم بخت گولی نے عوام کو کچھ یوں جذباتی کیا کہ بلڈپریشر کی گولیوں کی قلت اور عدم دستیابی کےباعث وہ بھپر گئےیہاں تک دیکھا گیا کہ ایک معقول شخص نے ایک سجیلے فوجی جوان کے سامنےاتنی چیخ و پکار کی کہ اس کے حلق کی سوزش کے باعث وہ اپنے الفاظ پر قابو نہ پاسکا اور کہنے لگا کہ ہمارے لیڈر کو کچھ ہوا تو تباہی کردیں گے‘ اس دلچسپ واقعے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس فوجی جوان کے ہاتھ میں بھی ایک عدد اسلحہ نما چیزتھی یعنی اس میں بھی گولی موجود تھی گویا دی وزیر آباد نے لوگوں کے ذہنوں پر کچھ ایسے نقوش چھوڑے کہ ان کے دل سے گولی کا خوف جاتا رہا۔ تمام تر واقعات کا اگر جائزہ لیں تو ایک گولی نے قوم کو اس قدر حواس باختہ کیا کہ اپنے ہی ملک کی سالمیت کے لئے ہم خود خطرہ بننے کو تیار ہوگئے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری قوم میں مطالعہ کرنے کا رجحان نہیں شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی دنیا بھر میں ہونے والی حالیہ جنگوں کی وجوہات پر بھی نظر نہیں دوڑاتا،شام میں ہونے والی جنگ کا موازنہ پاکستان سے کریں تو اندازہ ہوگا کہ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف بھی عوام یوں ہی سڑکوں پر نکلی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی وجہ فقط اتنی رہی کہ چند نہتے عوام پر گولیاں برسائی گئیں اور یہ چند اموات ملک شام کو تباہی کی طرف لے گئیں۔

وزیرآباد حملے کے بعد قیاس آرائیاں کچھ ایسے اشارے بھی کررہی ہیں کہ کوئی تیسری طاقتیں یعنی ملک دشمن عناصراس واقع کے ذمہ دار ہیں کیونکہ یہ ایک عام سا فلسفہ ہے کہ جب دو افرادکے درمیان کشمکش ہو تو کوئی تیسرا اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ کیا بطور قوم ہم کو یہ زیب دیتا ہے کہ ہم ملک کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دیں، کیا ہم ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی وجہ نہیں بنتے؟ یقیناً یہ کھینچاتانی اور سیاسی آلودگی ملک کے مفاد میں نہیں۔اگر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی مدینے کی ریاست چاہتے ہیں تو ہمیں آج کے دور کے سپہ سالار کی تلوار یعنی گولی کے نشانے کو درست سمت میں رکھنا ہوگا،ورنہ نتیجہ ملک شام سے اخذ کیا جاسکتا ہے جہاں گولی کے چکر نے عوام کو گھن چکر بنا کر رکھ دیا ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!