عمران خان کی خواہشات بمقابلہ آئین پاکستان

0

پاکستان کی سڑکوں پر گزشتہ دو ہفتہ سے عمران خان کے چاہنے والوں کا راج ہے، فی الحال وہ سب کچھ اپنے صوبے پنجاب میں کررہے ہیں جہاں بظاہر حکومت پرویز الٰہی کی ہے مگر راج تحریک انصاف کا ہے اس راج میں دراڑ جب پڑی جب عمران خان کے قافلے پرفائرنگ کا افسوسناک واقعہ ہوا ، اپنے اوپر حملے کے متعلق انکا بیان ہے کہ اسکاعلم انہیں تھا، یہ بات وہ اپنے بیانات اور CNN کو د یئے گئے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں۔

اگر علم تھا تو ٹرک کی تیسری منزل پر کھڑے ہوکر اپنے دیرینہ گالم گلوچ کے بیانات سے اجتناب برتنا چاہئے تھا، کنٹینرپر انکانچلاآدھا دھڑ سامنے کی رکاوٹ کے پیچھے تھا مگر پھر بھی مبینہ طور پر گولی یا گولی کے چھرے انکے ٹخنوں کو لگے اور ٹرک سے جوابی فائرنگ سے غالباً ایک معصوم جو اس مارچ میں انکے ساتھ تھا جاں بحق بھی ہوگیا۔ تصاویر میں کبھی ایک پیر پر پلاسٹر کبھی دوسرے پیر پر پلاسٹرتھا ، پلاسٹر اسی وقت لگتا ہے کہ جب ہڈی کونقصان ہو، خیر انکا جسم انکے زخم تھے، مگر سیاسی افراتفری میں ملک کی بدنامی ہوتی رہے، عمران خان کی معصوم خواہش کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ حملہ کرانے والوں میں وزیر اعظم میا ں شہباز شریف ، وزیر داخلہ اور ایک سینئرسیکورٹی افسرکی نہ صرف برطرفی بلکہ اپنے اوپر مبینہ حملے کے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انکے نام FIR میں ڈالے جائیں، جسکے لئے سیاست میں تجربہ کار پرویز الٰہی اس پر تیار نہیں چونکہ انہیں پتہ ہے جھوٹی FIR انکے سر پر مستقبل میں تھوپ دی جائے گی جب معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں جائے گا انکا عمران خان سے آج اتحاد ہے کل نہیں ہوگا تو جھوٹی FIR کا جواب انہیں ہی دینا پڑے گا ۔

اس تمام صورتحال میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا بیان بھی بہت ہی معصومانہ ہے کہ وہ وزیر داخلہ ہیں انکے بقول تحریک انصاف کے چیئر مین کئی مسائل یہ غیر قانونی معاملات میں ملوث ہیں یعنی جلسے جلوس، توشہ خانہ وغیرہ وغیرہ ، اعلیٰ عدلیہ، اعلیٰ افسران کے خلاف ہرزہ سرائی جبکہ پنجاب میں کسی مسلم لیگی رکن اسمبلی میں اس لئے گرفتار کرلیاجاتاہے کہ اس نے عمران خان کے بات کی ہے ۔ اس صورتحال میں مملکت خداد پاکستان کے وزیر داخلہ کا بیان ہے کہ انکی گرفتاری میرے دائرہ اختیار میں نہیں ، میرے ہاتھ بندھے ہیں تو یہ سوال تو بنتا ہے کہ یہ ہاتھ کسی غریب کی گرفتاری کیلئے قانون کے کیوں کھلے ہیں ؟؟ کوئی سائیکل سے ہوا نکال دے کسی کو وہ تو گرفتار ہوسکتا ہے مگر پورے ملک کو غیر جمہوری عمل کی طرف لے جانے والے، نہ کھیلوں گا نہ کھیلنے دونگا، اپنے علاوہ سب کو چور اورجھوٹا کہونگا چاہے وہ ملک کی سرحدوں کے محافظ ہی کیوں نہ ہوں وہا ں وزیر داخلہ بے بس ہیں؟خیر سے یہ مسئلہ اتحادی حکومت کا ہے وہ کن نکات اور آزادیوں کے ساتھ حکومت میں آئی ہے۔

اگر ہاتھ پیر بندھے کام کرینگے تو انکی جماعتوں کو اشد نقصان ہونے جارہا ہے مستقبل قریب میں انکے خلاف بیانئے کامیابی اختیار کرینگے، بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے سوشل میڈیامیں یہ ہی سست روی آنیوالے وقت میں ناکامیوں کا سبب بنے گی۔ اطلاعات کے شعبہ تاحال وہ کچھ نہیں کرپارہا جتنا ہونا چاہئے خاص طور پر مخالفین کے پروپگنڈہ نہیں بلکہ اپنی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے، وزیر شہباز شریف کے طوفانی دورے، اقوام متحدہ، کا خطاب، دورہ چین نہایت اہم دورے تھے مگر ان دوروں میں پوشیدہ بے شمار مثبت پہلو عوام تک خاطر خواہ نہیں پہنچے ،ایسے میں جب کہ ملک کے اندر تحریک انصاف کی جانب سے خلفشار تھااور ہے تو اس میں تو اتحادی میڈیا کو زیادہ تیز رفتاری سے کام کی ضرورت ہے کہ عوام کو بتایا جاسکے کہ یہ لانگ مارچ، دھرنے، حملے سب غیر ممالک میں پاکستان کو بدنام کرنے اور غیر ملکی زعماء کو پاکستان کو مشکوک نگاہ سے دیکھنے کے متعارف ہے۔

وزیر اعظم کا اہم دورہ سعودی عرب جس میں سرمایہ کاروں کی کانفرنس سے خطاب کی تشہیرخاطر خواہ نہیں ہوسکی، عوام کو خاص طور پر یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ عسکری تعیناتیوں کو صرف آئین میں موجود طریقہ کار سے ہونا چاہئے ،اسے سیاست اور بیان بازی کے چنگل سے دور رکھیں، ملک میں حالیہ سیاسی افراتفری کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ عسکری قیادت کی نومبر کے اواخر میں تعیناتی کی وجہ سے ہے، عمران خان جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں، اپنے علاوہ تمام دنیا کو حقیر تصور کرتے ہیں انکی خواہش جاگ پڑی ہے کہ آئندہ تعیناتی انکے مشورے سے کی جائے جبکہ آئین میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ حزب اختلاف سے مشورہ کرکے تعیناتی کی جائے، عمران خان کے کیس میں تو ”مشورہ“ کا لفظ ہی نہیں استعمال کرنا چاہئے انکا تو حکم ہوتا ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ ہی ٹھیک ہے ،چاہے یہ میرا ختیا رہو یانہ ہو۔

دراصل سیاست دان ماضی سے سبق نہیں سیکھتے، سرحدوں کے محافظو ں کو خامخواہ سیاست میں دھکیلنا کوئی قابل تعریف عمل نہیں، کچھ افسران تو سیاست کرسکتے ہیں سیاست دانوں میں پسند نہ پسند تو ہوگی مگر کلی طور پر تمام تر ادارہ اپنے پروفیشن اور آئین میں تعویز کردہ دائرہ اختیار کا خیال رکھتا ہے۔ ماضی میں لیاقت علی خان عسکری اعلیٰ قیادت کی تعیناتی میں سینئر افسرانکو نظر انداز کرکے ایوب خان کو لایا گیا جنہوں نے جلد ہی مارشل لاء لگا کر سب کو گھر بھیج دیا،ایوب سے یحییٰ خان، ضیا ء الحق تعیناتی بذریعہ ذوالفقار علی بھٹو، بھٹو نے کئی سینئر افسران کو نظر انداز کیا جونیئر ضیاء الحق کو تعینات کیا ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا، نواز شریف نے بھی مداخلت کرتے ہوئے اپنے من پسند جونیر افسر پرویز مشرف کو فوجی قیادت سونپی پرویزمشرف نے جتنا کھجل خوار کیا سب جانتے ہیں۔

نہ جانے سیاست دان یہ کیوں چاہتے ہیں کہ جس افسر کو وہ تعینات کریں وہ انکے ملاز م بن کے رہیں یہ ہی پروفیشنل ادارے، ملک کی اہم ترین سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے، اپنے اندرپوشیدہ پالیسی لئے ہوئے سیاست دانوں میں فرق ہے۔ سیاست دان عسکری ادارے کو اپنے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے، کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں یہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے۔ پرویز مشرف جو عسکر ی ذمہ داریوں سے زائد شیروانی والے سیاست بن چکے تھے اور شیروانی اور وردی کے اختیارات کو گڈ مڈ کردیا تھا وہ بھی خدانواخواستہ میاں نواز شریف کو بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح منظر سے غائب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر ملک کے سب سے بڑے صوبے کی بھر پور حمایت انہیں حاصل تھی وہ پرویز مشرف ایسا نہ کرسکے ۔

سابقہ دخل غیر آئینی مداخلت کو دیکھتے ہوئے نئی عسکری قیادت کی تعیناتی صرف اور صر ف آئین کی تشریح کے مطابق ہونا لازمی ہے جبکہ سپہ سالار نے یہ مسئلہ از خود یہ کہہ کر حل کردیا ہے کہ میں گھر جارہاہوں extension نہیں لونگا۔ سیاست ملکر ملک کی معیشت ٹھیک کرنے کی کوشش کریں جسکا بیڑہ غرق گزشتہ چار سال میں ہوا ہے ،اگر اس طر ف توجہ نہ دی تو عمران کے u -turn، غلط بیانیہ جو کم تعلیم یافتہ ملک میں بہت سست داموں عوام تک پہنچتے ہیں جس وجہ سے اگر معیشت بہتر نہ ہوئی تو آئندہ (جب بھی ہونے والے انتخابات میں) اتحادی خاص طور مسلم لیگ ن کا نام نہ ہوگا داستانوں میں۔گزشتہ پانچ ماہ کا اگر احاطہ کیا جائے تو پی ڈی ایم حکومت کا اطلاعات اور احتساب کا شعبہ مکمل ناکام ہوا ہے۔بنجر دماغ اکٹھے کرکے جھوٹ اور پروپیگنڈے کے استاد سے مقابلہ کرنے چلے ہیں۔ بہرحال مسلم لیگ ن نے شعبہ اطلاعات اورڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے زرخیز دماغ بٹھا کر پالیسی تیار نہ کی تو عمران خان کا منفی پروپیگنڈا اتنا حاوی ہوجائے گا کہ شاید عام انتخابات میں انہیں الیکشن مہم کی بھی ضرورت نہ رہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!