نہ جانے میں کتنی دیر ہوش و حواس سے بیگانہ چند افراد کے ہجوم میں میں پڑا رہا۔مجھے نہیں معلوم مجھے کس نے وہاں سے اٹھایا اور مسجد الحرام میں ایک جگہ کونے پہ لیٹا دیا۔جب میری آنکھ کھلی تو مغرب کا وقت ڈھل چکا تھا۔ہر سو رات کا اندھیرا چھا چکا تھا۔میری آنکھ کھلی تو کچھ دیر میں اِدھر اُدھر گم صم سا دیکھتا رہا۔میرا سر اس وقت علم الدین صاحب کی گود میں تھا۔میں نے ان کی طرف دیکھا تو مجھے سب کچھ یاد آنے لگا کہ میں حرم پاک میں ہوں۔میں نے فوراً اٹھنے کی کوشش مگر انہوں نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر روک لیا۔
"کیا بات ہے فرزند،لگتا اس محبت کی تم تاب نہیں لا سکے”وہ بولے
"کون سی محبت”میں نے کن اکھیوں سے ان کی طرف دیکھا
"حرم پاک کی محبت”وہ مسکرائے
"حرم پاک سے محبت”میں نے پھر سے اٹھنے کی کوشش کی اور اس بار انہوں نے بھی مجھے نہ روکا تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔جیسے ہی میں سیدھا ہو کر بیٹھا مجھے ہلکے سے چکر آئے تو میں نے دونوں ہاتھ زمین پہ رکھ دیئے۔تھوڑی دیر میں میری حالت بہتر ہو گئی۔میں نے اٹھ کر علم الدین صاحب کی مدد سے وضو کیا اور قضا ہونے والی نماز ادا کی۔پھر ان کے پاس ہی براجمان ہو گیا۔
"فرزند،تم نے ایسا کیا دیکھا جو اچانک بے ہوش ہو گئے”میرے بیٹھتے ہی انہوں نے مسکراتے ہوئے پھر سے مجھ سے سوال کیا۔ان کے اس سوال پہ میں کچھ کھو سا گیا۔
"میں نے جب خانہ کعبہ کی طرف دیکھا تو مجھ پہ ایک رقت طاری ہو گیا۔ان سات دنوں میں آج ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ورنہ میں جب بھی خانہ کعبہ کی طرف دیکھتا مجھ میں پھر چلنے پھرنے کی سکت باقی نہ رہتی۔ایسے لگتا جیسے مجھے زمین نے جکڑ لیا ہو۔میں چاہ کر بھی خانہ کعبہ کی طرف قدم نہ بڑھا سکا۔مگر آج پتا نہیں ایسی کون سی طاقت تھی جو میں حرم پاک کی طرف کھینچتا چلا گیا۔اتنے لوگوں کے ہجوم سے گزر کر آخر میں خانہ کعبہ کے بالکل قریب پہنچ گیا۔پھر نہیں معلوم کیا ہوا میں نے غلاف کعبہ پکڑا تو خوبخود دعائیں نکلتی گئیں۔پھر آگے کیا ہوا کچھ یاد نہیں۔ابھی ہوش آیا تو آپ کی گود میں میرا سر تھا”
"فرزند،عشق کی چوٹیں ناگہانی نہیں ہوتی،وہ تو حقیقی ضرب ہوتی ہے جس جگہ لگ جائے نشان چھوڑ جاتی ہے۔پھر نشان سے زخم بنتے ہیں اور یہ زخم پھر رفتہ رفتہ گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔جتنا عشق پرانا ہوتا جاتا اتنے ہی زخم گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔یہ پہلی چوٹ تھی شاید تمہیں ہر چیز سے بیگانہ کر گئی یہاں تک کہ تم ہوش ہو حواس سے بھی بیگانہ ہو گئے”علم الدین صاحب نے میری آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے کہا”کیا یہ چوٹیں اتنی دردناک ہوتی ہے۔سب بھولا دیتی ہیں بس درد نہیں”میں نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا
"ہر شخص ایسی چوٹوں کا حق دار نہیں ہوتا فرزند،دنیا کا ہر مسلمان خانہ کعبہ سے محبت کرتا ہے مگر اس کے دیدار کی تڑپ ہر کسی کے پاس نہیں ہے۔کوئی گھر میں خانہ کعبہ کی فریم کی گئی تصاویر دیکھ کر ہی ضبط کا دامن چھوڑ دیتا ہے۔کسی کی سفر کے دوران ہچکی نہیں رکتی تو کوئی خانہ کعبہ کو دیکھ کر آنسو بہاتا ہے۔آخر میں جب کسی کو خانہ کعبہ سے جدائی کا پروانہ ملتا ہے تو وہ ہجر کے اس کرب میں گڑگڑاتا ہے۔ہر کسی کے درد کا حساب مختلف ہے۔یہاں ہزاروں زائرین ایسے بھی موجود ہیں جو کبھی کعبہ کو چھو نہیں سکیں گے مگر ان کی محبت کم نہیں ہو گی۔ہم میں ہر مسلمان کی محبت کا درجہ تقسیم ہے کسی کی کم تو کسی کی زیادہ ہے مگر ہر ایک کا امتحان مختلف ہے”انہوں نے خانہ کعبہ سے محبت پہ مجھے بڑا سا لیکچر دیا تو میں مزید الجھ سا گیا تو ان سے پوچھ بیٹھا
"میں اپنے ان احساسات کو کیا نام دوں گا بزرگوار،کیا یہ میرا عشق ہے یا وقتی جذبہ”
"یہ زیور ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا فرزند،تمہارا بھی ایک طرح سے امتحان ہے دیکھو اب کتنی کامیابی ملتی ہے”انہوں نے میری بات کا مختصر جواب دیا۔میں نے ان کی بات پہ چپ سادھ لی کیونکہ ابھی سمجھنے میں بہت سا وقت باقی تھا۔میں نے انگلیوں کے پوروں سے آنکھوں کو چھوا تو ضبط کا دامن جواب دے چکا تھا۔میں نے ایک بار پھر خانہ کعبہ کی طرف دیکھا تو میری آواز ہچکیوں میں بدلنے لگی اور میں ضبط پہ قابو پانے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔علم الدین صاحب میرے ساتھ کندھے سے کندھا جوڑ کر بیٹھ گئے۔مگر اب میں گرنے والا نہیں تھا۔تھوڑی دیر میں ہی عشاء کی اذان شروع ہو گئی تو میں علم الدین صاحب کے ساتھ پھر سے عشاء کی ادائیگی کے لئے وضو کرنے چلا گیا۔وقت آہستہ آہستہ گزرتا چلا جا رہا تھا۔میں نے صف میں علم الدین صاحب کے ساتھ ہی کھڑے ہو کر نماز عشاء ادا کی اور پھر گڑگڑا کر دعا مانگی۔میں یہاں صرف عمرہ کرنے کی نیت سے ہی آیا تھا۔مگر اب صرف عمرہ نہیں مجھے اپنے گناہ بھی بخشوانے تھے۔میں وہیں سجدے میں گر گیا اور بے تحاشا ہچکیوں میں رونے لگا۔تھوڑے ہی فاصلے پہ علم الدین صاحب بھی سر بسجود تھے مگر میں نے ان کی طرف نہیں دیکھا۔نہ جانے کتنی دیر یونہی گڑگڑاتے ہوئے گزر گئی۔آخر علم الدین صاحب نے خود ہی آ کر مجھے اٹھایا۔میں نے سجدے سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا تو وہ مسکرا رہے تھے۔آج صحیح معنوں میں مجھے سکون قلب محسوس ہوا۔میں نے ایک نظر خانہ کعبہ کی طرف دیکھا پھر اپنی نگاہیں جھکا لیں۔پھر علم الدین صاحب کا ہاتھ پکڑ کر مسجدالحرام کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا اور اپنی آنکھیں موند لیں۔اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے میرے کانوں میں ذکر و اذکار کی آواز سنائی دے رہی تھی اور میں بھی اس ذکر میں شامل ہو کر نیند کی وادی میں کھو گیا۔آج بھی میں پرسکون نیند سونے لگا۔تہجد کے لئے کچھ لمحے نیند ضروری تھی۔اس سے پہلے مجھے کبھی سکون کی نیند نصیب نہ ہوئی جو ان سات دنوں میں ہوئی۔
تہجد کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو علم الدین صاحب ابھی تک سو رہے تھے۔میں نے ان کے قریب جا کر انہیں اٹھایا تو وہ بھی جلدی سے بیدار ہو گئے۔انہوں نے میرے جلدی اٹھنے پہ حیرانگی سے دیکھا کیونکہ پچھلے چھ دن سے تہجد کے وقت وہ ہی مجھے اٹھاتے آ رہے تھے۔عموماً خانہ کعبہ میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ پہلی صف میں جگہ ملتی ہے۔خانہ کعبہ میں پہلی صف چند منٹس میں ہی بھر جاتی ہے۔جس وقت ہماری آنکھ کھلی تو ابھی تک کوئی بھی پہلی صف پہ موجود نہیں تھا۔چند افراد ایسے تھے جو طواف میں مصروف تھے۔ہم دونوں نے جلدی سے وضو کیا اور خانہ کعبہ کے قریب پہلی صف میں بیٹھ گئے۔آج موسم پھر سے ابر آلود تھا اور ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ہم دونوں نے تہجد کی نماز ادا کی۔پھر فجر کا انتظار کرنے لگے اور ذکر و اذکار میں مصروف ہو گئے۔علم الدین صاحب نے ہم دونوں کے درمیان چھائی خاموشی کو توڑا اور بولے”فرزند،آج تمہاری آنکھ بہت جلدی کھل گئی،مجھے تعجب ہوا کیونکہ تم بیمار تھے اور تم نے بہت ہیوی ڈوز میڈیسن بھی لی تھی۔میں نے تو سوچا تھا کہ تمہیں فجر میں ہی اٹھائوں گا”
ان کی بات سن کر میں مسکرا دیا اور پھر کہنے لگا”ہم لوگ اپنی مرضی سے تھوڑی عبادت کرتے ہیں۔یہ تو بلاوا آتا ہے تو ہمیں حاضری نصیب ہوتی ہے۔آج سے دس روز پہلے میں صرف پاکستان واپس آنے کا سوچ رہا تھا مگر اچانک سبب بنا اور میں یہاں آپ کے پاس ہوں۔آپ کے ساتھ بیٹھا خانہ کعبہ کا دیدار کر رہا ہوں۔میرے لئے تو یہ بھی بہت بڑی سعادت ہے کہ مجھے پہلی صف میں جگہ ملی ہے۔لوگ طواف بھی کر رہے ہیں مگر کوئی پہلی صف میں نہیں بیٹھا تھا۔تو یہ بھی میرے لئے پہلی سعادت ہے کیونکہ جب سے ہوش سنبھالا مجھے کبھی مسجد میں بھی پہلی صف میں جگہ نہیں ملی تھی اور آج مجھے جو سعادت ملی ہے یہ دنیا کے سب انعاموں سے ایک بڑا انعام ہے”
"مجھے پہلے دن یہاں جگہ ملی تھی اور اس دن کے بعد آج میں پہلی صف میں آیا ہوں۔خانہ کعبہ کی قربت کتنا لطف دیتی ہے”علم الدین صاحب نے میری بات کی تائید کی
"ہم اتنے گناہگار ہو کر بھی کیوں نواز دیئے جاتے ہیں۔میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے کبھی حاضری کا شرف بخشا جائے گا۔میں تو یورپ کی فضائوں میں سانس لینے کا عادی تھا۔میں یورپ جس ملک میں مقیم ہوں۔وہاں ہر طرح کی سہولت میسر ہے مگر وہاں ویسا سکون نہیں ہے جیسی راحت مجھے یہاں آ کر ملی ہے۔ہم مسلمانوں کے لئے سب سے بہترین جگہ یہ ہے تو پھر ہم لوگ کیوں یورپ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں”ان کی تائید کے بعد میں نے پھر سے ان سے سوال کیا تو وہ سوچ میں پڑ گئے اور پھر کہنے لگے”فرزند،میں نے یورپ میں اپنی زندگی کے کئی سال گزارے ہیں۔میں امریکہ کی مختلف ریاستیں گھوم کر آیا ہوں۔میں نے کئی افریقی ممالک کی سیر کی ہے۔مگر فرزند مجھے بھی یہیں سکون ملا۔میں بھی یہی سمجھتا رہا کہ مغرب ہمارا آئیڈیل ہے۔میں غلط تھا کیونکہ درحقیقت ہمارے لئے آئیدیل صرف حرم پاک اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا چاہئیے۔کیونکہ جو راحت ہمیں یہاں پہ میسر ہے ویسی راحت ہمیں کہیں پہ بھی نہیں ملی۔یہ سب ہماری دین سے دوری ہے۔ہم ترقی کے لئے مغرب کی طرف دیکھتے ہیں۔ہم لوگ ان کی مثالیں دیتے ہیں مگر فرزند،ہم نے اسلام کو نہ پڑھا ہے نہ کبھی اس پہ عمل کیا ہے۔اگر ہم اسلام کے حقیقی اصولوں کا علم رکھتے تو شاید ہم دنیا کے لئے ایک بہترین مثال ہوتے۔مگر افسوس”وہ دکھ سے بول کر خاموش ہو گئے۔مسلمانوں کی ابتر حالت کی وجہ بھی تو یہی تھی۔ہم نے اسلام سے دوری اختیار کر کے ذلت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا۔ہم دونوں میں مزید کوئی بات نہ ہوئی۔کیونکہ ہم بس مسلمانوں کی اور خود کی حالت بدلنے کی صرف دعا کر سکتے تھے۔پھر ہم دونوں خانہ کعبہ کی طرف دیکھنے لگے۔میری پھر سے وہی حالت ہونے لگی جیسے کل سہ پہر ہو چکی تھی۔میری آنکھیں پھر سے نم ہونے لگیں۔میں پھر سے زار و قطار رونے لگا،آنسو بہانے لگا۔نہ جانے حرم پاک کو دیکھتے ہی مجھے اپنے گناہ کیوں یاد آنے لگتے۔میں کبھی اتنا کمزور دل تو نہیں تھا۔مجھے تو اپنی دادی ماں کی وفات پہ بھی رونا نہیں آیا تھا پھر یہاں پہ میرا ضبط کیوں بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔میں نے نم آنکھوں کے ساتھ علم الدین صاحب کی طرف دیکھا تو ان کی حالت بھی مجھ جیسی تھی۔آج خانہ کعبہ میں میرا اور ان کا آخری دن تھا۔آج ہم دونوں نے خانہ کعبہ میں آخری بار فجر کی نماز ادا کرنا تھی۔آج کی رات فراق کی رات تھی۔آج مجھے خانہ کعبہ سے رخصت ہو کر مدینہ جانا تھا۔اللہ کے محبوب پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ حاضری کے لئے جانا تھا۔یہ بات سچ ہے کہ مجھے عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی اور میں خانہ کعبہ آ گیا۔مگر یہاں آنے سے پہلے میں کبھی کسی حاجی سے نہیں ملا تھا جو حج کر کے آیا ہو۔کسی ایسے شخص سے میری کبھی بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی جس نے عمرہ کی سعادت کے بعد کبھی خانہ کعبہ کا ذکر کیا ہوا۔میں دنیاوی مسائل اور اس کی محبت میں اس حد تک کھو گیا تھا کہ میں راہ راست تک بھول گیا۔مجھے اپنا مسلمان ہونا بھی یاد نہیں رہا تھا۔اس وقت یہ سوچ کر میری آنکھیں مزید بہنے لگیں کہ مجھے چودہ دن بعد پاکستان چلے جانا ہے۔ہم رو تھے آنسو بہا رہے تھے جب مئوذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کر کے فجر کی نماز کا وقت ہونے کی نوید سنائی۔اذان مکمل ہونے کے بعد میں نے اور علم الدین صاحب نے سنت ادا کیں اور پھر باجماعت نماز فجر ادا کی۔نماز کی ادائیگی کے بعد طواف شروع ہوا اور ہم نے ہر روز کی طرح آج بھی خانہ کعبہ کا طواف کیا۔طواف کے بعد ہم کچھ دیر کے لئے ایک ساتھ بیٹھ گئے۔آج کچھ دیر میں ہی ہم دونوں کو وہاں سے رخصت ہو کر مدینہ منورہ کے لئے جانا تھا اور ہم سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ حاضری کے لئے بے تاب تھے۔کچھ دیر بیٹھے رہنے کے بعد علم الدین صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا اور کھڑے ہو کر بولے”فرزند اٹھو،ابھی ہم نے صفاء و مروہ نہیں دیکھیں۔اتنے دن سے آب زم زم نوش فرما رہے مگر کبھی صفا اور مروہ پہ نہیں گئے”ان کی بات سن کر میں بھی جھٹ سے کھڑا ہو گیا اور ان کے ساتھ ہو لیا۔مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام سے کچھ ہی فاصلے پہ واقع یہ پہاڑیاں حضرت بی بی حاجرہ علیہ السلام کی یاد دلا رہی تھیں۔یہی وہ پہاڑیاں تھیں جن پہ انہوں نے پانی کے لئے سات چکر لگائے تھے اور پھر ان پہاڑیوں پہ سات چکر لگائے بغیر حج کا فریضہ نامکمل قرار دے دیا۔صفا و مروہ بھی عام پہاڑیوں جیسی تھیں مگر ان کی حضرت حاجرہ سے نسبت نے انہیں خاص بنا دیا۔ہم دیر تک ان پہاڑیوں پہ کھڑے رہے۔میری آنکھوں میں اس وقت بھی آنسو تھے۔میں عمر بھر ٹی وی پہ چلنے والی اسلامی ڈاکومیٹری دیکھ کر چینل ہی بدل دیا کرتا تھا اور آج میری آنکھوں کے سامنے صفا و مروہ پہاڑیاں تھیں۔کیسا عجیب اتفاق تھا کہ میں گناہگار ہو کر بھی نواز دیا گیا۔ہم لوگ کچھ دیر وہیں پہ کھڑے رہے اور پھر وہاں سے واپس خانہ کعبہ پہنچ گئے۔اس وقت سورج طلوع ہو چکا تھا۔میں نے علم الدین صاحب کے ساتھ کھڑے ہو کر نوافل ادا کئے اور پھر خانہ کعبہ کو آخری بار نم آنکھوں سے دیکھا۔آج ساتویں دن رخصتی کا وقت آ گیا تھا۔میں دیر تک خانہ کعبہ کی طرف ہاتھ اٹھائے کھڑا رہا۔میری آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب جاری ہو گیا تو میں سجدے میں چلا گیا۔مجھ سے خانہ کعبہ سے یہ فراق برادشت نہیں ہو رہا تھا۔شاید ہر مسلمان رخصتی کے وقت فراق کی آگ میں جلنے لگتا ہے۔
ازقلم/اویس