قطر میں عالمی مشاعروں کے پیشگام ( Pioneer) محمد سلیمان دہلوی کی کتاب "داستاں در داستاں” کی تقریبِ رونمائی و مشاعرہ

0

دوحہ(رپورٹ:افتخار راغب)قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر (قائم شدہ 1959) کے زیرِ اہتمام قطر میں عالمی مشاعروں کے پیشگام ( Pioneer) محمد سلیمان دہلوی کی نثری کتاب "داستاں در داستاں” کی تقریبِ رونمائی و مشاعرہ کا انعقاد 6 جنوری 2023 بروز جمعہ کی شام کو مازا ریسٹورنٹ، دوحہ میں ہوا۔

پروگرام کی صدارت بزمِ اردو قطر کے چیئرمین اور گزرگاہِ خیال فورم کے صدر ڈاکٹر فیصل حنیف نے فرمائی اور کرسیِ مہمانانِ خصوصی کو ہندوستان سے تشریف لائے مہمان ادیب ڈاکٹر سراج الدین ندوی اور بزم کے اہم رکن وسیم احمد نے رونق بخشی۔ صاحبِ کتاب محمد سلیمان دہلوی مسندِ مہمانِ اعزازی پر جلوہ افروز ہوئے۔ نظامت کے فرائض صدرِ بزمِ اردو قطر محمد رفیق شاد اکولوی نے بحسن و خوبی بر محل عمدہ اشعار و برجستہ جملوں کے ساتھ انجام دیے۔

پروگرام کا با برکت آغاز حسبِ روایت تلاوتِ کلامِ اللہ سے ہوا جس کی سعادت مولانا اسلم عزیز ندوی کے حصے میں آئی۔ بزم کے جنرل سکریٹری افتخار راغب نے مہمانان و حاضرین کا استقبال کیا۔ تقریبِ رونمائی کے حصے میں وسیم احمد اور محمد رفیق شاد اکولوی نے محمد سلیمان دہلوی کی کتاب اور شخصیت کی مختلف خصوصیات پر روشنی ڈالنے کے ساتھ اپنے مضامین میں ادبی خدمات کا ذکر بھی احسن طریقے سے کیا۔

ڈاکٹر فیصل حنیف نے چند برسوں پہلے لکھا ظرافت سے لبریز خاکہ "بشر ہے کیا کہیے” پیش کیا جس کی شگفتگی سے سامعین خوب محظوظ ہوئے۔ سلیمان دہلوی پر لکھا ہوا یہ خاکہ بلا شبہ ایک شاہکار تخلیق ہے جو موصوف کی کتاب میں بھی شامل ہے۔ مظفر نایاب اور افتخار راغب نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیے۔ نایاب کی نادر نظم کا ایک بند اور راغب کی نظم کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے:
تحریر ہے یوں جیسے کہ پھولوں کی لڑی ہو
نایاب قلم ایسا کہ جادو کی چھڑی ہو
شیریں سخن ایسا کہ شکر منہ میں پڑی ہو
رکھتا ہے زباں مثلِ قلاقند سلیمان
اردوئے معلیٰ کا ہے فرزند سلیمان
مظفر نایاب

اہل زباں کی شان سلیمان دہلوی
اردو کے پاسبان سلیمان دہلوی
دوحہ قطر کو ناز بہت آں جناب پر
اردوستاں کی آن سلیمان دہلوی
افتخار راغب

انڈو قطر اردو مرکز کے بانی صدر محمد سلیمان دہلوی نے 1986 میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی اور قطر میں عالمی مشاعروں کے سلسلے کا آغاز 1987 میں کیا اور چھے شاندار و پروقار مشاعرے منعقد کیے جو آج تک اپنی مثال آپ ہیں اور بینچ مارک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن شعرا اور شخصیات کو موصوف نے قطر مدعو کیا ان میں حفیظ میرٹھی، کلیم عاجز، تابش دہلوی، مجروح سلطان پوری، علی سردار جعفری، شمس الرحمان فاروقی، سعید شہیدی، اختر الایمان ، جگن ناتھ آزاد ، ملک زادہ منظور، رضا علی عابدی، ہلال سیوہاروی، حمایت علی شاعر، والی آسی، منور رانا، کیفی اعظمی ، انتظار نعیم، غلام ربانی تاباں، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، گلزار دہلوی، تابش مہدی، وسیم بریلوی اور سدرسن فاخر وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

آپ نے قطر کے اسکولوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے درمیان سالانہ بین المدارس اردو مباحثوں کا آغاز 1988 میں کیا جو کئی سال تک پورے اہتمام کے ساتھ جاری رہا۔ آپ کی کوششوں سے قطر میں جامعہ اردو علی گڑھ کے امتحانات کا مرکز بھی 1990 میں قائم ہوا جس سے بے شمار لوگ استفادہ کیے۔ محمد سلیمان دہلوی نے قطر میں سب سے پہلی اردو لائبریری "انڈو قطر اردو لائبریری” کا قیام 1993 میں کیا جو 2019 میں قطر نیشنل لائبریری میں ضم ہو کر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی ہے۔ آپ نے سرزمینِ قطر سے پہلے عالمی ایوارڈ "حضرت امیر خسرو عالمی اردو اعزاز” کا اجرا 1994 میں کیا۔

"داستاں در داستاں” محمد سلیمان دہلوی کی نثری کتاب ہے جس میں آپ کے گیارہ مضامین شامل ہیں جن میں اردو کی کہانی اردو کی زبانی، ہمارا دلّی کالج، استادِ محترم مطہر علی زیدی، مولانا عزیز الرحمٰن لدھیانوی، میر صاحب، شنکر خاکروب، پیرو مہترانی، واگھہ سے واگھہ تک اور وہ دن وہ لوگ کے عنوان سے حفیظ میرٹھی، اندر کمار گجرال اور مجروح سلطان پوری پر لکھے شاہکار مضامین زبان و بیان اور اسلوبِ نگارش کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ کتاب کو ترتیب دیا ہے سید اقبال حسن نے اور اسے ایم آر پبلی کیشنز، نئی دلی نے شائع کیا ہے۔

پروگرام کے دوسرے حصے یعنی مشاعرے میں ناظمِ اجلاس محمد رفیق شاد اکولوی کے علاوہ افتخار راغب، مظفر نایاب، قیصر مسعود، ڈاکٹر وصی بستوی، رضا حسین رضا، انعام عازمی، بیج ناتھ شرما مِنٹو اور مبصر ایمان نے اپنے منتخب کلام سے سامعین سے خوب داد و تحسین وصول کی۔

مہمانِ خصوصی ڈاکٹر سراج الدین ندوی نے اپنے تاثرات میں فرمایا کہ سلیمان دہلوی صاحب کے کارہائے نمایاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے صاحبِ کتاب کو مبارکباد پیش کی۔ مشاعرے کے متعلق آپ نے فرمایا کہ آج کل اچھے شعر بڑے مشاعروں میں نہیں بلکہ انھیں چھوٹی اور مخصوص محفلوں میں سننے کو ملتے ہیں۔ دوسرے مہمان وسیم احمد نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور بزمِ اردو قطر کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا۔ مہمانِ اعزازی محمد سلیمان دہلوی نے اپنی کتاب سے کچھ دلچسپ واقعات بیان کیے اور تقریبِ رونمائی کے لیے بزم اردو قطر کا شکریہ ادا کیا۔

صدرِ محفل ڈاکٹر فیصل حنیف نے صدارتی خطبے میں سلیمان دہلوی کی کتاب اور شخصیت پر لکھے گئے دونوں مضامین کو انتہائی اہم اور قابلِ قدر قرار دیا ساتھ ہی منظوم خراجِ تحسین کی بھی خوب پذیرائی کی اور خاص طور سے مظفر نایاب سے گزارش کی کہ اس طرح کی شخصی اور غیر شخصی پابند نظموں کی تخلیق پر خصوصی توجہ فرمائیں اور مزید نظمیں لکھیں۔ آپ نے مشاعرے میں پیش کیے گئے تمام شعرا کے منتخب کلام کو بھی خوب سراہا۔

آخر میں محمد رفیق شاد اکولوی نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ دو روز سے مسلسل بارش اور موسم کی سختی کے باوجود توقع سے زیادہ محبانِ اردو کی موجودگی ان کی اردو اور محمد سلیمان دہلوی سے محبت کی دلیل کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ اسٹیج پر جلوہ افروز مہمانان و شعرائے کرام کے علاوہ جن اہم شخصیات نے اپنی شرکت سے پروگرام کا وقار بڑھایا ان میں فیروز خان، شمس الدین رحیمی، اشرف صدیقی، آصف حسین، افروز داور، حامد علی، محمد غیاث الدین، سجاد عالم، محمد دانش، سہیل احمد وفا، سراج عالم، سلطان احمد، ڈاکٹر ایاز احمد، ڈاکٹر رضوان، ڈاکٹر فیصل نذیر، حسن بدر، مختار احمد اور کاظم فیصل وغیرہ شامل ہیں۔
مشاعرے میں پیش کیے گئے چند منتخب اشعار با ذوق قارئین کی نذر:
محمد رفیق شاد اکولوی:
مختصر ہو مگر زمیں پر ہو
آسمانوں میں گھر نہیں ہوتا
مصلحت کو خدا بنا لیتے
دار پر اپنا سر نہیں ہوتا

افتخار راغب:
غمِ دل ہو، غمِ جاناں کہ غمِ دوراں ہو
سب مسائل کا مرے ایک ہی حل یعنی تو
ڈھونڈ کر لاؤں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی تو

مظفر نایاب:
ہے کس کی شان تری آب و تاب کی مانند
دیا ہے تو نے دیا آفتاب کی مانند
میں بے قصور ہوں تفتیش مت کرو ہر روز
ہر ایک روز ہے روزِ حساب کی مانند

قیصر مسعود:
بچھڑتے وقت محبت کا آخری بوسہ
مرے لبوں پہ انوکھی مٹھاس چھوڑ گیا
پلٹ کے آئے نہ آئے مگر یہی ہے بہت
مرے لیے وہ پلٹنے کی آس چھوڑ گیا

ڈاکٹر وصی بستوی:
آج بیدار ہوا کیسا تجسس مجھ میں
کھول کر رکھ دیا ہر ایک دریچہ میں نے
ایک ہی وار میں جب ٹوٹ گیا اندر تک
سیلِ جذبات کبھی پھر نہیں روکا میں نے

رضا حسین رضا:
نیا ہے دور سو رشتے بھی بن گئے ہیں نئے
بڑے ادب سے جنھیں ہم نبھائے جاتے ہیں
مریدِ زن تو ہے کامن سی ایک بات مگر
مریدِ ساس بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں

انعام عازمی:
زندگی جب بھی دھیان کھینچتی ہے
موت چپکے سے کان کھینچتی ہے
بے بسی بولنے نہیں دیتی
اور وحشت زبان کھینچتی ہے

بیج ناتھ شرما مِنٹو:
دوست ہو تم تو نظر مجھ سے چرایا نہ کرو
آئنہ ہو تو مرے عیب چھپایا نہ کرو
ایک دن دیکھنا چھڑکیں گے نمک زخموں پر
زخم اپنے کبھی اپنوں کو دکھایا نہ کرو

مبصر ایمان:
پہچان ہو گئی ہے خدا تیری ذات سے
تیرے حبیبِ پاک کی ہر ایک بات سے
آنکھوں نے میری دیکھی ہیں تیری نشانیاں
جانا ہے میں نے تجھ کو تری کائنات سے

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!