پہلی سعادت (حصہ دوئم)

0

ابر رحمت اب جم کر برسنا شروع ہو گئی۔فجر کا وقت ہونے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔وہ لوگ جو طواف کعبہ مکمل کر چکے تھے اب وہاں سے کوچ کر رہے تھے۔میں نے اس بزرگ کو اٹھانا چاہا مگر انہوں نے مجھے اٹھانے سے روک دیا”مجھ پہ ابرحمت برسنے دو فرذند،مجھے اس رحمت کی آغوش میں ہی رہنے دو جو کعبہ میں ہم پہ برس رہی ہے”وہ آنسوؤں اور بارش کے پانی سے تر چہرہ لئے بولے”آپ کہاں کے رہنے والے ہیں بزرگوار،پاکستان یا انڈیا”میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے حیرت سے میری جانب دیکھا”کیا تمہیں میرا اردو بولنا بھی سمجھ نہیں آیا کہ میں کس ملک کا رہنے والا لگتا ہوں۔بھئی میں نے تو تمہیں پہلی نظر ہی پہچان لیا کہ تم پاکستانی ہو”وہ مسکرائے مگر نم آنکھوں کے ساتھ تو میں شرمندہ سا ہو گیا۔”آپ کی صحت بہت خراب لگ رہی ہے،میں آپ کو کسی کمرے میں لے کر جاتا ہوں”میں نے بات بدل کر انہیں اٹھانے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا”میں اس کی رحمت سے اب دور نہیں جانا چاہتا فرذند،مجھے اس کی رحمتیں سمیٹ لینے دو”انہوں نے کہا تو میں خاموش ہو گیا۔ان کی نظر اب بھی خانہ کعبہ کی طرف تھی۔موسلادھار بارش کے باعث خانہ کعبہ کی چھت سے پانی نکاسی والی جگہ سے زمین پہ گر رہا تھا۔اس وقت اکا دکا لوگ ہی بچے تھے جو طواف کعبہ کرنے میں مصروف تھے۔میں بھی ان لوگوں کو انہماک سے دیکھنے لگا۔میں اپنی زندگی میں کبھی اتنا زیادہ نہیں رویا تھا جتنا رونا مجھے آج آ رہا تھا۔مجھے مکہ پہنچے ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہ ہوئے تھے مگر خانہ کعبہ دیکھ کر اتنے آنسو بہا دیئے جیسے صدیوں پرانی رفاقت ہو۔میں جس انہماک سے دیر تک خانہ کعبہ کی طرف دیکھتا رہا میں یہ بھول چکا تھا کہ مجھ پہ موسلادھار بارش برس رہی ہے اور ایک بزرگ میری گود میں سر رکھے لیٹے ہوئے ہیں۔”فرذند”ان بزرگ کی آواز میری کانوں میں پڑی تو میں ایک دم چونکا۔میرا احرام مکمل بھیگ چکا تھا۔خانہ کعبہ کے صحن میں ہر جگہ پانی ہی پانی کھڑا تھا۔

خانہ کعبہ میں موجود انتظامیہ کے لوگ پانی نکالنے میں مصروف تھے۔”فرذند تم اتنے کھوئے کھوئے کیوں ہو اداس سے”بزرگ نے سوال کرتے ہوئے پوچھا”بس اپنی زندگی میں ہونے والے عجیب اتفاقات دیکھ رہا ہوں”میں نے جواباً کہا”ہم انسان اپنی ساری زندگی مختلف اتفاقات دیکھتے ہی گزار دیتے ہیں۔زندگی کو اگر اتفاقات کا نام دوں تو غلط نہیں ہو گا۔میں نے اپنی زندگی کے بَہتر سالوں میں بہت سے اتفاقات دیکھے ہیں۔تم بتائو تمہارے ساتھ ایسی کیا انہونی ہوئی ہے جو تم اتنا کھوئے کھوئے سے ہو””میں پہلی بار خانہ کعبہ آیا ہوں،شاید آیا نہیں بلایا گیا ہوں۔مجھے اپنی زندگی کا کوئی ایسا دن یاد نہیں جب میں نے پانچ نمازیں پڑھی ہوں مگر آج اللہ کا گھر خانہ کعبہ دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو رہا ہوں کہ میں اس در سے اتنا دور کیوں رہا ہوں جو در ہی محبتوں اور رحمتوں والا در ہے۔میں اپنی پینتیس سال کی زندگی کا محاسبہ کروں تو شاید اگلے تین سو پچاس سال جی کر بھی اتنی نیکیاں نہیں کر سکوں گا کہ اپنے دامن سے گناہوں کا داغ مٹا سکوں،میں جب بھی سوچتا ہوں یہ سب تو مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔دس گھنٹے پہ محیط سفر سے لے کر اب تک میں نے صرف خود ہی کوسا کہ آخر کیوں میں اتنا برا تھا”میری آنکھوں سے متواتر آنسو بہنے لگے۔”فرذند ہم انسان ہی تو ہیں۔جن کو کبھی جھولی بھر کر ملتا تو کبھی تہی دامن چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔اصل چیز اس در سے محبت ہے۔میں نے اپنی زندگی کے بہتر سال خانہ کعبہ آنے کی خواہش میں گزار دیئے۔

کتنا بڑا اتفاق ہے۔کوئی در پہ پینتیس سال کی عمر میں بلا لیا گیا اور اس نے کبھی کعبہ آنے کا سوچا بھی نہ ہو تو کوئی ستر سال گزار کر بھی بلاوے کا انتظار کرتا رہا۔میں بہتر سال بلک بلک کر روتا رہا،آنسو بہاتا رہے۔میں نے طویل سجدے کئے،اس در پہ آنے کے لئے سالوں کی رفاقت ہے۔میں نے انتظار کیا۔تم مجھ سے بہت بہتر ہو فرذند تم بلائے گئے ہو۔اس در پہ تم پہ خاص عنایت کی گئی جو تمہیں اس در پہ حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ورنہ ہم کیا ہیں ہماری نیکیاں کیا ہیں۔اپنے ماضی کی کوتاہیوں کی معافی مانگو تمہیں نجات کی خوشخبری مل لے گی”وہ تھوڑی لمبی گفتگو کے بعد خاموش ہوئے تو بارش بھی اپنا زور دیکھانے کے بعد اب تھم گئی۔میں نے حیرانگی سے ان کی طرف دیکھا،شاید میں بہت خوش قسمت ہوں جو بلایا گیا ہوں۔میرے آنسوؤں میں شدت آ گئی۔میں بمشکل اپنے ضبط پہ قابو پانے کی کوشش کی۔اب تو بارش بھی رک چکی تھی۔ورنہ شاید میرے آنسو چھپ جاتے۔میں کافی دیر ان کی طرف دیکھتا رہا جو پھر سے خانہ کعبہ کی طرف چہرہ کئے آنسو بہا رہے تھے۔طویل سجدے،لمبی راتوں کی عبادت سے بھی کچھ لوگ خدا کے گھر نہیں آ پاتے اور اس دنیا سے گزر جاتے ہیں مگر کچھ لوگ نوعمری سے ہی اس در سے ناطہ جوڑ کر پھر اس در سے کبھی جدا نہیں ہوتے۔ہم میں ہر مسلمان اسی خواہش میں ہی تو جیتا ہے مگر حاضری کا شرف نصیب والوں کو ملتا ہے۔شاید میں خوش نصیب تھا جس کے اعمال میں نیکیوں کا رجسٹر بالکل خالی تھی۔

ایک وقت کے لیے میں نے سوچا کہ اگر آج حشر کا دن ہوتا جب معافی کا ہر دروازہ بند ہوتا تو میں کیا کرتا۔شاید اللہ کریم کا رحم ہوتا جو میری بخشش ہو سکتی۔”فرذند،میرا نام علم الدین ہے۔میں نے اپنی زندگی کے تیس سال بچوں کی تعلیم و تربیت میں گزارے ہیں۔مختلف سکولوں میں پڑھایا ہے۔میرے شاگرد حکومتی اعلی عہدوں پہ فائز ہیں۔مگر افسوس میں اپنے بیٹے کو علم تو دے سکا مگر اس کی اچھی تربیت نہ کر سکا۔شادی کے بعد ہی اس نے مجھ سے علیحدہ ہو کر گھر لے لیا۔ماں بیٹے سے علیحدگی کے بعد ایک سال کے اندر ہی غموں کی آگ میں جھلستے اللہ کو پیاری ہو گئی اور میں بارہ سال سے مہینہ مہینہ پینشن سے عمرے کے لئے پیسے جوڑتا رہا۔اب جب اتنی رقم ہوئی تو ایک شاگرد کی مدد سے عمرے کے لئے درخواست دی۔اللہ بھلا کرے میرے شاگرد نے سب کچھ کیا اور مجھے ائیر پورٹ تک چھوڑ کر گیا۔آخری بار اپنے بیٹے اور بہو سے مل کر آیا ہوں۔اپنے تینوں پوتے پوتیوں کے سر پہ شفقت کا ہاتھ پھیر کر آیا ہوں۔مگر ان دونوں نے بالکل بھی نہ میرا حال احوال پوچھا۔میں نے اپنے بیٹے کے گھر پانی بھی نہیں پیا اور انہیں معاف کر دیا۔ان سے رخصت ہونے کے بعد اب معلوم ہوا کہ میرا وقت اب قریب ہے۔شاید ایک بار اس در پہ آنا میرے نصیب میں لکھا تھا۔میں دعا کر کے آیا تھا کہ میں یہیں مدفون ہو جائوں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس مٹی پہ چلے مجھے اس خاک میں مل کر خاک ہونا ہے۔یہ دعا مانگ مانگ اب یہاں پہنچا ہوں تو یوں لگتا ہے اب واپسی کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ جسے سعادت نصیب ہو اسے خدمت کا موقع مل جاتا ہے ورنہ کوئی در پہ آ کر بھی شرم سے دروازہ نہ کھٹکھٹائے تو دیدار سے محروم رہ جاتا ہے۔

فرذند دیدار کا مطلب یہی ہے کہ ہم اللہ کا در کھٹکھٹائیں اور ہمیں خالی ہاتھ نہ لوٹایا جائے۔جب اللہ نے تمہیں اپنے در پہ بلا لیا تو پھر تم کیوں اتنے شرمسار ہو۔گناہوں پہ معافی مانگوں تمہیں سکون ملے گا”اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ان کی کہانی طویل اور درناک تھی۔بزرگوار سے ملنے کے بعد میرے اندر تجسس پیدا ہوا کہ آپ یہاں پہ اکیلے ہی کیوں آئے ہیں۔آپ کو کوئی تو سنبھالنے والا ہونا چاہئے مگر انہوں نے میرے ہر سوال کا جواب دے دیا۔میں ابھی مزید گفتگو جاری رکھنا چاہتا تھا مگر مزید کچھ نہ کہہ سکا۔وہ بزرگ اب اپنا سر اٹھا کر مسجدالحرام کی دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ان کا رخ اب بھی خانہ کعبہ کی طرف تھا۔وہ خانہ کعبہ پہ نظر جمائے آنسو بہا رہے تھے۔شاید اس وقت ہر مومن کی حالت یہی ہوتی ہے۔چند گھنٹوں تک جاری رہنے والی موسلادھار بارش اب مکمل طور پر تھم چکی تھی۔حرم پاک کے در و دیوار ابرحمت کی وجہ سے مزید چمک گئے۔۔بارش کے بعد حرم پاک میں کھڑا ہونے والا پانی بھی اب بہہ گیا۔میں اس وقت اس بزرگ علم الدین کی طرح دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اپنی آنکھیں موند لیں۔کاش ہم مسلمان جب بھی آنکھ کھولیں تو حرم پاک ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔اس وقت میں آنکھیں موندے لیٹا نہ جانے کب نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔مجھے اس وقت ایسے محسوس ہوا جیسے میں صدیوں سے پرسکون نیند نہیں سویا۔حرم پاک جگہ ہی ایسی ہے سب غم بھلا دیتی ہے۔میں اس وقت پرسکون سو رہا تھا جب بزرگوار علم الدین نے مجھے اٹھایا اور بولے”بیٹا اٹھ جاؤ،تہجد کا وقت گزرتا جا رہا ہے اذان فجر ہونے میں بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے”وہ مجھے اٹھا کر اٹھ گئے اور مجھے وضو کے لئے جگہ بتا کر خود وضو کرنے چلے گئے۔

ایک پرسکون سا ماحول تھا۔ایسا ماحول تو کبھی ہمیں گھر میں بھی نہیں ملا۔عمرہ کے لئے آنے والے زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔میں نے جلدی سے وضو کیا اور پھر دو رکعت نماز تہجد کے نوافل ادا کئے۔اس وقت تیز ہوا چل رہی تھی جس کی وجہ سے ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا۔میں کچھ دیر ذکر خدا میں مصروف ہو کر حرم شریف کی طرف دیکھتا رہا۔حرم شریف اتنا پرکشش تھا کہ میں دنیا کی ہر ایک چیز سے بالکل بیگانہ ہو گیا۔اتنے میں فجر کی اذان شروع ہو گئی تو وہ بزرگ علم الدین میرے پاس آ کر براجمان ہو گئے۔”کیوں فرذند،کیسا لگا حرم شریف میں نماز ادا کرنا اور کعبہ کا طواف کرتے ہوئے تم نے خود کو کیسا پایا”انہوں نے خوش مزاجی سے مجھ سے سوال پوچھاان کی باتیں سن کر میں کچھ کھو سا گیا”مجھے ابھی تک ان سوالوں کے جواب نہیں ملے بزرگوار،میں تو ابھی تک یہ سوچ رہا ہوں کہ آخر میں نے ایسی کونسی نیکی کی تھی جو مجھے یہ در نصیب ہوا۔حقیقت مانیں،میں نے حرم پاک کے علاوہ دنیا کی کسی بھی جگہ کو اپنے لئے پرسکون نہیں پایا”میری بات سن کر وہ مسکرائے”جانتے ہو فرذند،اس دنیا میں ہم خساروں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور خسارے میں ہی چلے جاتے ہیں۔دور جدید میں ہمارے لئے بس دنیاوی خسارے ہی عمر بھر کے خسارے ہیں۔ہم بہترین علم حاصل کرنے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں مگر اس علم پہ کبھی بہتر عمل نہیں کر سکے۔ہم دنیا سے،غیر مسلموں سے نہیں ہارے،ہم نے خود دنیا کے ہاتھ میں اپنی جیت تھمائی ہے۔بیٹا حلال کمانے میں سکون ہے۔

زیادہ پیسا بھی سکون میں رہنے نہیں دیتا۔ہم دنیا کو ساٹھ سال دے دیتے ہیں مگر پورے دن میں اس اللہ کو ساٹھ منٹس بھی نہیں دے سکتے جو ہمیں ساٹھ سال کی سانسیں دیتا ہے”وہ خاموش ہوئے تو ان کی باتوں سے میں مزید الجھ سا گیا تو ان سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا”کیا میں بھی حرام کماتا ہوں۔جو میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے ہوٹل میں دن رات کام کرتا ہوں۔اپنے لئے نہیں اپنے بچوں کے لئے،بیوی کے لئے اور ماں باپ کے لئے””بیٹا میں تم سے دوہری عمر سے بھی زیادہ کا ہوں،میں آج تک جتنا بھی کماتا رہا اپنے بیوی بچوں کے لئے،مگر میرا بیٹا دیکھو مجھے کیا صلہ ملا،میرا بیٹا مجھے تنہا چھوڑ کر اپنے بچوں کے ساتھ علیحدہ ہو گیا۔ہم انسانوں کے لئے اتنا کچھ کما کر کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔اس لئے اگر حقوق العباد پورے کرنے ہیں تو حقوق اللہ کا بھی خیال رکھو۔یہ مکافات عمل ہے کہ انسان جو بوتا وہی کاٹتا ہے”اتنا کہہ کر وہ بھی خاموش ہو گئے۔میں ان کی باتوں پہ غور کرنے لگ گیا جب انہوں نے مجھے کندھے سے ہلا کر فجر کی سنت ادا کرنے کا کہا۔میں نے ان کے ساتھ کھڑے ہو کر فجر کی سنت ادا کیں اور پھر جماعت کے ساتھ نماز فجر ادا کی۔حرم شریف میں وہ میری پہلی باقاعدہ باجماعت نماز تھی۔فجر کی نماز ادا کر کے ایک دلی سکون ملا۔وہ میری زندگی کی تیسری فجر کی نماز تھی۔اس سے پہلے میں صرف دو بار ہی فجر کی نماز پڑھ سکا۔پہلی بار جب میرے دادا ہسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے اور دوسری بار تب جب میں سکول میں ٹرپ پہ گیا تھا۔میرے عمل اتنے کمزور تھے کہ ان میں کوئی نیکی تھی نہ نماز پھر بھی مجھ پہ رحم کیا گیا۔میں اس رحمت کے لئے کبھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔ہم لوگ دعا کے بعد طواف کعبہ میں مصروف ہو گئے۔خانہ کعبہ کا طواف مکمل کرنے کے بعد میں پھر سے طواف کرنے والوں سے دور تنہا بیٹھ کر خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔کتنے ہی لوگ تھے جو عقیدت سے آئے تھے۔بلائے گئے تھے۔یہ لوگ کتنے پارسا ہیں جو اللہ کے گھر کو ہر جگہ آباد رکھتے ہیں۔

میری آنکھیں پھر سے بہنے لگیں۔نہ جانے میری آنکھوں میں اتنے آنسو کہاں سے آ گئے تھے۔میں بار بار اپنی آنکھیں صاف کرنے لگا۔ایسے لگتا تھا جیسے میرے اندر آنسوؤں کا ایک سمندر تھا جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں اشکبار تھیں۔وہاں ہر پتھر دل موم ہو چکا تھا۔شاید رات اتنی بارش نہیں ہوئی تھی جتنے لوگوں نے آنسو بہا دیئے تھے۔میرے ضبط کا دامن اس وقت جواب دے گیا جب میں نے خود حجر اسود کے بالکل پاس پایا۔میں دیر سےحجر اسود کے پاس بیٹھا تھا اور مجھے خبر بھی نہ تھی۔میں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ حجر اسود چوما۔ایک اور کرم جو مجھ پہ کر دیا گیا۔ایک بار پھر سے مجھ پہ رحمت کر دی گئی۔ایک گناہ گار پہ اتنا کرم کیوں؟میں وہیں سجدے میں گر گیا اور میرے ضبط کا پھر سے دامن جواب دے گیا۔خانہ کعبہ آنے کے بعد مجھ پہ رحمت کی بارش ہوئی۔مجھے علم الدین جیسے بزرگ ملے اور اب حجر اسود کو بوسہ دینے کی توفیق بھی مل گئی۔تھوڑی دیر میں ہی ہجر اسود کے پاس لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا تو میں کچھ فاصلے پہ کھڑا ہو کر نوافل ادا کرنے لگا۔اس وقت سورج پوری آب و تاب دیکھانے کے لئے طلوع ہو چکا تھا۔مکہ شہر میں وہ سورج کی پہلی کرن تھی جو مجھ پہ پڑی اور میں اس وقت نوافل پڑھ کر سلام پھیر چکا تھا۔تھوڑے فاصلے پہ ہی وہ بزرگ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔وہ ابھی ابھی طواف کعبہ سے فارغ ہوئے اور مجھے تلاش کرتے کرتے وہاں پہ پہنچ گئے۔مجھےاس وقت افسوس ہوا کہ میں ان کو بھول گیا۔جو اب میری تلاش میں مجھ تک پہنچ چکے تھے۔میں نے آنسو صاف کرتے ہوئے ان کے پاس جا بیٹھا اور پھر خانہ کعبہ کی طرف دیکھنے لگا۔ان ہزاروں زائرین میں صرف میں ہی تھا جو بے نمازی اور گناہگار تھا۔جسے دنیا کی ہر چیز میسر تھی اور عمرہ کی نیت کرتے ہی میرے لئے بلاوے کا سبب بن گیا۔میں مزید آنسو اب نہیں بہانا چاہتا تھا مگر ہر بار ضبط جواب دے جاتا۔میں نے ہاتھ سے اپنے رخساروں کو چھوا جو آنسوؤں سے تر ہو چکےتھے۔

ازقلم/اویس

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!
[hcaptcha]