قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیونکہ قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر کے در حقیقت اپنے جذبہ عبودیت کا اظہار کرتا ہے نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے زکوٰة انسان کے مال وزر کی قربانی ہے حج بیت اللہ انسان کی ہمت مال و زر کی قربانی ہے قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے جانور ذبح کرکے قربانی دینے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام خواہشات نفسانیہ کو ایک ایک کر کے ذبح کر دیا جائے” اللہ تعالی نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر فرمائی لیکن اُسکا خاص طریقہ مقرر فرمایا لیکن ہر قربانی پر اللہ کا نام لینا ضروری قرار فرما دیا قران مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ” تم اپنے رب کے لیے نماز اور قربانی کرو “ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا کہ” اللہ تعالی کو ہر گز اُنکے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون ہاں تمھاری پرہیز گاری اُس کی بارگاہ میں پہنچتی ہے” یعنی تقوی اور پرہیز گاری اللہ کے نزدیک پسند یدہ ترین ہے اگر انسان نیت صحیح رکھ کر کسی جانور کو قربان کرتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور قبولیت کا شرف حاصل کرتا ہے قربانی کا تصور ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔
قربانی دین اسلام میں انتہائی اہمیت کے فرائض میں سے ہے درحقیقت بندہ اپنی جان ومال کی قربانی دے کر اپنی بندگی کا اظہار اللہ تعالی سے کرتا ہے اللہ تعالی کو اپنے بندے کی یہ ادا اس لیے بھی پسند ہے کیونکہ اس عمل میں بندے کو صرف اللہ کی خوشنودی اور رضا کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنا ہوتا ہے عجیب منظر تھا جب باپ نے اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں ، بتا تیری کیا مرضی ہے ؟ ” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے یہ رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گا ورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمانبرداری دیکھئے وہ بیٹا بھی تو کوئی عام بیٹا نہیں تھا وہ بھی آخر خلیل اللہ کے فرزند ارجمند تھا اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبہ پر فائز تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلب اطہر سے آقائے دو جہاں تاجدارانبیائ،شفیع روزجزا، جناب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اپنے نورمبین سے اس جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے اس لیے وارث نبوت نے بھی اطاعت کی حد کر دی آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ ابا جان مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے ؟میری خطا کیا ہے؟ جو آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں، بلکہ قربان جائوں! اس بیٹے پر جس نے نہایت عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردن جھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے فرماں بردار بیٹے نے خدا کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور کہنے لگا کہ اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو انشا اللہ آپ مجھے صابر اور فرماں بردار پائیں گے۔
اس گفتگو کے بعد بیٹا قربان ہونے اور باپ اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کیلئے جنگل کی طرف روانہ ہوگئے باپ نے بیٹے کی مرضی کے بعد چھری کو تیز کیا۔ بیٹے کو مذبوح جانور کی طرح ہاتھ پیروں سے باندھ دیا پھر حضرت ابراہیم نے گدی کی طرف سے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تھا تاکہ بوقت ذبح وہ اپنے محبوب بیٹے کا چہرہ نہ دیکھ سکیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بیٹے کو عام جانوروں کی طرح پہلو کے بل لٹایا تھا اور اس کی پیشانی ایک جانب سے زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھی مفسرین کا کہنا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے بیٹے کے حلق پر چھری چلا دی اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش میں بھی سرخرو ہوگئے لیکن چھری چلانے سے کچھ بھی نہ کٹا تو اس وقت خالق کائنات کی طرف سے آواز آئی اے ابراہیم یقینا تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا یعنی ہم آپ کی جو جو آزمائش کرنا چاہتے تھے وہ مکمل ہو چکی حضرت ابراہیم اللہ تعالی کی ہر آزمائش میں ثابت قدم اور کامیاب نکلے۔ اللہ تعالی نے فرمایا یقینا یہ کھلا امتحان تھا اور فرمایا ہم نے ایک بڑا ذبحہ اس کے فدیہ میں دیدیا۔
اب لڑکے کو چھوڑ اور تیرے پاس جو یہ مینڈھا کھڑا ہے اس کو اپنے محبوب بیٹے کے بدلے میں ذبح کر ہم نیکو کاروں کو اسی طرح اپنی رحمتوں اور نوازشوں سے نوازتے ہی لہذا حضرت ابراہیم نے حکم خداوندی کی تعمیل کی اور اس مینڈھے کو ذبح کیا رب ذوالجلال کو حضرت اسماعیل کی فرماں برداری اور حضرت ابراہیم کی یہ عظیم قربانی ادا اور عبادت اتنی پسند آئی کہ بطور یادگار کے ہمیشہ کیلئے ملت ابراہیم کا شعار قرار پائی اور آج بھی ذی الحجہ کی دس تاریخ کو تمام دنیا اسلام میں یہ قربانی اور شعار اسی طرح منایا جاتا ہے اس مہینہ کے شروع کے دس دن اور راتیں خصوصی فضیلت کی حامل ہیں ،ان کی عظمت و فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ خود اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ”و لیال عشر“فرماکر انہیں دس راتوں کی قسم کھائی ہے ۔ دوسری جگہ ان کو ” ایام معلومات “ فرماکر ان میں خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالی کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ رسول کریمؐ کا ارشاد ہے کہ :”کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو“۔لہذا ان دس دنوں اور راتوں کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان میں ذکر و اذکار ، دعاوں اور عبادات کا خصوصی اہتمام کرنا ضروری ہے اونٹ، گائے، بھینس، بکری اور بھیڑ(نر ومادہ ) ان جانوروں کی قربانی کرنا جائز ہے ان جانوروں میں سے بھیڑ اور بکری کا ایک سال ،گائے اور بھینس کا دو سال اور اونٹ کا پانچ سال کم از کم عمر ہونا قربانی کے لیے ضروری ہے ،اس سے کم عمر ہوتو اس جانور کی قربانی جائز نہیں ہے ۔
البتہ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہو اگرچہ عمر کم ہو تو بھی قربانی جائز ہے قربانی کے ان جانوروں میں سے اونٹ گائے اور بھینس میں سات آدمی بھی قربانی کے لیے شریک ہوسکتے ہیں لیکن کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہونا چاہیے اسی طرح سات سے کم افراد بھی مل کر ان جانوروں کی قربانی کرسکتے ہیں البتہ سب شریکوں کا قربانی یا عقیقہ کی نیت ہونا ضروری ہے ،محض گوشت کی نیت سے شریک ہونا جائز نہیں ہے قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبول ہو جاتاہے شرط صرف یہ ہے کہ قربانی کرنے والی کی نیت صحیح ہواور قربانی صرف اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے کی جائے خاص طور پر قربانی کا جانور حلال کمائی میں سے ہو قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جاتے ہیں ایک حصہ غربا ومساکین کا دوسرا ہمسائیوں اور رشتہ داروں کا اور تیسرا حصہ قربانی کرنے والا اپنے اہل وعیال کے لیے رکھتا ہے اگر خاندان بڑا ہو تو قربانی کا گوشت اپنے لیے بھی رکھ سکتا ہے بنیادی مقصد اللہ کی رضا ہے مساکین اور غربا کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ قربانی کا حقیقی مقصد پورا ہو سکے حضر ت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ) ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ انہوں نے پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اون کا کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اون کے ہر بال کے عوض میں بھی ایک نیکی ملے گی (مشکوة شریف) ہمارا دین اسلام ہے اور اسلام کا مطلب ہے کہ اللہ کے ہر حکم کے آگے سر رتسلیم ِ خم کیا جائے ، انسان کا ہر عمل اور اس کی پسند و نا پسند صرف اللہ کی مرضی کے تابع ہو ۔اللہ کی کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا و خوشنودی کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے ہمیں خود سے یہ سوچنا اور سمجھنا ہے کہ عید قربان پرجانور کی قربانی محض ایک رسم یا رواج نہیں بلکہ ایک اہم سبق حاصل کرنے ذریعہ ہے ۔ جانور کی قربانی اللہ کی فرمانبر داری کے سبق کا پریکٹیکل ہوتا ہے ۔ جس کے بعد سے اللہ رب العزت کی فرما برداری مزید احساس ہوتا ہے کہ حکم الٰہی پر صرف ایک جانور کی قربانی ہی نہیں بلکہ ہمیں ساری زندگی میں اللہ کی رضا کی خاطر اپنے مال واسباب ، تن من ، اولادغرض یہ کے ہر اُس خواہش اور حسرت کی قربانی دینی ہے جس سے ہمارا رب راضی ہو جائے۔