میں صرف نرہ صحافی ہوں یوں تو یہ پیغمبرانہ پیشہ ہے لیکن میرے پیشے کو بدنام کرنے کے لئے پاکستانی عرف عام میں لفافہ کہتے ہیں بتدریج وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ لفافے کی شکلیں بھی بدل گئی ہیں لفافے پر نوحہ گری اور قصیدہ خوانی کیا کروں کہ تعفن پھیل کر چھینٹے اپنے دامن کے اوپر ہی گریں گے زندگی رہی تو یہ کہانی پھر سہی چونکہ میں اور میری طرح کے ہزاروں صحافی اس وقت بھی لفافوں،پلاٹوں شرابوں اور کبابوں سے بالکل بے نیاز ہیں ہمارا ایمان ہے کہ قیامت بالکل برحق ہے اور ہر عمل کا حساب اور جزا و سزا ہو گی تحریر اور زبان سے ادا ہونے والے الفاظ جہاں دانستہ طور پر ڈنڈی ماری جائے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ لکھنے بولنے کا کڑا حساب ہوگا دین تک پہنچنے کا راستہ دنیا سے ہی ہوکر گزرتا ہے ذاتی عبادت میں کمی کوتاہی غفلت کی معافی شاید بشری تقاضوں کے تحت ہو ہی جائے لیکن انسانوں یا ملک و قوم کے مفادات کے برعکس وہ کر دکھانا یا بیان کرنا جو سچ نہیں ہے اس کی پکڑ بہت زیادہ ہے میں ذاتی حیثیت میں ان پاکستانی صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو حق اور سچ کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں ہیں اور اپنی جان اور نوکریاں داؤ پر لگاکر لوہے کے چنے چبانے کے مترادف جانفشانی سے عوام کے ایشوز کو اجاگر کرتے ہیں اور حقیقی تصویر عوام کو دکھاتے ہیں اور آزادی اظہار رائے کے لئے کوشاں رہتے ہیں پاکستان میں آئیندہ آنے والے چند گھنٹے الیکشن کی مناسبت سے پوری قوم اور ہمارے ملک کے لئے بہت اہم ہیں میں نے اپنا ابتدائیہ اس لئے طویل لکھا ہے بلکہ صحافیوں کو ہی موضوع اس لئے بنایا ہے کہ ہمارے ملک میں شفاف انتخابات کے زریعے اگر جمہوریت معرضِ وجود میں آجائے تو صحافت بھی آزاد ہو گی آزادی اظہار رائے ملک میں جمہوریت کے بغیر ممکن نہیں جمعوریت کی بقاء انسانی حقوق کی پاسداری میں ہے اداروں کی آزادی مقتدرہ اور سیاسی اشرافیہ نے نہ صرف صحافت کے حصے بخرے کیے ہوئے ہیں بلکہ ہمارا پیشہ پراگندہ کیا ہوا ہے ۔
پاکستان کے مروّجہ آئین کے مطابق پارلیمانی نظام حکومت عین برطانوی پارلیمانی طرز کا ہے جہاں مجھے رہتے ہوئے 30 سال ہوگے ہیں جہاں پر مجھ جیسے لوگوں کو جمہوریت کا پھل انجوائے کرنے کا موقع ملتا ہے اور قانون اور انصاف برابری کی سطح پر مقامی اور غیر مقامی افراد کو یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے یہ جمہوریت کا حسن ہے یہاں ہر پارٹی انتخابات سے پہلے اپنا ایک منشور پیش کرتی ہے پھر بڑی بڑی تین چار پارٹیوں کے لیڈروں کے درمیان پالیسیوں کے حوالے سے مناظرے ہوتے ہیں پھر الیکشن والے دن سرکاری طور پر الیکشن کی چھٹی نہیں ہوتی۔
عوام اپنے کام پر آتے جاتے صبح سات بجے سے رات دس بجے تک ووٹیں دیتے رہتے ہیں پولنگ ایجنٹس اپنی اپنی پارٹیوں کے مانیٹرنگ کرتے رہتے ہیں عملہ دیانتداری سے قانون اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرتا ہے ڈور ٹو ڈور پارٹیوں کے امیدوار ووٹروں کی منت سماجت کرتے ہیں کہ اکر ووٹ کاسٹ کریں ایک ووٹ ادہر سے ادہر نہیں ہوتا نہ پولیس نظر اتی ہے نہ فوج – نہ ریٹرننگ آفیسرز کسی کو کسی کے حق یا خلاف ووٹ ڈالنے کا کہہ سکتا ہے نہ لاؤڈ اسپیکر نہ کوئی رولا نہ نعرہ بازی نہ دھونس دھبہ ہلڑ بازی ہوتی ہے نہ رشوت ستانی نہ پلاٹوں رشوت ستانی اور نوکریوں کی آفرز ملتی ہیں الیکشن کا وقت ختم ہوتے ہی کسی بڑے ہال میں ووٹوں کی گنتی شروع اس طرح ہوتی ہے کہ عوام و میڈیا دیکھتا مانیٹرنگ کرتا رہتا ہے بار بار گنتی ہوتی ہے کہ کسی کا ووٹ مس نہ ہو جائے پھر الیکشن کا اعلان کردیا جاتا ہے الیکشن ایک ایسا موقع ہوتا ہے کہ عوام کسی کو اقتدار سے باہر کردیتے ہیں اور کسی کو اقتدار میں لے آتے ہیں پھر حکومت سازی کا مرحلہ آتا ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں الیکشن سے پہلے ہی الیکشن کو متنازعہ بنایا جاتا ہے کسی کو ہمارا نظام سہولت فراہم کرتا ہے اور کسی کو اوٹ کرتا ہے عوام کسی اور کو ووٹیں دیتے ہیں لیکن نتائج کسی اور کے حق میں نکلتے ہیں یہ امر افسوسناک اور شرمناک ہے موجودہ الیکشن بھی شروع دن سے ہی متنازعہ بن گیا ہے عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جارہا ہے اس سے الیکشن کا مزہ بالکل نہیں رہا ہے بلکہ بدمزگی اور انتشارات اور افراتفری زیادہ پھیلنے کا اندیشہ ہے مانا کہ 2018 میں میاں محمد نوازشریف کو ہروانے کے لئے یہی کچھ کیا گیا تھا لیکن جسطرح اس دفعہ پارٹی اور عام ورکروں کے ساتھ کریک ڈاؤن اس دفعہ ہورہا ہے اس کی مثال تو کبھی بھی ہماری نہیں ملتی مانا کہ عمران خان پر 9 مئی اور اسٹبلشمنٹ سے لڑائی اور مزاحمت کی سیاست کا الزام ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ10 اپریل 2022 کے بعد کے واقعات ہیں عمران خان کی چلتی حکومت ختم کرنے کے بعد ملک کو کتنا فائدہ ہوا ملک میں سیاسی اور معاشی بحرانوں نے اس کے بعد زیادہ شدت سے جنم لیا ہے پھر میاں محمد نوازشریف کو ملک میں لایا گیا اور انتخابات بقول جنرل نعیم خالد لودھی ایک اہتمام حجت ہے پوچھنا یہ ہے کہ جب ملک کی سب سے بڑی وفاق کی جماعت کو توڑا جارہا ہے اور سارے سروے یہ بتاتے ہیں کہ انتخابی نشان چھن جانے اور پے درپے 45 سالوں کی سزائوں کے باوجود اگر عوام اس کے امیدواروں کو ووٹ دینا چاہتے ہیں تو پھر میں اور آپ اس کے راستے میں کیوں حائل ہیں پھر عوام کی مرضی اور تائید کے بغیر بننے والی حکومت ملک میں سیاسی،معاشی،جمہوری داخلی اور خارجی استحکام کیسے لاسکتی ہے میں ذاتی طور پر کسی جماعت کا نہیں لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ دو روایتی پارٹی سسٹم کے بعد ایک تیسری پارٹی ملک میں معرض وجود میں آئی جس کی ابیاری خود مقتدرہ اور عوام نے کی ہے جس میں عورتیں یوتھ حاضر اور ریٹائرڈ سب شامل ہیں عمران خان ایک فرد واحد کی خاطر پورے ملک اور پوری عوام کا غصہ اور ناراضگی کیوں مول لی جارہی ہے ملک میں تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے قصور وار لوگوں کے مقدمات سول عدالتوں میں چلائے جائیں تاکہ ملک میں ٹھہراو اور استحکام آئے ۔
آخر میں کراچی سے اپنے دیرینہ دوست اداکار نزر حسین کا ایک مراسلہ انتخابات کے حوالے سے کالم میں شامل کررہا ہوں ۔
"میرے پیارے ہم وطنو
پاکستان میں الیکشن کا چاند پوری اب و تاب سے چمک رہا ہے۔
لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی صوبہ پرستی، لسانیت اور مفاد پرستی کے سیاہ بادل چاند کی روشنی کو داغدار کرنے میں مصروف ہیں اور کچھ لیڈر بھی اس کالے بادل لسانیت اور نفرت کو اپنی تقریروں میں سپورٹ کر رہے ہیں ۔
ووٹ دیتے وقت صرف اتنا سوچیں کہ ہم سب سے پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں ہم نے ایسے لیڈر منتخب کرنے ہیں جوپورے پاکستان اور پاکستانیوں کی فلاح اور بہبود کیلئے اور دنیا میں پاکستان کے وقار کو بلند کرنے کیلئے کام کریں اگر ایسا ہوگیا تو اس میں ہم سب کا بھلا ہو گا ۔
قومی پرچم ان سیاسی پرچموں میں گم ہو گیا ہے،یہ وہ پرچم ہےجس کی سربلندی کیلئے پاک افواج کے جوانوں نےاپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔ان میں سے کسی شہید نے بھی صرف سندھ، پنجاب، پختونخوا ، بلوچستان کیلیے جان نہیں دی بلکہ پورے پاکستان کی بقاء کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں یاد رکھنا روز محشر ان کو بھی جواب دینا ہے ہم سب شہیدوں کے مقروض ہیں ۔