شادیوں کی رسومات اور ازدواجی زندگی

0

شادی ایک خوبصورت زندگی کا سفر یا بندھن ہے اور میاں بیوی کی لازوال محبت کا شاخسانہ بھی ہے اپنا گھر بسانے اور گھر کے آنگن میں پھول جیسے ننھے منے بچوں کے ساتھ زندگی کی شروعات کرنے کا بہترین اور احسن طریقہ بھی ہے اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے لئے پیدا کیا ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے شادیوں کے لئے کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں میں نے زندگی کے تقریباً ابتدائی27 سال کشمیر پاکستان کے دیہاتی اور شہری ماحول میں گزارے پھر برطانیہ و یورپ مڈل ایسٹ اور امریکہ تک کا سفر کیا ہر مذہب کا دین اسلام سے تقابلی جائزہ لیا اپنے پاکستانی کلچر کو دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں سے موازنہ کیا ہر مذہب رنگ و نسل کے لوگوں سے ملنے اور انکی تقریبات میں شرکت کرنے کا موقع ملا لیکن الحمدللہ دین اسلام نے شادی بیاہ کے لئے سادہ اور بہترین طریقے جو بتائے ہیں ہم مسلمان ان پر عملدرآمد کرکے نہ صرف کامیاب ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی، رحمتیں اور برکتیں بھی سمیٹ سکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ہم میں سے اکثریت نے بدقسمتی سے جانے انجانے میں دین اسلام کے رہنما اصولوں مروّجہ طریقہ کار کو چھوڑ کر ایسی بدعات اور رسم و رواج کو شادیوں کا حصہ بنا لیا ہے کہ جوڑے اور خاندان کے لئے اللہ کی خوشنودی کا حصول تو درکنار ہم بہت ساری اخلاقی اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔

لندن کے نواحی ٹاون کی مدینہ مسجد کے امام مولانا اقبال اعوان صاحب سے جب میں نے شادی یا نکاح کے بارے میں شرعی احکامات جاننے کی کوشش کی تو مولانا صاحب نے سیدھا سیدھا ایک لائن میں جواب دے دیا یعنی "اسلامی تعلیمات و احکامات کے مطابق دو گواہوں کی موجودگی میں مہر کے تعین کے ساتھ حجاب و قبول کرنے سے نکاح ہوجاتا ہے” اس کے بعد حسب توفیق ولیمے کے زریعے دوسرے لوگوں کو اطلاع دینی ہے کہ فلاں شخص کے بیٹے یا بیٹی یا جوڑے یا مرد اور عورت کا نکاح یا شادی ہوگی ہے ولیمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سُنت ہے اور اطلاع عام یا منادی کا سبب ہے نکاح کے بعد اسلامی نظام معاشرت یا خاندانی نظام میں نان و نفقہ یعنی بیوی کی رہاہش اور کھانے پینے کا پورا بندوبست یا ذمہ داری مرد کی ہے والد ، بھائی یا دیگر رشتہ دار عزیز و اقارب تحفے تحائف دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں مگر مروّجہ جہیز کی اسلام میں ممانعت ہے مثال کے طور پر دلھا یا لڑکے کے والدین یا سرپرست یہ مطالبہ کریں کہ لڑکی کے والدین اتنا جہیز دیں اس کی قطعاً اجازت نہیں اج کل اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح کرنا اسان ہے لیکن ہماری رسم و رواج لالچ ریاکاری دکھاوے نے نکاح کو مشکل بنادیا ہے جس کی وجہ سے نوجوان بچے بچیاں اپنی عمریں شادی کے بغیر گزار دیتے ہیں جہیز میں لڑکے والے اتنی زیادتی یا بے غیرتی کرتے ہیں کہ سوئی سلائی سے لے کر گھر کا سارا سامان لڑکی والوں سے تقاضا کرتے ۔

ہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق احسن طریقہ یہی ہے کہ شوہر اور بیوی کا نکاح آزادانہ ہو کوئی زبردستی نہ ہو لالچ کی بنیاد پر نہ ہو رشتہ طے کرتے وقت قفو یعنی برابری کا جو تصور ہے اس میں تعلیم و تربیت معاشرتی پس منظر میں بھی برابری کو اہمیت حاصل ہے لڑکی یا لڑکے کا رشتہ طے کرتے وقت ذات پات قبیلے کے فرق کی وجہ سے جوڑے کی خواہشات کے برعکس رکاوٹیں کھڑی کرنا بھی نامناسب ہے اصولی طور پر ہر بالغ نامحرم مسلمان مرد و عورت کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے یاد رہے کہ کہ کوئی بھی سرپرست جبر یا زبردستی اور دھونس دھبے کے زریعے نکاح نہیں کرواسکتا جس طرح جہیز کی ڈی مانڈ لڑکے والے نہیں کرسکتے ویسے ہی دلھن کے والدین یا سرپرست مہر کی ڈی مانڈ نہیں کرسکتے ہاں البتہ مرد اپنی توفیق کے مطابق مہر زیادہ سے زیادہ دینا چاہئے تو دے سکتا ہے پاکستانی مسلمانوں کی شادی بیاہ کی تقریبات اسلامی سے زیادہ متحدہ ہندوستان کے قدیم ہندو مزہب کی طرز پر ہوتی ہیں البتہ ان میں بے حیائی کی آمیزش جدت اور شدت آگئی ہے جس میں لڑکی کے والدین جہیز کے لئے اس کی پیدائش سے ہی خرید و فروخت شروع کردیتے ہیں ڈھول باجے ڈانس مانیاں تیل مہندی اور گانا بجانا شامل ہے مسلمانوں کی شادیوں کی تقریبات میں سادگی اس لئے ضروری ہے کہ اسلام سادگی اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے شادی میں خوشی منانا بالکل جائز ہے اجکل دیکھا گیا ہے کہ پہلے منگنی کی جاتی ہے اس کے لئے ایک دن مختص کیا جاتا ہے پھر ایک دن مانیاں ایک دن تیل مہندی پھر ایک دن نکاح ایک دن رخصتی اور ایک دن ولیمہ ہوتا ہے دلھا کو الگ اور دلھن کا ولیمہ الگ ہوتا ہے یہ پیسے اور وقت کا ضیاع ہے مشاہدہ میں یہ بھی آیا ہے کہ نکاح کرکے دلھا دلھن کو کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے چونکہ ان کے ماں باپ انکی رخصتی نہیں کرسکتے ظالمو جب نکاح ہوجاتا ہے تو میاں بیوی اپنی ازدواجی زندگی ایک ساتھ کیوں نہیں گزار سکتے اگر شادی کی تقریب ایک دن ہی ہو جائے۔

دولہا اور دلھن والے مل کر اخراجات کر لیں تو دونوں خاندانوں کے لیے اسانی ہو شادیوں کی تقریبات پر بے جا آخراجات کرتے وقت امیر زادوں کو اپنے ارد گرد کے غریب بچے بچیوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ کسطرح وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگیاں گزار رہے ہیں میرا ایمان ہے کہ ایسی شادیاں جن میں دکھاوا ریاکاری فضول خرچی لغویات ہوں ان سے الله کی رحمتیں اور برکات آٹھ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے ضروری ہے کے میاں بیوی کے درمیان احترام اعتماد بھروسہ اور باہم ہم آہنگی ضروری ہے ہم بیویوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ گھر کے سارے کام کریں کما کر بھی لائیں بچے پالیں مردوں کی چوھدراٹ بھی قائم رہے گویا ہم بیویوں کو نوکرانیاں سمجھتے ہیں اسلام میں کسی جگہ بھی گھر کی صفائی ستھرائی یا کھانا پکانے کی مردوں کو ممانعت نہیں عورت ماں بہن بیٹی ہے اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھنے کا حکم ہے جیسے تم دوسروں سے اپنی بہن بیٹی سے نیک اور اچھا سلوک پسند کرتے ہو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعویدار تو ہیں لیکن نبی کریم کے بتائی ہوئی سُنت پر چلنا نہیں چاہتے ارشادِ نبوی ہے تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ حُسن سے پیش آئے۔

شادی ایک خوبصورت زندگی کا سفر یا بندھن ہے اور میاں بیوی کی لازوال محبت کا شاخسانہ بھی ہے اپنا گھر بسانے اور گھر کے آنگن میں پھول جیسے ننھے منے بچوں کے ساتھ زندگی کی شروعات کرنے کا بہترین اور احسن طریقہ بھی ہے اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے لئے پیدا کیا ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے شادیوں کے لئے کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں میں نے زندگی کے تقریباً ابتدائی27 سال کشمیر پاکستان کے دیہاتی اور شہری ماحول میں گزارے پھر برطانیہ و یورپ مڈل ایسٹ اور امریکہ تک کا سفر کیا ہر مذہب کا دین اسلام سے تقابلی جائزہ لیا اپنے پاکستانی کلچر کو دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں سے موازنہ کیا ہر مذہب رنگ و نسل کے لوگوں سے ملنے اور انکی تقریبات میں شرکت کرنے کا موقع ملا لیکن الحمدللہ دین اسلام نے شادی بیاہ کے لئے سادہ اور بہترین طریقے جو بتائے ہیں ہم مسلمان ان پر عملدرآمد کرکے نہ صرف کامیاب ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی، رحمتیں اور برکتیں بھی سمیٹ سکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ہم میں سے اکثریت نے بدقسمتی سے جانے انجانے میں دین اسلام کے رہنما اصولوں مروّجہ طریقہ کار کو چھوڑ کر ایسی بدعات اور رسم و رواج کو شادیوں کا حصہ بنا لیا ہے کہ جوڑے اور خاندان کے لئے اللہ کی خوشنودی کا حصول تو درکنار ہم بہت ساری اخلاقی اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔

لندن کے نواحی ٹاون کی مدینہ مسجد کے امام مولانا اقبال اعوان صاحب سے جب میں نے شادی یا نکاح کے بارے میں شرعی احکامات جاننے کی کوشش کی تو مولانا صاحب نے سیدھا سیدھا ایک لائن میں جواب دے دیا یعنی "اسلامی تعلیمات و احکامات کے مطابق دو گواہوں کی موجودگی میں مہر کے تعین کے ساتھ حجاب و قبول کرنے سے نکاح ہوجاتا ہے” اس کے بعد حسب توفیق ولیمے کے زریعے دوسرے لوگوں کو اطلاع دینی ہے کہ فلاں شخص کے بیٹے یا بیٹی یا جوڑے یا مرد اور عورت کا نکاح یا شادی ہوگی ہے ولیمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سُنت ہے اور اطلاع عام یا منادی کا سبب ہے نکاح کے بعد اسلامی نظام معاشرت یا خاندانی نظام میں نان و نفقہ یعنی بیوی کی رہاہش اور کھانے پینے کا پورا بندوبست یا ذمہ داری مرد کی ہے والد ، بھائی یا دیگر رشتہ دار عزیز و اقارب تحفے تحائف دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں مگر مروّجہ جہیز کی اسلام میں ممانعت ہے مثال کے طور پر دلھا یا لڑکے کے والدین یا سرپرست یہ مطالبہ کریں کہ لڑکی کے والدین اتنا جہیز دیں اس کی قطعاً اجازت نہیں اج کل اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح کرنا اسان ہے لیکن ہماری رسم و رواج لالچ ریاکاری دکھاوے نے نکاح کو مشکل بنادیا ہے جس کی وجہ سے نوجوان بچے بچیاں اپنی عمریں شادی کے بغیر گزار دیتے ہیں جہیز میں لڑکے والے اتنی زیادتی یا بے غیرتی کرتے ہیں کہ سوئی سلائی سے لے کر گھر کا سارا سامان لڑکی والوں سے تقاضا کرتے ۔

ہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق احسن طریقہ یہی ہے کہ شوہر اور بیوی کا نکاح آزادانہ ہو کوئی زبردستی نہ ہو لالچ کی بنیاد پر نہ ہو رشتہ طے کرتے وقت قفو یعنی برابری کا جو تصور ہے اس میں تعلیم و تربیت معاشرتی پس منظر میں بھی برابری کو اہمیت حاصل ہے لڑکی یا لڑکے کا رشتہ طے کرتے وقت ذات پات قبیلے کے فرق کی وجہ سے جوڑے کی خواہشات کے برعکس رکاوٹیں کھڑی کرنا بھی نامناسب ہے اصولی طور پر ہر بالغ نامحرم مسلمان مرد و عورت کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے یاد رہے کہ کہ کوئی بھی سرپرست جبر یا زبردستی اور دھونس دھبے کے زریعے نکاح نہیں کرواسکتا جس طرح جہیز کی ڈی مانڈ لڑکے والے نہیں کرسکتے ویسے ہی دلھن کے والدین یا سرپرست مہر کی ڈی مانڈ نہیں کرسکتے ہاں البتہ مرد اپنی توفیق کے مطابق مہر زیادہ سے زیادہ دینا چاہئے تو دے سکتا ہے پاکستانی مسلمانوں کی شادی بیاہ کی تقریبات اسلامی سے زیادہ متحدہ ہندوستان کے قدیم ہندو مزہب کی طرز پر ہوتی ہیں البتہ ان میں بے حیائی کی آمیزش جدت اور شدت آگئی ہے جس میں لڑکی کے والدین جہیز کے لئے اس کی پیدائش سے ہی خرید و فروخت شروع کردیتے ہیں ڈھول باجے ڈانس مانیاں تیل مہندی اور گانا بجانا شامل ہے مسلمانوں کی شادیوں کی تقریبات میں سادگی اس لئے ضروری ہے کہ اسلام سادگی اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے شادی میں خوشی منانا بالکل جائز ہے اجکل دیکھا گیا ہے کہ پہلے منگنی کی جاتی ہے اس کے لئے ایک دن مختص کیا جاتا ہے پھر ایک دن مانیاں ایک دن تیل مہندی پھر ایک دن نکاح ایک دن رخصتی اور ایک دن ولیمہ ہوتا ہے دلھا کو الگ اور دلھن کا ولیمہ الگ ہوتا ہے یہ پیسے اور وقت کا ضیاع ہے مشاہدہ میں یہ بھی آیا ہے کہ نکاح کرکے دلھا دلھن کو کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے چونکہ ان کے ماں باپ انکی رخصتی نہیں کرسکتے ظالمو جب نکاح ہوجاتا ہے تو میاں بیوی اپنی ازدواجی زندگی ایک ساتھ کیوں نہیں گزار سکتے اگر شادی کی تقریب ایک دن ہی ہو جائے۔

دولہا اور دلھن والے مل کر اخراجات کر لیں تو دونوں خاندانوں کے لیے اسانی ہو شادیوں کی تقریبات پر بے جا آخراجات کرتے وقت امیر زادوں کو اپنے ارد گرد کے غریب بچے بچیوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ کسطرح وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگیاں گزار رہے ہیں میرا ایمان ہے کہ ایسی شادیاں جن میں دکھاوا ریاکاری فضول خرچی لغویات ہوں ان سے الله کی رحمتیں اور برکات آٹھ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے ضروری ہے کے میاں بیوی کے درمیان احترام اعتماد بھروسہ اور باہم ہم آہنگی ضروری ہے ہم بیویوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ گھر کے سارے کام کریں کما کر بھی لائیں بچے پالیں مردوں کی چوھدراٹ بھی قائم رہے گویا ہم بیویوں کو نوکرانیاں سمجھتے ہیں اسلام میں کسی جگہ بھی گھر کی صفائی ستھرائی یا کھانا پکانے کی مردوں کو ممانعت نہیں عورت ماں بہن بیٹی ہے اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھنے کا حکم ہے جیسے تم دوسروں سے اپنی بہن بیٹی سے نیک اور اچھا سلوک پسند کرتے ہو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعویدار تو ہیں لیکن نبی کریم کے بتائی ہوئی سُنت پر چلنا نہیں چاہتے ارشادِ نبوی ہے تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ حُسن سے پیش آئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!