کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام میں اس کی قومی زبان کا ملکی ترقی میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ پاکستانی تعلیمی نظام کو اپنی قومی زبان اردو میں ہونا چاہئے، چونکہ اس سے طلباء کی تعلیمی استمعاب، فہم، ثقافتی اور ملکی ترقی میں بہتری آتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ قومی یکجہتی کو بھی بڑھاتا ہے اور ملک کو مضبوط بناتا ہے۔ یاد رہے کہ قومی زبان کسی بھی قوم کو ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ زبان میں اپنے خیالات اور احساسات کو اظہار کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اپنی قومی زبان میں تعلیم دینے سے ایک انصافی نظام فراہم کیا جا سکتا ہے جہاں ہر فرد کو ایک جیسی تعلیم فراہم کی جائے۔ تمام مضامین کو اردو میں پڑھ کر طلباء کو سمجھنا، یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو گا، مثال کے طور پر طبیعیات، ریاضی یا ایسے تمام مضامین کے ہندسوں اور جبر کے مفاہیم کو اردو میں سمجھانے سے طلباء کو مضبوط بنیاد فراہم ہوتی ہے اور وہ اپنے انداز میں سوالات حل کرنے کی قابل بنتے ہیں۔
مزید اردو میں علوم کی تدریس سے طلباء کو علمی مضامین کو سمجھنے اور انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں اطلاق کرنے میں مدد ملے گی۔ مثال کے طور پر، زمینیات اور جغرافیہ کے مضامین کو اردو میں سمجھانے سے طلباء کو اپنے ملک کی جغرافیائی شرح، ماحولیاتی مسائل، اور معاشرتی موضوعات کی فہم میں مدد ملے گی۔ لہذا تمام مضامین کو اردو میں تدریس کرنا ضروری ہے تاکہ طلباء کی اردو میں مہارتیں بڑھیں اور ان کی تعلیم میں بہتری آئے۔ اس طرح، طلباء قومی تہذیب اور معیاری تعلیم کو سمجھتے ہوئے اپنے ملک کی ترقی کے راستے پر ایک مثبت قدم اٹھا سکتے ہیں۔کسی بھی تعلیمی نظام میں، مختلف زبانوں کو قومی زبانوں کے ساتھ اختیاری درجہ دینا ضروری ہے تاکہ طلباء کی مختلف زبانوں کی ضروریات کو مد نظر رکھا جا سکے۔
انگریزی، عربی، فارسی، اور دیگر زبانوں کو اختیاری مضامین کے طور پر فراہم کرنے سے طلباء کو اپنے ترجیحی زبانوں کا انتخاب کرنے کا اختیار ہونا چاہیے جو اپنی دلچسپیوں، کیریئر کی خواہشات، اور ذاتی اہداف کے مد نظر رکھتے ہوئے طلباء خود فیصلہ کریں کہ انہوں نے کونسی زبان سیکھنی ہے۔دینی تعلیم میں قرآن کی تفسیر اور احادیث کی تعلیم کو فراہم کرنا ایک اہم اور ضروری اقدام ہے۔ اس سے طلباء کو ایک متوازن اور وسیع تربیت حاصل ہوتی ہے، جو ان کی عقیدت، اخلاقیات، اور دینی علوم میں عمقی فہم کو فروغ دیتا ہے۔ دینی تعلیم کے شعبہ میں قرآن کی تفسیر کو شامل کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک اسلامی اقدار، اخلاقیات، اور زندگی کے اصول کا مختصر مکمل ضابطہ خیات ہے۔
طلباء کو قرآن کی تفسیر کے ذریعے ایمانی اور عقائدی مسائل کی سمجھ، اخلاقی قواعد، اور زندگی کے معیارات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن کی تفسیر کے ساتھ احادیث کی تعلیم بھی اہم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ لہذا قرآن کی تفسیر اور احادیث کی تعلیم سے طلباء کو متوازن تربیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ طلباء کی دینی، اخلاقی، روحانی، اور دنیاوی تربیت کو مکمل بناتی ہے، جس سے وہ ایک موزون شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔آج کل کے دور میں ہمارے اسکول میں ایک اور بڑا مسئلہ چھوٹی جماعت سے ہی کتب اور کاپیوں کا انبار ہے۔ ہر اسکول اپنے نام کے ٹائٹل کے ساتھ کاپیاں اور دیگر سٹیشنری فروحت کرتے ہیں جس سے انھیں اضافی منافع حاصل ہوتا ہے، اسکولوں نے یہ ایک علیحدہ کاروبار بنایا ہوا ہے ان کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ زیادہ کتب اور کاپیوں کی فراہمی سے تعلیمی معیار بہتر ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
ہماری توجہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ کسی بھی تعلیم کی معیاریت اور مطابقت کتابوں کی تعداد سے نہیں بلکہ اس کی ترتیب و تدریس سے حاصل ہوتی ہے۔ لہذا کتابوں اور کاپیوں کے انبار کو کم کرنا ایک اہم اقدام ہے. اس سے طلباء کی تعلیمی مقاصد میں بہتری حاصل ہوگی، ان کی مالی بوجھ کم ہوگا اور زیادہ سے زیادہ بچے سکولوں میں داخل ہو سکیں گے. طریقہ تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے چند دن کے لئے گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلیمی تجربات کا مبادلہ کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ ان کا تجربہ ایک دوسرے سے مشکل اور حل کی تجربات اور تعلیمی مواد کے اشتراک سے بڑھائیگا۔ایک بچے کی بہترین نشونما کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل بھی بہت اہم ہے کھیلوں کی فراہمی اور کھیلنے کا موقع طلباء کی صحت، دماغی ترقی، اور ان کے معاشرتی اور فردی ترقیات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کھیلوں کے دوران، طلباء کو استقلالیت، تصمیم، اور استحکام کا موقع ملتا ہے جو ان کے دماغی فروغ میں بہتری فراہم کرتا ہے۔
چناچہ ایسے سکول جو کھیلوں کے میدان کے بغیرہیں وہ طلباء کی ترقی اور صحت کے لحاظ سے مکمل نہیں ہیں۔ لہذا ایسے سکول جو پلازوں یا بند گھروں میں بنے ہیں فورا بند کر دینے چاہییں. تعلیم و تربیت کے ذریعے، افراد کو علم، فہم، اور اخلاقی اصول سکھائے جاتے ہیں، جو انہیں معاشرتی روایات اور قیمتوں کو سمجھنے اور ان کے ساتھ موافق طور پر عمل کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ ایک بہتر تعلیمی نظام انسانی منصوبہ بندی، تجدیدیت، اور خلاقیت کو بڑھاتا ہے، جو معاشرتی ترقی کی بنیاد بنتا ہے. ایک معاشرتی نظام جو تعلیم و تربیت کو اہمیت دیتا ہے، وہ اپنے افراد کو زندگی کے مختلف پہلووں میں کامیابی اور سکون کی راہ میں رہنمائی کرتا ہے اور ملک کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔