ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد محترمہ بےنظیر بھٹو نے نعرہ لگایا تھا کہ ” ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے” اور زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ” کا نعرہ بھی لگایا اور بھٹو زندہ جیالوں کے لئے طاقت بنا اور مخالفین نے اس نعرے کا مذاق اڑایا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو زندہ ہے کا مذاق اڑانے والوں کی سیاست بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے نام کے بنا ہمیشہ ادھوری رہی بھٹو شہید درست کہا کرتے تھے ” بھٹو ایک نہیں دو ہیں ایک وہ ہے جو آپ کے سامنے کھڑا ہے اور ایک وہ ہے جو آپ کے دلوں میں بستہ ہے "
رواں برس پاکستان کی سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے جواب میں ذوالفقار علی بھٹو کو زندہ ہی نہیں کیا بلکے انہیں انصاف دیکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر بھی کر دیا ہے اور اب نعرہ ” بھٹو زندہ ہے اور بھٹو امر ہوا ہے بن چکا ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دینے سے ضیاءالحق اور اسکے حواریوں کے منہ پہ ایسا زور دار تھپڑ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو جائز سمجھتے تھے مگر ان سب باتوں کے باوجود ایک تسلی ضرور ہوئی ہے کہ پاکستانی تاریخ کے بے شمار اور ان گنت واقعات میں سے ایک ایسے فیصلے کو درست کیا گیا ہے جو انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر ناانصافی کرکے تاریخ کے اوراق میں درج کیا گیا تھا قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور خان لیاقت علی خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ہی ایسے لیڈر تھے جو ایک سیاسی اور جمہوری لیڈر بنے بھی اور کہلائے بھی گئے ان کی صلاحتیں ان کی شخصیت کی طرح جاندار اور شاندار تھیں وہ سیاسی چالوں سے زیادہ جمہوری سوچ کے ساتھ ساتھ ترقی پسندانہ سوچ کے فروغ کے حامی تھے۔
بھٹو شہید مزدور اور کسان کے حامی تھے اور یہی بات انہیں دوسروں سے منفرد کرتی تھی کہ وہ جاگیردار گھرانے کے فرد ہوتے ہوئے بھی ایک غریب پرور انسان تھے ان میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں جو پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر سکتے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسی بیمار اور گھٹیا سوچ کی بھینٹ چڑھ گئے جس کا شکار ہمیشہ سے پاکستان رہا ہے اور یہی سوچ پاکستان کو آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہے بلکے اب یہ سوچ محلاتی سازشوں سے نکل کر عوام کے اندر سرایت کر چکی ہے اور یہ سوچ ہے اجارہ داری کی یہ سوچ ہے خود کو ملک سے بالاتر سمجھنے کی یہ سوچ ہے خود کو مقدس گائے سمجھنے کی اور یہ سوچ ہے ملک اور اسکی عوام کے مستقبل کو تاریک بنانے کی قوم کو تقسیم کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی اور یہ سوچ ہے اقتدار کی جس میں جمہور کی جگہ محض کرسی نے لے لی ہے۔
پیپلزپارٹی اس اعتبار سے بہت خوش قسمت جماعت ہے جسکے پاس بھٹو شہید کی ترقی پسندی کی سوچ ہے اور محترمہ بےنظیر بھٹو شہید جیسا جوش ہے ولولہ ہے جسکی بدولت آج ملک کی تمام تر سیاسی جماعتوں میں پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ اور دیگر رہنما سیاسی اور جمہوری سوچ میں سب سے آگے ہیں مگر اب پیپلزپارٹی کو پنجاب میں متحرک ہونا ہوگا کیونکہ یہ سوچ پنجاب میں مقبول کرنے کی اشد ضرورت ہے مگر اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تنظیم نو کرنا ہوگی اور ایسے ان تمام لوگوں کو سامنے لانا ہوگا جو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے وژن کی عکاسی کر سکیں اور اسی طرح سندھ کے ایسے جاگیرداروں کو بھی بھٹو ازم سے ہمکنار کرنے کی ضرورت ہے جو کہیں نا کہیں عوامی استحصال کے مرتکب ہوتے ہیں اور عوامی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنتے ہیں ۔
بہرحال بھٹو شہید آج ہم میں نہیں ہیں مگر جیسا کہ انہوں نے کہا تھا وہ دلوں میں بستے ہیں تو وہ اپنے سیاسی طرز عمل کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے اور امر رہیں گے اور عوام کو بھی چاہئے خصوصاً نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سیاست کا مطالعہ کریں ان کے کارہائے نمایاں کو دیکھیں کہ کس طرح انہوں نے ایک بکھرے ہوئے اور ٹوٹے ہوئے ملک کو یکجان کیا کیسے ایک متفقہ آئین دیا اور کیسے ایٹم بن کی بنیاد رکھ کر ہمیشہ کے لئے ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔