حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ تاریخ کو پلٹ کر رکھ دیا ہے ضمنی انتخابات میں اس مفروضے کو بھی رد کر دیا ہے کہ وفاق اور صوبے میں جس کی حکومت ہوتی ہے وہی زیادہ تر ضمنی انتخابات جیتتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور اسکے اتحادیوں کی حکومت ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے مسلم لیگ ن کی ضمنی انتخابات میں ہار کے جو بھی محرکات رہے ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کو سیاسی میدان میں پچھاڑ کر رکھ دیا ہے اگر دیکھا جائے تو ضمنی انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن مزید سمٹ چکی ہے اس کی پنجاب پر گرفت انتہائی کمزور شکل اختیار کر چکی ہے اور مخالفین نظر میں جی ٹی روڈ کی پارٹی کے بعد اب مسلم لیگ ن پنجاب کے چند اضلاع تک محدود ہوچکی ہے اور اب پنجاب تخت چھن جانے کے بعد مسلم لیگ ن کی وفاق میں بھی حالت انتہائی کمزور ہوچکی ہے اور میاں شہباز شریف کے سامنے ملک سمیت پارٹی کو بچانے جیسے کئی ایک چیلنجز سر اٹھائے کھڑے ہیں،جو یقیناً شہبازشریف کے بس کی بات نہیں ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرز سیاست پر ہمیشہ اصولی تنقید کی ہے جس کا سلسلہ یقیناً آئندہ بھی جاری رہے گا وہیں مسلم لیگ ن کے قائدین کی جانب سے جو وطیرہ اپنایا گیا ہے وہ شاید ان کی ذات کو محفوظ ضرور بناتا ہو مگر ملک و قوم اور پارٹی امور کے حوالے سے انتہائی غیر موزوں رویہ ہے جس کا خمیازہ اب شاید انہیں مزید بھگتنا پڑے گا دو ہزار اٹھارہ کے بعد سے لیکر اب تک مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت ملک سے باہر بیٹھ کر اپنی اور ملک کی قسمت کے فیصلے کرتی چلی آ رہی ہے مگر اس دوران پارٹی ورکرز تقسیم ہوئے اور سیاسی میدان میں لیڈر شپ کی کمی کا شکار ہوکر پارٹی کے لئے غیر فعال ہوگئے پارٹی کے دیگر قائدین کی صورتحال یہ ہے کہ وہ میاں نوازشریف کی غیر موجودگی میں طاقت میں ہوتے ہوئے بھی وزیر کا عہدہ ہوتے ہوئے بھی بیرون ممالک دوروں کے دوران عمران خان کی احتجاجی سیاست سے سہمے اور ڈرے ہوئے نظر آئے اور بیرون ممالک مقیم لیگی کارکنان کا حوصلہ بڑھانے کہ بجائے ان کے سامنے عمران خان کی اپوزیشن سے گھبرائے ہوئے پائے گئے۔
اس دوران میں نے اپنے ایک صحافی دوست سے کہا تھا کہ ” ان تلوں میں اب تیل نہیں رہا ہے ” اور وقت ثابت کر رہا ہے کہ مسلم لیگ ن نے خود کو وقت کے ساتھ ساتھ اپ ڈیٹ نہیں کیا ہے اور وہی پرانی طرز سیاست کی بوسیدہ عمارت میں رہ کر اب آہستہ آہستہ گمنامی کی طرف بڑھ رہی ہے دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر خود کو اپ ڈیٹ کیا اور ہارا ہوا میچ جیت کر سیاسی میدان میں سرخرو ہوکر کھڑی ہے جناب عمران خان کے پاس بھلے سیاسی وژن ہو نا ہو مگر اس جماعت کی جو سب سے بڑی خاصیت سامنے آئی ہے وہ عوام میں اپنی مقبولیت کے وہ تمام راستے اپنانے کی ہے جن سے جناب عمران خان کے بیانیے نے عوام کے اندر سرایت کیا ہے اور اسی کو سیاست کہتے ہیں۔
جبکہ دوسری جانب تمام سیاسی جماعتوں میں اسکا فقدان پایا جاتا ہے سیاسی منظر نامے اب تبدیل ہو رہا ہے اور اب ایک اور تاثر تبدیل ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ تک محدود رہے گی مسلم لیگ ن پنجاب تک اور پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخواہ تک محدود رہ کر سرکار بنائے گی مگر ضمنی الیکشن کے نتائج آئندہ جنرل الیکشن کی خبر دے رہے ہیں اور ممکن ہے اسی طرح سلسلہ جاری رہا تو وفاق کی سطح پر پی ٹی آئی کو کسی اتحادی کی ضرورت نا پڑے۔