جب بھی کشمیر پر کچھ لکھنے کے لیئے قلم پکڑتا ھوں تو ہاتھ کپکپانے لگتے ہیں دل غموں اور صدموں سے چور ہوتا ہے کبھی میری نظروں کے سامنے نوجوانوں کے جنازے نظر آتے ہیں کبھی نوجوانوں کے زخموں سے چور جسم نظر آتے ہیں کبھی مائوں کی غم میں ڈوبی آنکھیں اور کبھی عصمتیں لٹانے والی ہماری بہنوں کی بے بسی کی تصویر اور کبھی غموں سے نڈھال بیویاں جو اب بیوہ ہوچکیں کبھی بچوں کی سسکیاں جو کھانے کو ترس رہے ہیں اسکول جانے کو ترس رہے ہیں اور بے بس لاچار مرد بچے بوڑھے نوجوان جو مہینوں سے گھروں میں محصور ہیں انسانیت کے ٹھیکیدار جو اپنی تقریروں میں ہمیشہ انسانیت کا سبق دیتے ہیں اور یہ اقوام متحدہ بڑی طاقتیں اسلامی ممالک سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں کشمیر واقع ہے کل رقبہ 69547 ہے ریاست جموں کشمیر1947ء کے بعد دو حصوں میں تقسیم کی گئی بھارت اس وقت سے 39102 مربع میل پر قابض ہے جو کہ آج مقبوضہ کشمیر کہلاتا ہے اسکا دارالحکومت سری نگر ہے بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو کہ 25 ہزار مربع میل رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اسکا دارالحکومت مظفرآباد ہے ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے ہندو راجائوں نے تقریباً چار ہزار سال تک اس علاقے پر حکومت کی۔
انگریزوں نے 1846ء میںریاست جموںو کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کیا کشمیر کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے بزور شمشیر ہندو راجہ نے مسلمانوں کو غلام بنائے رکھا تقسیم ہند کے بعد ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف 26 اکتوبر1947ء کو بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اسکے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہوگیا سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1949ء کو جنگ بندی ہوگئی۔ سلامتی کونسل نے 1948ء میں منظور شدہ قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور کشمیر میں رائے شماری کروانے کیلئے کہا، بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا مگر بعد میں منحرف ہوگیا، پاکستان نے بھارت سے آزاد کرائے گئے علاقہ میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کردی، جموں کشمیر کا علاقہ پہاڑوں اور خوبصورت وادیوںپر مشتمل ہے اور یہ جنت نظیر وادی سیاحوں کی کشش کا باعث ہے بھارت نے ایک طرف یہاں قبضہ جما رکھا ہے تو دوسری طرف یہاں کے لوگوں کی زندگی بد سے بد تر کرنے پر تلا ہوا ہے اور اپنے عوام کو ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ کشمیر میں علیحدگی کی تحریک کچل دی گئی ہے۔
بھارت ہمیشہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستانی آئی ایس آئی کشمیر میں حریت پسندوں کو امداد فراہم کر رہا ہے، ان دعوئوں کو بنیاد بنا کر بھارت نے کشمیر کی تحریک کو کچل ڈالنے کا تاثر دیا۔ 2010 میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور مہینوں تک جاری رہے اور بھارتی حکومت پوری کوشش کے باوجود ان پر قابو نہ پاسکی اور اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار بھارت کو معاشی ترقی کے باوجود نہ صرف کشمیر بلکہ دیگر بہت سے علاقوں میں وسیع پیمانے پر علیحدگی پسند تحریکوں اور بغاوتوں کا سامنا ہے بھارت کسی خوش گمانی کا شکار ہے کیونکہ ایک طرف آزادی کشمیر کی توانا تحریک اور دوسری طرف مائو نواز باغی (مائوسٹ) اپنے غصب شدہ حقوق کی بحالی کے لئے لڑائی لڑ رہے ہیں، دراصل یہ مزاحمتیں اور تحریکیں بھارت میں بڑھتے ہوئے معاشرتی اور معاشی استحصال کا نتیجہ ہے اب بھارت میں دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی ہوچکا ہے جدوجہد آزادی کشمیر کو اب کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا کیونکہ کشمیری نے اپنے بارے میں خود لکھنا شروع کردیا ہے ہم ان کی اذیت ناک کہانیوں کو اپنے ذاتی تجربات کی حیثیت سے بیان نہیں کرسکتے، مجھے تو کشمیر دنیا کا سب سے بڑا جیل خانہ لگتا ہے اگر کشمیری اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات کی یادداشتیں لکھیں تو پھر یہ ایک قیدی کی یادداشتیں جیسی ہونگی، کشمیر میں پکڑ دھکڑ کا عمل جاری ہے، سینکڑوں نوجوانوں کو پکڑ کر جیل میں ڈالا گیا ہے، فیس بک بند ہے پولیس املاک کو جلا رہی ہے۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر فوجی کیمپوں، تفتیشی مراکز، جیلوں، مورچوں اور بنکرز سے آنا پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ فوج رکھنے والا علاقہ بن گیا ہے، 65 برس گزرنے کے باوجود کوئی بھی کشمیری بھارتی حاکمیت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں، ہم پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن آج بھی کشمیری عوام محمد بن قاسم جیسے لیڈر کا انتظار کر رہے ہیں۔ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا جاتا ہے، انسانیت کی بے حرمتی، بے جا ظلم و ستم، قانونی حقائق کی خلاف ورزی اور زیادتیاں آج انڈین آرمی کی طرف سے جموں و کشمیر میں جاری وساری ہیں، ہم اب تک 73 سالوں میں کشمیر پر اپنا قابل ذکر مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے اس امر کی ضرورت ہے کہ دنیا کو باور کرایا جائے یہ صرف محض دو طرفہ تصفیہ طلب جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ ہے، پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر ہر سال 5 فروری کو عوامی اور حکومتی سطح پر منایا جاتا ہے اور ملک بھر میں اور دنیا کے تمام پاکستانی سفارت خانوں میں اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار ہمدردی کیلئے ریلیوں ، سیمیناروں اور مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ وقت جتنا بھی گزر جائے لیکن پاکستانی عوام کی کشمیر کے ساتھ محبت میں کمی نہیں آئے گی اور پاکستانی عوام نہ کبھی کشمیری بھائیوں کو بھولے ہیں نہ بھولیں گے اور ہر سطح پر ان کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔
پاکستانی عوام اور حکومت دنیا کو اس دن یاد دلاتی ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں ایسی قوم بھی موجود ہے جس پر ترقی کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں، کشمیری اپنی مرضی سے تعلیم اور کاروبار نہیں کرسکتے، بھارت کے ظلم وستم پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں، کشمیر میں ہزاروں گمنام اجتماعی قبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے نوٹس لیا اور بھارت کو سنگین انسانی سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا، بھارت نے ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت جموں کے مسلم اکثریتی علاقے کو اقلیت میں تبدیل کر دیا، بھارتی حکومت آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا چاہ رہی ہے اس سارے معاملے میں بھارتی حکومت نہ صرف اپنے آئین بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی کھلی خلاف ورزی کر رہی ہے، سیکورٹی کونسل کے اجلاس، چین اور روس کی کشمیریوں کے حقوق کی حمایت کرنے کے باوجود کشمیر میں ظلم کی رات ڈھلتی نظر نہیں آرہی، کشمیری مسلمان تنہا نہیں پاکستان کا ہر فرد کشمیریوں کے ساتھ ہے پاکستان کے ساتھ امن پسند اور انصاف پسند ملکوں کو متحد ہونا پڑے گا کشمیریوں کا خون ضرور رنگ لائے اور کشمیر ضرور ایک آزاد ریاست بنے گی۔