گزشتہ دنوں چیئرمین کرکٹ بورڈ کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ذکاءاشرف اور نجم سیٹھی کو لیکر کچھ کھینچا تانی نظر آئی اور اسی دوران نجم سیٹھی نے بیان دیا کہ وہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بننے کی دوڑ سے دستبردار ہو رہے ہیں اور وہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان کسی تنازع کی وجہ نہیں بننا چاہتے ایسے میں گزشتہ تین چار روز سے نگران وزیراعظم کے لئے تین نام گردش کر رہے ہیں ان میں ایک نام نجم سیٹھی کا بھی ہے۔
اس لئے انہیں چاہئے تھا کہ وہ اسی وقت کہہ دیتے کہ وہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان کسی تنازعے کا باعث نہیں بلکہ نگران وزیراعظم بننے کے لئے دستبردار ہو رہے ہیں تو آج شاید باقی دو نام منظر عام پر نا آتے محسن بیگ اور میاں عامر محمود کے بطور نگران وزیراعظم نام اپنی جگہ پر مگر نجم سیٹھی کی زبان میں ہی اگر بات کی جائے تو وہ ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ تجزیہ کرنا کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے تھوڑی سی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو آپ حقائق تک پہنچ ہی جاتے ہیں تو اس حوالے سے اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے نجم سیٹھی کو نگران وزیراعظم نا بنانا ہوتا تو وہ ذکاءاشرف کو سامنے کبھی نا لیکر آتے جبکہ ذکاءاشرف اس دوڑ کے کھلاڑی بھی نہیں تھے۔
کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی کے زیر سایہ بالکل ٹھیک چل رہا تھا نجم سیٹھی پر جتنا اعتبار نوازشریف کرتے ہیں اس سے زیادہ آصف علی زرداری کو پیارے ہیں اس لئے اگر یہی تین نام ہیں تو نجم سیٹھی ہی اگلے پاکستان کے نگران وزیراعظم ہونگے اور آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف اس پر د بئی میں اتفاق بھی کر چکے ہیں، باقی اب صرف اعلان کرنے کی دیر ہے جبکہ میاں عامر محمود اور محسن بیگ کی ویسے ہی مشہوری ہوگئی ہے وہ یقیناً اسی میں خوش ہونگے مگر جناب عمران خان کے لئے نجم سیٹھی کا نگران وزیراعظم بننا مزید تکلیف دہ ثابت ہوگا۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اتحادیوں سے مل کر عمران خان پر نجم سیٹھی کی صورت میں ایسا وار کریں گی جس سے عمران خان کا غصہ مزید بڑھ جائے گا کیونکہ 2013 کے الیکشن میں بھی نجم سیٹھی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جن پر عمران خان نے 35 پنکچر لگانے کا الزام لگایا تھا اور بعد میں اسے ایک سیاسی بات کہہ کر آگے نکل گئے تھے بہرحال 35 پنکچر والی بات آج بھی سیاسی حلقوں میں موجود ہے اب دیکھنا ہے کہ اس بار نجم سیٹھی کے پاس پورا پاکستان ہوگا تو ان پر پینتیس پنکچر کا الزام بڑھ کر ستر پنکچر ہوتا ہے یا ایک سو ستر تک پہنچتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا نہیں تو جناب عمران خان ہی بتا دیں گے۔
بہرحال یہ تو طے ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والے تمام انتخابات کی طرح آئندہ الیکشن بھی متنازعہ ہونگے جن میں شفافیت کا ٹھپہ نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح اجارہ داری کا ٹھپہ لگے گا اور پاکستان ایسے ہی کچھ نئے اور پرانے تماشوں اور غلطیوں کے ساتھ رینگتے ہوئے آگے بڑھتا رہے گا کیونکہ پاکستان کا سسٹم مفلوج اور بے کار ہوچکا ہے اس میں دوڑنے کی سکت باقی نہیں ہے مگر اس کو دوڑنے کے قابل بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو جمہوری سوچ اپنانا ہوگی اور اداروں کو آئین کے مطابق چلنا ہوگا تو یقیناً اس سے پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا بھی ہوگا اور زمانے کے ساتھ دوڑنے کے قابل بھی ہوجائے گا۔