خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ/خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللہ

0

علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی ان کی شاعری اور فکر کا مرکزی موضوع ہے۔ یہ فلسفہ انسانی خودی (یا خودی کو ہم "انا” یا خود فہمی یا "خود شعوری” کے طور پر بھی سمجھ سکتے ہیں) کی ترقی اور اس کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔علامہ اقبال کا خیال ہے کہ انسان کی عظمت اس کی اپنی اندرونی قوتوں اور صلاحیتوں کے ادراک و استعمال اور ان کے اظہار میں ہے۔

اقبال کے نزدیک "خودی” انسان کی اپنی شناخت، اس کی خود شعوری اور اس کی داخلی قوت اور داعیہ ہے ۔ یہ وہ شعور ہے جو انسان کو اپنی قابلیتوں اور مقاصد کو پہچاننے اور انہیں حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کہ انسان کو دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی خودی (ذاتی اور خمیر کی خوبی و صلاحیت) کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ خود مختار اور خود انحصار ہو سکے اور وہ کسی اور کا ماسوا اللہ پاک محتاج نہ ہو۔ ان کے مطابق، خودی کا مطلب اپنے فیصلوں اور عمل کی طاقت کو پہچاننا اور اسے فعال طور پر استعمال کرنا ہے۔

علامہ محمد اقبال بیان کرتے ہیں کہ جب انسان کی خودی بیدار ہو جاتی ہے، تو وہ مادی دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور ایک بلند روحانی مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ جو اسے رضائے الہی کو مقصد و عمل سے بہرا مند کرتا جو مقصد حیات ٹھرتا ہے۔

علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار میں خودی کو انسان کی روحانی اور تخلیقی صلاحیتوں کی معراج کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کا فلسفہ خودی انسان کو اس کی ذاتی عظمت اور خود شناسی کا شعور دیتا ہے، تاکہ وہ دنیا میں فعال، آزاد، اور با مقصد زندگی گزار سکے۔ علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کو اپنی عظمت کا شعور ہونا چاہیے۔ انسان صرف اپنے آپ کو پہچان کر اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ہی اپنا مقام بنا سکتا ہے۔ یہ فلسفہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر انسان کی کامیابی کا راستہ بتاتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کے فلسفے میں خودی کا مطلب خود غرضی یا انانیت نہیں ہے۔ بلکہ اور درحقیقت، خودی کا اعلیٰ مقام اللہ کی رضا اور اس کی پہچان میں ہے۔علامہ محمد اقبال کا کہنا ہے کہ جب انسان اپنی خودی کو خدا کے ساتھ جوڑتا ہے تو وہ حقیقی آزادی اور کمال تک پہنچتا ہے۔ یہ خودی ہے جو خدا کی تخلیقی قوتوں سے مربوط ہو کر اپنی اصل معنویت حاصل کرتی ہے۔ علامہ محمد اقبال کے مطابق خودی جامد نہیں ہوتی بلکہ مسلسل ترقی اور ارتقاء کی حالت میں ہوتی ہے۔ یہ خودی وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مراحل سے گزرتی ہے، جس میں پہلے مرحلے پر اپنی ذات کی پہچان ہوتی ہے، پھر اپنی ذات کی تکمیل اور آخر میں انسان کا خدائی صفات کے قریب پہنچنا۔علامہ محمد ا قبال نے اپنے فلسفہ خودی کے ذریعے مسلمان نوجوانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ وہ انہیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچانیں، اپنے کردار کو مضبوط کریں، اور دنیا میں ایک فعال اور با مقصد زندگی گزاریں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ

عرفت ربی بفسخ العزائم
اقبال کا فلسفہ خودی اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کو اپنی عظمت کا شعور ہونا چاہیے۔ انسان صرف اپنے آپ کو پہچان کر اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ہی کائنات میں اپنا مقام بنا سکتا ہے۔ یہ فلسفہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر انسان کی کامیابی کا راستہ بتاتا ہے۔

علامہ محمد اقبال کے نزدیک خودی ایک ایسا فلسفیانہ اور روحانی تصور ہے جو انسان کی اپنی ذات، قوت، اور تخلیقی صلاحیتوں کے ادراک اور ان کو بروئے کار لانے سے متعلق ہے۔علامہ محمد اقبال نے خودی کو انسان کی روحانی خود مختاری، شخصیت کی مضبوطی، اور اپنے آپ پر انحصار کے طور پر پیش کیا۔ یہاں میں علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں۔ کہ
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللہ

علامہ محمد اقبال خودی کی طاقت کو توحید کے ساتھ جوڑتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ خودی کی اصل بنیاد اللہ کی وحدانیت ہے۔ جب انسان اس حقیقت کو سمجھ لیتا ہے، تو وہ دنیا میں ہر قسم کی مشکل کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کے نزدیک خودی کا بیدار ہونا زندگی کا حقیقی مقصد ہے جب انسان اپنی خودی کو پہچان لیتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

اس شعر میں علامہ محمد اقبال انسان کو اپنی خودی کو اتنا مضبوط بنانے کی ترغیب دیتے ہیں کہ اس کا مقام تقدیر سے بھی بلند ہو جائے اور وہ اپنے فیصلے خود سے کرنے کی صلاحیت رکھے۔
علامی محمد اقبال کے فلسفے میں خودی کا ایک اہم پہلو خود انحصاری ہے۔ وہ انسان کو دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی خودی پر اعتماد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ کہ
اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی
خودی میں ڈوب جا غافل، یہ سرِ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاودانی ہے

علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ خودی کو پہچاننے اور اس پر عمل کرنے سے انسان وقت اور زمانے کی قید سے آزاد اور بلند تر ہو کر ابدی حیات حاصل کر سکتا ہے۔علامہ محمد اقبال کے فلسفہ خودی میں مردِ مومن ایک ایسی شخصیت ہے جو اپنی خودی کو مکمل طور پر بیدار کر چکا ہوتا ہے۔ اس میں دنیا کی تمام مشکلات کا سامنا کرنے کی قوت ہوتی ہے کہ
نشانِ مردِ مومن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست

علامہ محمد اقبال مردِ مومن کی صفت بیان کرتے ہیں کہ جب موت بھی آتی ہے تو وہ مسکرا کر اس کا سامنا کرتا ہے، کیونکہ اس کی خودی مضبوط اور مکمل اور مالک حقیقی سے جڑی ہوتی ہے۔ علامہ محمد اقبال کے نزدیک خودی جامد نہیں بلکہ مسلسل ترقی کرتی رہتی ہے، اور انسان کو اپنی خودی کی ترقی کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی چاہیے۔ کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

علامہ محمد اقبال خودی کی لامحدودیت کو بیان کرتے ہیں کہ خودی کی ترقی کا کوئی اختتام نہیں۔ ہر منزل کے بعد ایک نئی منزل موجود ہے، اور انسان کو مسلسل کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ علامہ محمد اقبال کے فلسفے میں خودی کا اعلیٰ مقام خدا سے تعلق میں مضمر ہے۔ جب انسان اپنی خودی کو خدا کی رضا کے مطابق ڈھالتا ہے، تو وہ اپنے مقام کو حقیقی معنوں میں سمجھتا ہے:
یہی ہے رازِ حیات، موت ہے ان کے لیے
جن کی خودی مر گئی، جن کا ضمیر زندہ نہیں

علامہ محمد اقبال کے نزدیک وہ لوگ جو اپنی خودی کو پہچانتے ہیں اور اسے زندہ رکھتے ہیں، وہی حقیقی زندگی گزارتے ہیں، اور جن کی خودی مر جاتی ہے، ان کے لیے زندگی میں کوئی معنی نہیں رہتا۔
علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں خودی اور عشق کو بھی آپس میں جوڑا ہے۔ عشق،علامہ اقبال کے نزدیک خودی کی ترقی کا ذریعہ ہے۔

علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ خودی کا راز انسان کے نفس میں پوشیدہ ہے اور عشق وہ قوت ہے جو اس راز کو بیدار اور برانگیختہ کرتی ہے اور انسان کو ترقی و بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔ علامہ محمد اقبال کے فلسفہ خودی میں دنیا کی مادی چیزوں سے بے نیازی اور خودی کی روحانی ترقی کا تصور اہم ہے۔ کہ
چوں خودی آگاه گردد بے نیاز
گردد او از عالمِ انسان فراز

علامہ محمد اقبال بیان کرتے ہیں کہ جب انسان کی خودی بیدار ہو جاتی ہے، تو وہ مادی دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور ایک بلند روحانی مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ علامہ محمد اقبال خودی کو انسان کی روحانی اور تخلیقی صلاحیتوں کی معراج کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کا فلسفہ خودی انسان کو اس کی ذاتی عظمت اور خود شناسی کا شعور دیتا ہے، تاکہ وہ دنیا میں فعال، آزاد، اور با مقصد زندگی گزار سکے۔ کی
خودی راہِ درونِ خویش پیمود
ز موجِ بحر و از گرداب فرسود

علامہ محمد اقبال اس جگہ بتاتے ہیں کہ خودی کا سفر انسان کے اپنے اندر ہوتا ہے، اور جو انسان اس سفر کو طے کرتا ہے، وہ بحرِ زندگی کی لہروں اور گردابوں سے گزرتا ہے، یعنی مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا کرتا ہے۔
خودی در پیکرِ خاکی نمی گنجد
کہ این دریا بہ پیمانہ نمی گنجد

علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ خودی اس مادی جسم میں محدود نہیں ہو سکتی کیونکہ خودی ایک ایسا سمندر ہے جو کسی پیمانے میں نہیں سماتا۔ یہ شعر خودی کی لا محدودیت اور عظمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ کہ
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از دستِ دگر شعلہ بہ دامانِ جہاں ریز

علامہ محمد اقبال اس شعر میں لوگوں کو نیند (غفلت) سے بیدار ہونے کی تلقین کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انسان اپنی خودی کو پہچانے اور دنیا میں اپنی تخلیقی طاقت کا شعلہ جلائے۔ کہ
چوں خودی آگاه گردد بے نیاز
گردد او از عالمِ انسان فراز

علامہ محمد اقبال یہاں بتاتے ہیں کہ جب انسان کی خودی بیدار اور آگاہ ہو جاتی ہے، تو وہ دنیا کی مادی چیزوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور ایک بلند مقام تک پہنچتا ہے۔ کہ
بہ خودی خویش اگر حکم رانی کنی
بہر جا دست بہ سلطانی کنی

یہاں علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ اگر تم اپنی خودی پر قابو پا لو اور اسے کنٹرول میں رکھو، تو تم ہر جگہ حکومت کر سکتے ہو۔ یہ شعر خودی کی طاقت کو کنٹرول کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ کہ
بیا بنگر کہ در دلِ خودی چیست
اگر در من نمی گنجد، خدا چیست

علامہ محمد اقبال اس شعر میں پوچھتے ہیں کہ انسان کی خودی کے دل میں کیا چھپا ہے؟ اگر یہ کائنات انسان کی خودی میں سما نہیں سکتی تو خدا کیا ہے؟ یہ شعر خودی کی گہرائی اور اس کی خدا سے تعلق کی وضاحت کرتا ہے۔
خودی ذوقِ تسلط ہے، غلامی ہے بے خودی
کہ موت ہے زندگی میں بے خودی
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

علامہ محمد اقبال خودی کو انسان کے لئے لامحدود امکانات کا راستہ قرار دیتے ہیں، اور یہ بتاتے ہیں کہ خودی کی ترقی کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ ہر منزل کے بعد نئی راہیں کھلتی ہیں۔
خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات

علامہ محمد اقبال بتاتے ہیں کہ جب انسان کی خودی بیدار اور زندہ ہو جاتی ہے، تو موت ایک نئی زندگی کا مقام بن جاتی ہے۔ اس فلسفے کے تحت خودی ابدیت کی حامل ہو جاتی ہے۔
علامہ محمد اقبال کے یہ اشعار ان کے فلسفہ خودی کو گہرائی اور جامعیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جس میں انسان کی اپنی شناخت، قوت ارادی اور خدا کے ساتھ تعلق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کہ
خودی میں ڈوب جا غافل، یہ سرِ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاودانی ہے

علامہ محمد اقبال انسان کو خودی میں ڈوبنے اور اسے پہچاننے کا درس دیتے ہیں کہ اگر انسان خودی کو سمجھ لے تو وہ وقت اور زمانے کی قید سے نکل کر ابدی حیات حاصل کر سکتا ہے۔
ہو اگر خودنگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

علامہ محمد اقبال بیان کرتے ہیں کہ اگر انسان کی خودی خود شناسی، خود سازی، اور خود مختاری کے مقام تک پہنچ جائے، تو وہ موت سے بھی بالاتر ہو سکتا ہے۔ کہ
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

علامہ محمد اقبال اس شعر میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات ابھی مکمل نہیں ہوئی، اور انسان کی خودی میں اتنی تخلیقی قوت موجود ہے کہ وہ کائنات کی تکمیل میں حصہ لے سکتا ہے۔ "کن فیکون” کا مطلب ہے "ہو جا اور ہو گیا”، یعنی خدا کی تخلیقی قوت۔ پھر اس جگہ بہت لطیف اعلی عمدہ اور لاجواب بات کہتے ہیں کہ
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی

علامہ محمد اقبال خودی کے دو پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں: ایک پہلو "مصطفائی” ہے جو دنیا میں رسول ﷺ کی سنت اور اسوہ پوری محبت و اشتیاق کے مطابق عمل کرنے سے "کبریائی” یعنی باری تعالی سے متصف و منسلک ہو جاتا ہے ۔جو انسان کی خودی کی بلندی کو خدا کی صفات کے قریب لے جا کر ارفع کر دیتا ہے۔

یہی ہے رازِ حیات، موت ہے ان کے لیے
جن کی خودی مر گئی، جن کا ضمیر زندہ نہیں

اس شعر میں علامہ محمد اقبال واضح کرتے ہیں کہ زندگی کا حقیقی راز خودی کی بیداری میں ہے، اور وہ لوگ جو اپنی خودی کو مرنے دیتے ہیں، دراصل وہ روحانی طور پر زندہ نہیں ہوتے۔ جیسا کہ فرمایا
خدائی ادعوا بے معرکہ در کار می آید
کشا کش زندگانی مردِ بے زار می آید

علامہ محمد اقبال یہاں بتاتے ہیں کہ زندگی کی جدوجہد اور مقابلہ انسان کی خودی کو بیدار کرتا ہے، اور وہ شخص جو جدوجہد سے گھبراتا ہے، خودی کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتا۔
ہنر ہے کہ نا امید ہے مردِ کلام
اسی شعلہ میں ہے مرگ و حیات کی نمود

علامہ محمد اقبال بتاتے ہیں کہ خودی میں چھپی ہوئی تخلیقی قوت ہی زندگی اور موت کا راز کھولتی ہے۔ یعنی انسان کی خودی اس کی شخصیت کو تخلیقی اور فعال بناتی ہے۔۔یہ اشعار علامہ محمد اقبال کے فلسفہ خودی کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں، جس میں خود شناسی، خود مختاری، اور خدا سے قربت شامل ہیں۔علامہ اقبال کا پیغام انسان کو اپنی اندرونی طاقت اور قابلیت کو پہچاننے اور اسے کائنات کی ترقی کے لیے بروئے کار لانے کی ترغیب دیتا ہے۔

علامہ اقبال کا فلسفہ خودی انہیں دیگر فلسفیوں سے کئی جہات سے ممیز و ممتاز کرتا ہے۔علامہ محمد اقبال کا فلسفہ نہ صرف انفرادی خودی کی بیداری پر زور دیتا ہے بلکہ اس میں روحانیت، اسلام، اور انسان کی تخلیقی قوتوں کا امتزاج بھی شامل ہے۔ یہ فلسفہ انسان کی روحانی، اخلاقی، اور مادی ترقی کو آپس میں جوڑتا ہے، جو دیگر فلسفیوں کے افکار میں اتنی جامعیت سے نہیں ملتا۔ علامہ محمد کا فلسفہ خودی بنیادی طور پر ایک روحانی فلسفہ ہے۔ ان کے نزدیک خودی کو بیدار کرنا محض انفرادی طاقت یا ارادے کا اظہار نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو خدا کے قریب لے جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں خودی اور توحید کا گہرا تعلق ملتا ہے، جیسا کہ وہ کہتے ہیں
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللہ

علامہ محمد اقبال کے نزدیک خودی کی اصل طاقت اللہ کی وحدانیت کے ادراک میں ہے، اور یہی اسے دیگر فلسفیوں سے ممتاز بناتا ہے، جو عمومی طور پر خودی کو مادی یا نفسیاتی سطح پر دیکھتے ہیں۔اقبال کا فلسفہ خودی اسلامی تعلیمات اور فکر سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ وہ خودی کو اسلامی روحانیت کے مطابق سمجھاتے ہیں، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کو پہچان کر مسلمان ہونے کی اصل حقیقت کو سمجھے اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرے۔ دیگر مغربی فلسفی، جیسے نیطشے خودی کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی خودی زیادہ تر ایک انفرادی، سیکولر تصور ہے۔علامہ محمد اقبال کے نزدیک خودی خدا سے وابستہ ہے اور اسی میں انسانی فلاح ہے

یہ تصور نیطشے کے فلسفہ خودی (overman Ubermensch) سے یکسر مختلف ہے۔ جس میں انسان کو محض اپنے لیے بلندی حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ علامہ محمد اقبال نے خودی کو عشق کے ساتھ جوڑا ہے، جو ایک گہرا روحانی اور تخلیقی جذبہ ہے۔ ان کے نزدیک عشق ایک ایسی قوت ہے جو خودی کو بیدار کرتی ہے اور انسان کو بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔ علامہ محمد اقبال کے نزدیک عشق خودی کی ترقی اور کمال کا ذریعہ ہے، جو انسان کو اپنی مادی اور نفسیاتی حدود سے اوپر اٹھاتا ہے۔ یہ تصور عشق الہی پر مبنی ہے، جو مغربی فلسفہ میں عام نہیں پایا جاتا۔ علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی متحرک اور ترقی پسند ہے۔ وہ خودی کو جامد نہیں سمجھتے، بلکہ ایک مسلسل ترقی کرتی ہوئی قوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک خودی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو مسلسل ترقی اور بلندی کی طرف لے جاتا ہےستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کبھی مکمل نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہمیشہ آگے بڑھتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔ یہ تصور فلسفہ ارتقاء (Evolution) کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا ہے، لیکن علامہ محمد اقبال اسے روحانی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال کے فلسفہ خودی میں مادی اور روحانی دنیا کے درمیان توازن موجود ہے۔ وہ دنیاوی کامیابیوں کو حقیر نہیں سمجھتے، بلکہ انسان کو دنیا میں ترقی کرنے اور اسے بہتر بنانے کی تلقین کرتے ہیں۔ تاہم، وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ انسان کو اپنی روحانی ترقی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کہ
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی انسان کو دنیا میں ایک فعال اور ذمہ دار کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جسے عالمگیر بھائی چارے اور عدل و انصاف کے اصولوں کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ علامہ محمد اقبال کے نزدیک خودی کی بیداری انسان کو آزادی عطا کرتی ہے، اور یہ آزادی نہ صرف مادی دنیا سے بلکہ نفسیاتی اور روحانی قید سے بھی ہوتی ہے۔علامہ محمد اقبال کے نزدیک ایک بیدار خودی کا حامل انسان مستقل مزاج، خود مختار اور دنیا کی غلامی سے آزاد ہوتا ہے۔
یہی ہے رازِ حیات، موت ہے ان کے لیے
جن کی خودی مر گئی، جن کا ضمیر زندہ نہیں

علامہ محمد کے برعکس، بہت سے مغربی فلسفیوں کے ہاں آزادی کا تصور زیادہ تر مادی یا سماجی حدود میں محدود ہوتا ہے، جبکہ علامہ محمد اقبال آزادی کو اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال کے فلسفہ خودی میں انفرادی خودی کی ترقی کو اجتماعی ترقی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ وہ فرد کی خودی کو معاشرے کی بہتری کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ہر فرد اپنی خودی کو بیدار کرے گا، تو اس سے ایک مضبوط، خود مختار اور بیدار معاشرہ وجود میں آئے گا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

یہاں علامہ محمد اقبال فرد کی خودی کو پوری قوم کی تقدیر سے جوڑتے ہیں، جو انہیں دیگر فلسفیوں سے ممتاز بناتا ہے جو اکثر انفرادی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی انہیں دیگر فلسفیوں سے اس لیے ممتاز کرتا ہے کہ یہ ایک جامع فلسفہ ہے جو روحانیت، اسلام، انسانی ترقی، عشق، اور خدا کے ساتھ تعلق پر مبنی ہے۔علامہ اقبال کے نزدیک خودی کی بیداری صرف انفرادی ترقی نہیں بلکہ خدا کی معرفت، انسانیت کی خدمت، اور دنیا میں انصاف قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ فلسفہ اسلامی فکر کے ساتھ مغربی فلسفے کو ایک نئے زاویے سے جوڑتا ہے اور انسان کو اس کی مادی اور روحانی بلندی کی طرف راغب کرتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!