مسئلہ کشمیر اور نارویجن پاکستانیوں کا کردار

0

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ہونا باقی ہے، کئی دہائیوں سے پوری دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کا مظاہرہ دیکھ رہی ہے مگر سوائے پاکستان کے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی ملک آواز تک بلند کرنے کو تیار نہیں ۔ اقوام متحدہ جس کے قیام کا مقصد حقو ق و انصاف کی فراہمی ہے وہ بھی سات دہائیوں سے سوائے مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ناروے میں رہنے والے پاکستانی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے اپنا کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

ناروے میں پاکستانیوں نے ستر کی دہائی میں قدم رکھا اور اب پاکستانیوں کو ناروے میں آباد ہوئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کچھ کی تیسری اور کچھ کی چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ ناروے میں پاکستانیوں نے شب و روز محنت اور اپنی دیانتداری سے ایک الگ مقام بنایا ہے جس کی نارویجن بادشاہ سے لیکر ہر سرکاری و غیر سرکاری شخص ناروے کی ترقی میں پاکستانیوں کے کردار کا معترف ہے ۔

ناروے میں شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں پاکستانیوں کی نمائندگی نہ ہو۔ د کان میں کام کرنے سے لیکر پارلیمنٹ ہائوس تک ہر جگہ پاکستانیوں کی نمائندگی ہے۔ نارویجن سیاست میں اول دن سے ہی پاکستانی صوبائی اور قومی سطح پر اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ کچھ پاکستانی تو وزارت کے عہدوں پرفائز رہ چکے ہیں۔1994 میں ناروے کی اسمبلی میں آر وے پارٹی جس کا نام بعد ازاں تبدیل کر کے ریڈ پارٹی رکھ دیا گیا ، اس کے ممبر اطہر علی نے مسئلہ کشمیر پر ناروے پارلیمنٹ کے فلور پر بات کر کے کشمیر کے ایشو کو عالمی سطح پر ہائی لائٹ کیا۔ اطہر علی کے علاوہ ناروے پارلیمنٹ میں دوسرے پاکستانی جنہوں نے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائی وہ اختر چوہدری ہیں۔

پاکستان کے بعد اگر کسی بھی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر کو ڈسکس کیا گیا ہے تو وہ ناروے کی پارلیمنٹ ہے۔ ناروے کی سب سے بڑی دو جماعتیں لیبر پارٹی اور کنزرورٹیو پارٹی نے مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے فلور پر کبھی بات نہیں کی جبکہ ناروے میں بسنے والے زیادہ پاکستانی ان دونوں جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ پاکستانی ہونے کے ناطے یہ سوچنا پڑے گا کہ دونوں بڑی جماعتیں کشمیر کے ایشو پر خاموش کیوں ہیں؟ میں کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی ، ایس وے اور ریڈ پارٹی کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے ناروے پارلیمنٹ میں متعدد بار مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آواز بلند کی۔

ناروے میں جو تنظیمات مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ان میں سب سے اہم وہ مساجد ہیں جن کے ممبران کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ قومی و صوبائی الیکشن کے وقت ہر پارٹی کی اعلی قیادت مختلف مساجد کا دورہ کرتی ہے، اگر مساجد سیاسی پارٹیوں کو کشمیر کے حوالے سے آگاہ کریں اور مظلوم کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرنے کا کہیں تو یقینا اس پر وہ غور کریں گی۔ مساجد کے علاوہ مختلف سماجی تنظیمات اپنا کردار ادا کریں اور اسکے علاوہ بچوں کو تیار کیا جائے کہ وہ سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں کشمیر کے بارے میں لکھیں اور پھر میڈیا کے ہر فورم پر کسی نہ کسی شکل میں کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کیا جائے توامید ہے کہ ناروے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستانیوں کے علاوہ کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لیے سفارتخانہ پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سفارتخانہ پاکستان کو کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لیے سیاستدانوں، حقو ق انسانی کے رہنمائوں کے علاوہ بزنس کمیونٹی کو بھی انگیج کرنا ہو گا اور مقبوضہ کشمیر میںہونے والے ظلم و بربریت کے بارے میں آگا ہ کرنا ہو گا۔ اگر تمام قوتیں منظم انداز میں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تو نارویجن حکومت کوخاموشی کا روزہ توڑنا پڑے گا اور ہندوستان سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!