پاکستان میں اس وقت ایک عجیب سیاسی بھونچال آیا ہوا ہے۔ اپوزیشن نے کئی ہفتوں کی میٹنگوں اور عدم اعتماد کا وقت دے دے کر آخر کار قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لئے مطلوبہ تعداد پوری ہے۔ اپوزیشن کے تین بڑوں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہو ئے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ اس سلیکٹیڈ وزیر اعظم کو گھر بھیج کر ر ہیں گے۔ حکومت اس سے قبل یہ سمجھ ر ہی تھی کہ اپوزیشن ان کے ساتھ بلف کرر ہی ہے اور حکومتی وزراء بار بار اپنے بیانات میں اپوزیشن کو چیلنج کرر ہے تھے کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ عدم اعتماد کی تحریک جتنی جلدی ممکن ہے لے کر آئیں۔
تحریک اعتماد پیش ہو نے کے ساتھ ہی ملکی سیاست میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ وزیراعظم نے لاہو ر میں ق لیگ کے بڑوں سے ملاقات کی، بہانہ چو ہد ری شجاعت کی بیماری پر ان کی تیمارداری کرنا تھی۔ اس سے پہلے مولانا فضل الرحمان ،سابق صدر آصف علی زرداری اور شہباز شریف بھی چو ہد ریوں سے اسی بہانے ملاقات کر چکے تھے۔ وزیراعظم کی چو ہد ری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ ق لیگ نے عدم اعتماد پر انھیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔
دوسری جانب ق لیگ کے سینئر رہنما طارق بشیر چیمہ نے واضح کیا کہ وزیراعظم نے انکے ساتھ اس موضوع پر کوئی بات ہی نھیں کی۔وزیر اعظم پھر کراچی پہنچے ۔ اپنے دور حکومت میں وہ پہلی بار ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر بہادر آباد گئے اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے 10 منٹ کی ملاقات کی ۔ اس ملاقات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیا کہ ایم کیو ایم ان کی اتحادی جماعت ہے اور وہ ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ جب کہ ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ان کے پاس آئے تھے انہوں نے انھیں چائے پلائی اور ملاقات ختم ہوگئی۔ وزیراعظم نے ان سے تحریک عدم اعتماد کی کوئی بات نھیں کی ۔بعد میں جی ڈی اے کے لوگوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی مگر جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگاڑا نے وزیراعظم سے ملاقات پر معذرت کرلی ان کا کہنا تھا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے۔
بعد میں وزیراعظم نے ایک تقریب سے بھی خطاب کیا جس میں وہ اپوزیشن پر خوب گرجے برسے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ تو دعائیں مانگتے تھے کہ اپوزیشن ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئے۔گو سوشل میڈیا میں وزیراعظم کے اس خطاب میں جو انہوں نے زبان استعمال کی اس پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔اسی دوران سینٹ میں فیصل واڈا کی خالی سیٹ پر الیکشن ہو رہا تھا اور وزیراعظم کی کراچی موجودگی کے دوران تحریک انصاف کے چند ممبران نے اپنی پارٹی پالیسی کے پیپلز پارٹی کے امیدوار نثار کھوڑو کو ووٹ دے دیا۔ بظا ہر یہ امر وزیراعظم کے لئے انتہائی سبکی کا باعث بنا کیونکہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے اس الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت ادھر اپنے اتحادیوں سے ملاقاتیں کرتی پھر ر ہی ہے ، ادھر پنجاب میں پی ٹی آئی میں بغاوت ہوگئی۔ جہانگیر ترین تو پہلے سے حکومت اور وزیراعظم سے خفا تھے اور انہوں نے اپنا ایک ہم خیال گروپ بھی بنا رکھا تھا۔ مگر اس گروپ نے کبھی بھی کسی موقع پر حکومت کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا تھا بلکہ جب حکومت کو ضرورت پڑی تو ووٹ بھی حکومت کے حق میں دیا۔
تحریک عدم اعتماد کی اس تحریک نے شا ید ان میں کوئی بڑا حوصلہ پیدا کردیا تھا کہ انہوں نے بھی ادھر ادھر ملاقاتیں شروع کردیں۔ اس دوران جہانگیر ترین کو صحت کی خرابی کی وجہ سے لندن روانہ ہو نا پڑا ۔پنجاب میں ایک اور دھماکہ علیم خان نے کردیا اور انہوں نے اپنا ایک گروپ کا اعلان کرکے پارٹی کے اندر بغاوت کردی۔یہ گروپ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ نہیں دیکھنا چا ہتا۔ عثما ن بزدار نے فوراً وزیراعظم سے ملاقات کی اور انھیں اپنا استعفیٰ اس شرط پر پیش کردیا کہ وہ کسی بھی صورت میں علیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں دیکھنا چا ہتے۔ وزیراعظم نے ان کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کردیا اور انھیں کام جاری رکھنے کا کہا ، وزیر اعلیٰ پنجاب بھی اب لا ہو ر آکر خوب متحرک ہو چکے ہیں اور وہ اراکین پنجاب اسمبلی سے ملاقاتیں کرر ہے ہیں جن میں ترین گروپ کے لوگ بھی شامل ہیں ۔ اس دوران علیم خان نے بھی رخت سفر باندھا اور لندن روانہ ہوگئے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ جہانگیر ترین سے ملاقات کرکے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ ان کا واضح اور دو ٹوک موقف ہے کہ وہ مائنس بزدار کے علا وہ کوئی بات نہیں کرنا چا ہتے۔تحریک عدم اعتماد تو پیش ہو چکی یہ کامیاب ہو تی ہے یا ناکام اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ مگر یہ طے ہے کہ حکومتی پارٹی میں پھوٹ پڑ چکی ہے ۔ خود وزیراعظم کو ان کی ایک ایجنسی نے یہ رپورٹ دی ہے کہ آپ کے 20 سے 25 اراکین اسمبلی اپوزیشن سے مل سکتے ہیں ۔ اس بات کی تصدیق خود وزیراعظم نے کراچی کے جلسے میں یہ کہہ کر کردی تھی کہ آصف علی زرداری نے ان کے اراکین اسمبلی کو 20 ،20 کروڑ روپے کی آفر کی ہے۔
اس دوران بلوچستان سے بھی وزیراعظم کو کوئی اچھی خبریں موصول نہیں ہو رہی ہیں، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا ہے کہ ان کے اراکین بھی موجودہ حکومت سے خوش نہیں ہیں ۔ اب صورتحال بہت ہی عجیب و غریب ہو چکی ہے۔ اپوزیشن یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے بعد ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا۔کیا وزیراعظم عمران خان کے بعد کوئی نیا وزیراعظم لا کر ان اسمبلیوں کی مدت پوری کی جائے گی یا نئے الیکشن کروائے جائیں گے ،اور اگر نئے الیکشن ہو تے ہیں تو کیا پیپلز پارٹی اپنی سندھ حکومت کی قربانی دینے کو تیار ہے ؟ اگر الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کو پھر سندھ میں ہی حکومت بنانا ہے تو وہ اپنی موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سال کیوں ضائع کرے؟ کیونکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کوئی زیاد سیٹیں لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔گو بلاول بھٹو کے لانگ مارچ نے پنجاب پیپلز پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور بے شمار پرانے لوگ دوبارہ پیپلز پارٹی میں آ چکے ہیں۔ ن لیگ اگر اکثریتی پارٹی بن کر ابھرتی ہے تو اتحادیوں کو حکومت میں کیسے ایڈجسٹ کرے گی۔اس کے علا و ہ جن بنیادوں پر اپوزیشن حکومت کے خلاف عدم اعتماد لار ہی ہے اس میں مہنگائی اور بیڈ گورننس اہم ایشو ہیں ؟ عالمی حالات جس رخ پر جار ہے ہیں ، روس اور یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو ہو شربا اضافہ ہوا ہے ان پر کیسے قابو پائے گی، اپوزیشن ابھی تک یہ نہیں بتا سکیں کہ وہ حکومت بنا کر عوام کو کیا ریلیف دے گی اور کیا دے بھی سکے گی۔عوام میں یہ سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ یہ لوگ پچھلی حکومتوں میں رہ چکے ہیں انہوں نے کیا عوام کے لئے کوئی ایسا کام کیا جس کی وجہ سے انھیں دوبارہ ووٹ دیا جائے۔ لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کل تک یہ لوگ ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے آج کیا عمران خان کی مخالفت میں اکھٹے ہو ئے ہیں ؟۔ ایسے اور کئی دیگر سوالات عوام کے ذ ہنو ں میں کلبلا ر ہے ہیں اور اپوزیشن کو ان کا واضح جواب دینا ہو گا ۔ حکومت بھی اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے۔حکومتی پارٹی میں بغاوت ہو چکی ہے۔ حکومت کے وزراء جو مرضی بیان دیں حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے اپوزیشن سے رابطے ہو چکے ہیں اور اکثر نے انھیں تحریک عدم اعتماد میں وزیراعظم کے خلاف ووٹ ڈالنے کی یقین دہانی کرادی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعظم اب گھبرا چکے ہیں اور اپنی سیٹ بچانے کے لئے بھاگ دوڑ کرر ہے ہیں۔گرد اس قدر ر اُڑ ر رہی ہے کہ کوئی چیز واضح طور پر نظر نہیں آ رہی ۔ چو ہد ری شجاعت جن سے لوگ ان کے گھر آکر ملاقاتیں کرر ہے تھے وہ اسلام آباد جاکر مولانا فضل الرحمان اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کرر ہے ہیں، لندن میں جہانگیر ترین ، علیم خان اور نواز شریف کی ملاقات ہو نے کی خبریں بھی گردش میں ہیں،ہر طرف فضا میں سیاسی آلودگی پھیلی ہو ئی ہے۔کچھ پتہ نھیں چل رہا کہ اگلے لمحے کیا ہو گا ۔ تیزی سے صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ہم عوام کہاں کھڑے ہیں ؟۔ کیا اس اقتدار کی جنگ میں غریبوں کی بھی کوئی جگہ ہے ؟ کیا مہنگائی کے مارے لوگوں کے بارے بھی کوئی سوچ رہا ہے ؟ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ہے تو عمران خان مزید ڈیڑھ سال تک تو وزیراعظم ر ہیں گے ممکن ہے اگلا الیکشن بھی جیت جائیں اور اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو کیا آنے والا وقت ہم غریب عوام کے لئے کوئی خوشخبری ملے گی یا ہم اسی مشقت کی چکی میں پستے ر ہیں گے۔