آجکل ملکی سیاست میں ماحول بہت گرم ھے لگتا ھے یہ ملک صرف چند سو سیاستدانوں کا ہی ھے کبھی لانگ مارچ ھو رہا ھے اور کبھی ڈی چوک میں جلسہ ۔بظاہر یہ سب ثابت کر رہے ھیں کہ وہ اس ملک کو بحران سے نکال سکتے ھیں اور اس ملک کے مالک بھی وہی لگتے ھیں ۔پورے ملک کو ان لوگوں نے یرغمال بنایا ھوا ھے ۔چند دنون بعد تحریک عدم اعتماد ھے حالات بتا رہے ھیں کہ کچھ بھی ھو سکتا ھے ۔کامیابی یا ناکامی کی صورت میں ملک میں افراتفری مچ جائے گئ اگر عمران خان نے اپنی اکثریت ثابت کردی تو ایک نیا عمران خان سامنے آئے گا اور یہ ناکامی ن لیگ پیپلز پارٹی اور فضل الرحمان کو ہضم نہیں ھو گی وہ اقتدار میں آنے اور اور خان صاحب کو نکالنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ھیں ۔ ہم یہ مانتے ھیں ساڑھے تین سالوں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کوئی متاثر کُن نہیں رہی ۔
خاص کر انہوں نے اوورسیز پاکستانوں کو استعمال نہیں خان صاحب کسی ایک ملک میں بھی ان کو ملنے کے لیے نہیں گئے نہ کوئی میٹنگ کی نہ کوئی جلسہ بیرون ملک میں کیا ورنہ انہیں آج ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔کرکٹ پاکستان میں واپس آ گئ ،سپر لیگ دنیا کی اہم لیگ بن کئ، بیرون ممالک کی کرکٹ ٹیمیں پاکستان آئیں لیکن خاں صاحب ایک دفعہ بھی اسٹیڈیم نہ جا سکے حالانکہ وہ اسی کھیل کی وجہ سے وزیر اعظم کی سیٹ تک پہنچے ھیں ۔ان پر بہت امیدیں تھیں لیکن وہ ٹیم اچھی نہ بنا سکے وہ آکسفورڈ کے پڑھے ھیں لیکن عام بازاری زبان استعمال کرتے ھیں اور خاص کر ایک وزیر اعظم کو ایسی زبان استعمال کرنا زیب نہیں دیتا ۔ خان صاحب اپنے منشور کے خلاف چلے گے آج بھی لگ رہا ھے شاہد حکومت کرنا ان کے بس کا روگ نہیں ھے۔
وہ انٹرنیشل لیول کے لیڈر ضرور بن گے ھیں لیکن قومی لیول پر کہیں غلطیاں کر رہے ھیں ،خان صاحب پر عدم اعتماد کیا آئی انکے بولنے کا انداز بدل گیا ،وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرنے جا رہے ھیں اس سے کیا ھو گا صرف اور صرف اس ملک کا نقصان ھو گا ۔اگر عدم اعتماد میں وہ کامیاب ھو گے وہ تو نئے جوش و جذبے کے ساتھ کام کریں اور اپنی پرانی غلطیوں سے سبق حاصل کریں اور اگر وہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے تو چپ کر کے سیدھے گھر جائیں ۔لیکن اس ملک میں عزت کے ساتھ کوئی نہیں جاتا سب کو اقتدار چاہیے اسکی مثال ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہے جو ازل سے ایک دوسرے کے دُشمن ھیں انکی سیاست شروع ہی ایک دوسرے کی مخالف سے ھوتی ھے ۔کئ دہائیوں سے الیکشن کے موقع پر کئ سالوں سے ان جماعتوں کے ووٹرز قتل ھوتے آئے ھیں لیکن یہ آجکل ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ھیں ۔
ساتھ کھڑے ھونے کا مقصد اپنی اولادوں کے مستقبل کو سنوارنا ھے انہیں اس ملک کو وزیر اعظم بنانا ھے ۔مریم نواز شریف جو کہ ابھی تک ایک کونسلر نہیں بن سکیں وہ بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہی ھیں کیونکہ انکے ابا اس ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم بن چکے ھیں دوسری طرف بلاول صاحب اپنی ماں اور نانے کا نام استعمال کر کے وزیر اعظم بننا چاہ رہے ھیں حالانکہ وہ بے نظیر کے نام کو ہٹا کر کچھ بھی نہین ھیں ۔یہ سب لوگ اپنے مفادات کی خاطر اکٹھے ھوئے ھیں ان کا کوئی دین ایمان نہیں ھے کبھی ایک جماعت کے ساتھ کبھی دوسری جماعت کے ساتھ ۔شہباز شریف کبھی کہتے تھے میں میں زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا اب کس منہ سے ساتھ کھڑے ھیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کا ٹھیکہ لیا ھوا ھے نعوز بااللہ اگر یہ لوگ نہیں رہیں گے تو شاہد یہ ملک نہیں چل سکے گا اب آجائیں ق لیگ کی طرف چار سال ھونے والے ھیں حکمرانی کا مزہ لے رہے ھیں انکے پاس شہاز شریف،فضل الرحمان اور وزیر اعظم کیا چل کر آ گئے انکے نخرے ہی نہیں ختم ہوتے ۔اگر موجودہ حکومت وہ بھی شامل ھیں ۔بلکہ آج اگر عمران خان کو چوھدریوں کی ضرورت ھے تو وہ منہ پھر رہے کیونکہ انہیں وزارت اعلی پنجاب چاہیے ۔سیٹیں چند عدد اور وزارتیں بڑی ۔
ایم کیو ایم کی بات کی جائے تو وہ جماعت بھی کسی ایک ساتھ نہیں چل سکی جدھر فائدہ ھوا ادھر جا گھستے ھیں ۔جہانگیر ترین عمران خان کے مخلص دوست تھے اس اکیلے بندے نے جہاز بھر بھر کر اسلام آباد لائے اور عمران خان کو وزیر اعظم بنایا ۔انکی دوستی کی مثالیں ہر زباں پر تھیں لیکن پھر کیا ھوا کسی کو کوئی پتہ نہیں لیکن ایک چینی کا اسکینڈل آیا عمران اور ترین کی راہ جدا ھو گیئں ۔میں سمجھتا ھوں اگر خان صاحب نے ترین کو چینی اسکینڈل کی وجہ سے چھوڑا ھے تو بالکل ٹھیک کیا ھے اس ملک ایک نہیں ایسے ہزار ترین بھی قربان ۔ لیکن کیا ھوا ترین کو سز ملی ؟کدھر گئے وہ کیس ؟مطلب خان صاحب غلط تھے یا ٹھیک ؟ ان سوالوں کا جواب شاہد کبھی نہ مل سکے لیکن ایک بات جو نظر آئی ھے وہ یہ ھے سب مفاد پرست ھیں اس ملک اور قوم کے ساتھ مخلص کوئی نہیں ھے اب آجائیں مولانا کی طرف وہ تو عمران دُشمنی میں پاگل ھو چکے ھیں 23 مارچ والے دن مارچ کا اعلان کر دیا ایک تو پاکستان کے قومی دن کے موقع پر دوسرا او آئی سی کے اجلاس کے موقع پر انہیں لسی صورت میں مارچ نہیں کرنا چاہیے مولانا صاحب بھی کبھی اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔وہ بھی کبھی ادھر کبھی ادھر ۔
آج تک ملک پاکستان کو انکی خدمات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا خاص کر وہ کئ دفعہ کشمیر کمیٹی کے چیر مین رہے لیکن کبھی بھی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا ۔لیکن انکی ساتھ بال برابر بھی مسئلہ ھو تو وہ ڈنڈا بردار فورس لیکر آجاتے ھیں آج تک وہ اس ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکے لیکن وزارت لینا ،اقتدار میں رہنا اپنا حق سمجھتے ھیں -عمران خان جب چاروں طرف سے مشکل میں ھیں عین اس وقت حلیم خان نے اپنا قد کاٹھ بڑا کرنے کے لیے ترین گروپ میں چھلانگ لگا دی عوام نے انکے ووٹیں عمران خان کے نام پر دی ھیں لیکن وہ ترین کی جھولی میں جاگرے ۔حالات کس رُخ پر جاتے ھیں یہ تو آنے وقت میں ہی پتہ چلے گا لیکن اس وقت پاکستان اندرونی مشکلات کا شکار ھے ۔ہمارے سیاستدان مخالفت میں اور اقتدار کے لیے تو ایک ساتھ اکٹھے ھو سکتے ھیں لیکن اس ملک اور قوم کی ترقی کے لیے اکٹھے نہیں ھو سکتے۔
ہمیں مخلص اوع محب وطن سیاستدان کم ہی ملیں گے سب جاگیردار،نواب ،وڈیرے ،بڑی بڑی فیکٹریوں اورانڈسٹریوں کے مالک ھیں ۔ایک عام آدمی کا قومی اسمبلی میں پہنچنا ہی بہت مشکل ھے دیکھ لیں انڈیا کے اندر ایک موبائل رپئیرنگ والا پنجاب کے سابق وزیر اعلی کو شکست دے دتا ھے کاش ایسا پاکستان میں ھوتا ۔ھونا تو چاہیے کہ پروفیسرز ،وکلا ،سٹوڈنٹس اور عام طبقے سے پڑھے لکھے لوگ سیاست کریں اور پھر واپس اپنی فیلڈ میں لوٹ جائیں۔
امریکہ اور دیگر ممالک میں سابق صدور اپنی پرانی زندگی کی طرف واپس چلے گئے ھیں اور ہمارے نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم رہنے کے باوجود سیاست سے ریٹائڑد نہیں ھونا چاہیے ۔زرداری صاحب کو دیکھ لیں ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز رہ چکُے ھیں اب انکی صحت بھی اجازت نہیں دیتی لیکن وہ بھی ریٹائرڈ نہیں ھوں گے۔
چوھدری شجاعت کی حالت دیکھ لیں انکی صحت بالکل اجازت نہیں دیتی لیکن وہ اب بھی سیاست کر رہے ھیں اسی طرح سیکنڑوں بابے اور ھیں جو سیاست سے عزت کے ساتھ ریٹائرڈ نہیں ھو ں گے کیونکہ یہ مرتے وقت تک اپنے آپ کو سیاست سے الگ نہیں کر سکتے ۔شاہد یہی وجہ ھے جس کی وجہ سے نئی نسل سیاست میں قدم نہیں رکھ رہی اور نہ یہ قدم رکھنے دیں گے۔
ہمارا ملک اس وقت نازک مراحل سے گزر رہا ھے ہمیں اپنے وطن سے پیار ھے اللہ تعالی ہمارے ملک کو اس بحران سے نکالے بس یہئ دعا کر سکتے ھیں ۔آمین