وطن عزیز پاکستان میں جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بیرون ملک مقیم ہم وطن زیادہ سنجیدگی سے محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال پہلی مرتبہ نہیں، اس قبل بھی اس کی طرح صورت حال رہی ہے البتہ اس مرتبہ کچھ حالات و واقعات مختلف ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سیاستدان محض مہرے اور شو پیس ہوتے ہیں اقتدار کا سرچشمہ اور طاقت کا مرکز کہیں اور ہوتا ہے اور یہ سب جانتے ہیں۔ سول بیوروکریسی قیام پاکستان کے بعد سے غلام محمد اور چوہدری محمد علی صورت میں اقتدار میں آگئی اور 1952 سے جب جنرل ایوب خان وزیر دفاع بنے تب سے فوج بالواسطہ یا بلاواسطہ اقتدار اعلی کو کنٹرول کرتی رہی اور عدلیہ ان کی معاونت کرتی ہے۔ یہی ٹرائیکا پاکستان کی مختار کل ہے اور مستقبل میں بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ عمران خان کے دور حکومت کے آخری گھنٹوں یعنی ہفتہ 9 اپریل کی شب کو ہونے والے اقدامات کس کے احکامات کے تحت ہورہے تھے۔ پیر 11 اپریل کو نئی حکومت کے آنے سے قبل کس نے عمران خان حکومت کے اعلی عہدیداروں کے نام ایف آئی اے سے سٹاپ لسٹ میں ڈلوائے؟ ظاہر ہے کہ یہ ان قوتوں نے کروایا جو اصل میں اقتدار کا مرکز ہیں؟
سیاسی جماعتوں کی اکثریت خاندانی اور وراثتی کمپنیوں جیسی ہے اور ان کے اندر بھی جمہوریت نہیں ہے۔ عدلیہ کسی بھی معاشرے میں داد رسی کا آخری سہارا ہوتی ہے لیکن پاکستانی عدلیہ کا کردار خوش آیند نہیں اگرچہ انفرادی اچھی مثالیں ضرور موجود ہیں۔ اس وقت بھی پاکستانی عدلیہ معیار کے اعتبار سے دنیا میں 130 ویں درجہ پر ہے۔
پاکستان کے مسائل کی کئی بڑی وجوہات ہیں اور ان میں میری دانست میں سب سے بڑی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی۔ یہی عدلیہ چاہے تو چھٹی والے دن اور رات کو بھی کھل چاہے لیکن جہاں انصاف دینا ہو وہاں دن کے اجالے میں بھی اپنے دروازے بند کرلے۔ جہاں دلچسپی ہو وہاں فیصلہ چار دن میں کردے لیکن جہاں انصاف نہ کرنا وہاں برسوں لگا دے۔ چاہے تو معمولی باتوں پر سو موٹو لے لے اور نہ چاہئے تو بے گناہ شہید ہونے والوں کا خون بھی اسے دیکھائی نہ دے۔ عدلیہ نے عجیب تماشہ لگا رکھا ہے، ایک عدالت نااہل اور عمر قید کی سزا دیتی یے تو دوسری اہل اور باعزت بری کردیتی ہے۔ غریب دھکے کھائیں اور بااثر کو فوری ضمانت دے کر آزاد کردے۔ پاکستانی عدلیہ نے سکھا شاہی یاد تازہ کردی ہے۔ اعلی عدلیہ میں آنے کے لئے صرف سفارش ہی معیار ہے کیونکہ وہاں کوئی امتحان نہیں لیا جاتا۔
آئین پاکستان کے تحت عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے ججوں کے تقرر کے لئے پاکستان کا کوئی بھی ڈہری شہری جو کم از کم دس/پندرہ سال یا مختلف اوقات میں اتنی مدت عدالت عالیہ کا ایڈوکیٹ رہا ہو، ہائی کورٹ/ سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہے۔ ساری خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ ہر حکومت اپنے منظور نظر لوگوں کو جج بناتی جو عدلیہ میں آکر ان کے حق میں فیصلے کرتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ماتحت عدلیہ سے ترقی کرتے ہوئے جج عدالت عالیہ اور عدالت عظمی میں فائیز ہوں جیسا دیگر تمام سروسز میں ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کی یہی خرابی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ جب تک اس میں تبدیلی نہیں کی جاتی تبدیلی تک عدلیہ سے بہتر کارکردگی کی توقع عبث ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہر ادارے میں احتساب کا عمل ہوتا ہے لیکن عدلیہ اس سے مبرا ہے۔ اگر جج ملک قیوم کو سفارشی فیصلے کرنے پر سزا دی گئی ہوتی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ریکوڈک کے کیس میں ملک کو پانچ ارب ڈالر کا نقصان پہنچانے کے جرم میں پوچھا گیا ہوتا تو بہتر مثال قائم ہوتی۔ جو جج حق کی کرے اسے برطرف اور جو سٹیٹس کی حمایت کرے وہ قابل تحسین۔ عدلیہ میں احتساب کا سخت نظام ہونا چاہیے تب تک حالات نہیں بدلیں گے۔ سویڈن میں سپریم کورٹ کی ایک جج کو معمولی جرم میں فوری طور پر برطرفی کرتے ہوئے جرمانہ کی سزا دی گئی۔ ایسا احتساب پاکستان میں بھی ہونا چاہیے وگرنہ یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔