پہلی سعادت(حصہ پنجم)

0

ہم لوگ ساتویں روز مدینہ منورہ روانہ ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔میں نے کیمپ سے اپنا اور علم الدین صاحب کا سامان اٹھا کر ایک بس میں رکھا۔ہمارے ساتھ بہت سے اور بھی زائرین تھے جو مکہ سے مدینہ جا رہے تھے۔میں نے ایک نظر شہر مکہ کے ان رستوں کی طرف نگاہ دوڑائی۔یہاں سے گزر کر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ گئے۔دل ایک بار فرط جذبات سے جھک گیا اور آنکھیں نم ہو گئیں۔ہم مسلمان بھلے ہی کتنے گناہ سہی مگر ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عقیدت رکھتے رہیں۔تھوڑی دیر میں ہی سب مسافر بس میں سوار ہو گئے۔میں اور علم الدین صاحب ایک ساتھ ہی سیٹوں پہ براجمان ہو گئے اور ہم لوگوں کا سفر شروع ہو گیا۔سب جلد از جلد مدینہ پہنچنے کے لئے بے تاب تھے۔بس کے چلتے ہی سب نے سفر کی دعا پڑھی۔سفر شروع ہو چکا تھا۔ہم لوگ دھیرے دھیرے مکہ سے دور ہوتے چلے جا رہے تھے۔بس میں موجود بہت سے لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔

"ہجرت کا وقت ایسا ہی تھا فرزند،فراق کے وقت یہی حالت ہوتی ہے”علم الدین صاحب جو بالکل خاموش تھے بول اٹھے میں نے انہیں نم ہوتی آنکھوں سے دیکھا

"جانتے ہو جب اللہ کے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ چھوڑ کر مدینہ جانے لگے تو ایک نظر انہوں نے مکہ شہر کی طرف دیکھا اور بولے۔اے شہر مکہ تو مجھے بہت عزیز ہے مگر یہاں کے لوگوں نے مجھے ہجرت پہ مجبور کر دیا۔فرزند اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ شہر مکہ چھوڑنا مشکل تھا مگر اللہ کی رضا کے لئے وہ مکہ سے مدینہ گئے۔وہ ایک اونٹنی پہ سوار تھے اور اس وقت ہر طرف صحرا تھا ریت ہی ریت تھی۔ان کے ساتھ ان کے پیارے صحابی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غار یار تھے۔کبھی تصور کرنا جب تم ان رستوں سے گزرو کہ اسلام کی خاطر کتنی قربانیاں دی گئیں۔کتنے لوگ شہید ہوئے اور ہجرت پہ مجبور ہوئے مگر ہم لوگ افسوس کے ساتھ جس قدر ذلت کا شکار ہیں اس میں مذہب سے دوری سب سے بڑی وجہ ہے”

"اپنا ملک چھوڑنا بہت بڑے کرب میں مبتلا کر دیتا ہے بزرگوار۔ہم لوگوں نے اسلام کو چھوڑ کر صرف پیسے کو اہمیت دینا شروع کر دی ہے۔میں یورپ کا مکین اسی لئے ہی تو بنا کہ پیسہ کما سکوں۔ہمیں لگتا ہے کہ پیسہ کما کر ہم اپنی فیملی کو مشکلات سے نکال دیں گے مگر حشر کے دن ہم کیسے اللہ کو جواب دیں گے۔یہ وہی رستہ ہے جہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب نے پیدل سفر کیا یا اونٹنیوں کے ذریعے کھٹن رستوں کو طے کیا۔ہمارے لئے یہ دنوں کا سفر گھنٹوں میں بدل گیا۔مگر ہمارا ایمان کس قدر کمزور ہو چکا ہے”ان کے خاموش ہوتے ہی میں نے بھی ان کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا

"فرزند،ہم پہ کب سختیاں ہوئیں،ہمیں کب مذہبی آزادی سے محروم کیا گیا۔افسوس صد افسوس ہم اپنے مذہب کو صرف اپنے ڈاکومنٹس پہ اندراج کے وقت لکھتے ہیں۔کیا عملی طور پر بھی ہم نے کبھی یہ ثابت کیا کہ ہمارا مذہب اسلام ہے۔فرزند ہم حق راہ سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔امت نے اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے کے ہی گریبان پکڑنے شروع کر دیئے۔مگر حشر کے دن سب راز فاش ہو جائیں گے۔ہم سب کیا ہیں یہ سب ایک دن معلوم ہو جائے گا۔تب معلوم ہو گا کہ ہم کس بات پہ اتنا جھگڑتے رہے۔ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے رہے”

میں ان کی باتیں بہت انہماک سے سن رہا تھا۔ان کے لہجے میں بہت دکھ تھا۔ہم کافی سفر طے کر چکے تھے جب بس غار ثور سامنے آتے ہی چلتے چلتے آہستہ ہو گئی اور پھر کچھ دیر کے لئے رک گئی۔غار ثور ہم سے کچھ ہی فاصلے پر تھی۔

"کیسا وہ منظر تھا جب حضرت ابوبکر کے دوزانو پہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے اور سانپ نے حضرت ابوبکر کی ایڑی پہ ڈس لیا تھا”علم الدین صاحب کے لب پھر سے خوبخود ہلے اور وہ بولتے چلے گئے جبکہ میں غار ثور کو دیکھتے ہوئے کھو سا گیا۔غار ثور اب بھی اس وقت کی یاد دلا رہی تھی۔ہجرت مدینہ کو گزرے چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے مگر چودہ سو سال بعد بھی سب ویسا ہی تھا۔ہم لوگوں نے چند لمحات غار ثور دیکھنے میں بیتا دیئے اور پھر بس پہ سوار ہونے لگے۔بس پہ سوار ہونے کے بعد بھی میری نگاہیں غار ثور کی طرف تھیں۔آنسوئوں کی ایک لڑی آنکھوں سے نمودار ہوئی اور میری گال تر کر کے ٹھوڑی تک چلی گئی۔بس چل پڑی جوں جوں بس آگے بڑھتی جاتی غار ثور نظروں سے اوجھل ہوتی گئی۔ہم لوگ تقربیا پانچ گھنٹے کا طویل سفر طے کر کے مغرب کے قریب اسلام کی پہلی مسجد،مسجد قباء میں پہنچے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک سے تعمیر کی گئی مسجد آج بھی دور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد دلا رہی۔ہم لوگ بس سے اتر کر نماز مغرب کی غرض سے مسجد قباء میں داخل ہو گئے۔کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں مسجد قباء میں پانچ وقت نماز ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔مئوذن نے اذان مغرب کی صدا بلند کی اور تھوڑی دیر میں بہت سے نمازی مسجد میں جمع ہو گئے۔مسجد قباء یکایک نمازیوں سے بھر گئی۔مسجد قباء کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کیا ہماری مساجد ایسے ہی آباد ہیں۔وہاں تو بمشکل ایک ہی صف مکمل ہو پاتی ہے۔مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں کسی کے انتقال پہ افسوس کے لئے گیا۔میرا گزر ایک مسجد کے سامنے سے ہوا۔مجھے سخت پیاس محسوس ہوئی تو میں نے مسجد کے اندر جھانک کر دیکھا۔اس وقت عصر کی اذان ہو چکی تھی۔پیاس سے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگ گئے تھے۔میں نے مسجد میں پڑے کولر سے پانی نکال کر پیا اور پھر پلٹنے لگا تو پیچھے سے امام مسجد نے مجھے آواز دی۔میں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف ہی دیکھ رہے تھے۔میں فورا مسجد سے باہر نکل آیا اور اپنی بائیک کے پاس کھڑا ہو کر کچھ سوچنے لگا۔نہ جانے مجھے کیا خیال آیا کہ میں دوبارہ مسجد میں داخل ہوا اور وضو کر کے امام مسجد صاحب کے پاس جا بیٹھا۔امام مسجد ادھیڑ عمر کے ہو چکے تھے۔

"بیٹا میں نے آپ کو آواز دی آپ نے سنی نہیں شاید مگر آپ مسجد سے باہر جا کر پھر سے واپس آ گئے”امام صاحب نے مجھ سے پوچھا

"وہ بس موٹر سائیکل لاک کرنا بھول گیا تھا اس لئے ذرا لاک کر کے آیا”میں نے صاف جھوٹ بولا

"بہت اچھا کیا بیٹے،لوگ مساجد سے جوتے اٹھا لیتے ہیں کیا باہر پڑی موٹر سائیکل چھوڑ سکتے ہیں”انہوں نے سنجیدگی سے کہا تو میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔نماز کا وقت ہوتے ہی انہوں نے مجھے اقامت پڑھنے کا کہا تو میں نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا دیا۔مجھے اقامت بالکل بھی نہیں آتی تھی۔وہ میری بات سمجھ گئے اور خود ہی کھڑے ہو کر اقامت پڑھنے لگے۔اقامت پڑھ کر میں نے ان کے ساتھ ہی کھڑے ہو کر نماز عصر ادا کی۔سلام پھیرنے تک ہم صرف دو ہی نمازی تھی۔نماز ادا کرنے کے بعد میں نے ان سے مصافحہ کیا اور پوچھا”کیا مسجد میں کوئی اور نمازی نہیں آتا”

انہوں نے سنجیدگی سے میری طرف دیکھا”کیا آپ اس گائوں میں نئے آئے ہو”وہ بولے
"نہیں امام صاحب میں ایک جنازہ پڑھنے آیا ہوں تو اب عصر کے لئے آ گیا”میں نے جواباً کہا

"بیٹا آج پورے ڈیڑھ ماہ بعد کوئی نمازی عصر کی نماز ادا کرنے کے لئے آیا ہے۔ورنہ میں ہر روز صبح فجر اور عصر کی اذان دیتا ہوں اور پھر اکیلا ہی نماز ادا کر کے چلا جاتا ہوں”وہ خاموش ہوئے تو میرا دل ڈوبنے لگا۔کیا ہماری حالت اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ ہمارے پاس نماز ادا کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔میں دیر تک پریشانی کی حالت میں رہا مگر یہ حالت صرف مسجد کے دروازے تک محدود رہی اور مسجد سے باہر نکلتے ہی میں سب بھول گیا مگر مسجد قباء میں مختلف ممالک سے آئے مسلمانوں نے ضرور اپنے محلے کی،گائوں کی اور علاقے مسجد آباد کی ہو گی جب ہی ان کو مسجد قباء میں نماز ادا کرنے کی توفیق ملی۔نماز ادا کرنے کے بعد میرے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے۔دعا کے بعد ہم لوگ مسجد قباء سے باہر تشریف لے گئے۔

"جانتے ہو فرزند،اسلام کی پہلی مسجد یہی مسجد قباء ہے۔اس مسجد کی بنیاد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی۔یہ صرف مسجد کی بنیاد نہیں تھی فرزند،یہ پہلی اسلامی سلطنت کی بھی بنیاد تھی جس کا آغاز مسجد قباء سے ہوا۔آج چودہ سو سال گزر جانے کے بعد یہ اسلامی سلطنت قائم ہے”علم الدین صاحب مسجد قباء میں نماز کے پہلی بار مجھ سے مخاطب ہوئے

"بزرگوار،میں نماز کے بعد سوچ رہا تھا کہ مسجد قباء میں اتنے نمازی کیسے آ جاتے ہیں۔ہماری مساجد میں تو بمشکل ایک صف مکمل ہو پاتی ہے”ان کے خاموش ہوتے ہی میں نے اپنا سوال ان کے گوش گزار دیا

"فرزند،جسے بلاوے کی سعادت نصیب ہو وہی حاضری کے لئے پیش ہوتا ہے۔اس کے نصیب میں ہی دیدار ہوتا ہے”وہ جواباً بولے

"اور ان بلائے جانے والوں میں ایک گناہگار میں بھی ہوں”میں نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی تو انہوں نے مجھے تھپکی دی اور ہم دوبارہ بس میں سوار ہو گئے۔بس مدینہ منورہ کے قریب پہنچ رہی تھی اور دل کی دھڑکن تیز ہوتی چلی جا رہی تھی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد سے پہلے یہ شہر یثرب(بیماریوں کی جگہ) کے نام سے مشہور ہو گیا۔مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک جب اس کی مٹی پہ پڑے تو یہ شہر مدینہ بن گیا۔یہاں بیمار کو شفا مل گئی۔بس اپنی پوری رفتار سے چل رہی تھی۔ہم لوگ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو آنکھیں مسجد نبوی کے سبز گنبد کی متلاشی تھیں۔مجھ جیسے خاکی انسان کی اتنی اوقات کہاں تھی کہ میں خاک مدینہ پہ چند قدم چل سکوں مگر یہ رحمت کی گھڑیاں تھیں اور ہم لوگ رحمت اللعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ پہنچ رہے تھے۔

مسجد قباء میں نماز کی ادائیگی کا لطف اب من میں بھی نقش ہو چکا تھا۔ہم اس وقت مدینہ منورہ میں تھے جب ابر آلود آسمان سے ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو گئی۔کیسا حسین اتفاق تھا کہ جس روز میں خانہ کعبہ آیا اس روز بھی بارش ہوئی اور آج جب میں اللہ کے پیارے پیغمر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ آیا تو یہاں بھی ابر رحمت شروع ہو چکی تھی۔قسمت والوں کے ساتھ ہی ایسے حسین اتفاق ہوتے ہیں۔میں ان ہی سوچوں میں مگن تھا جب بس اپنی مقررہ جگہ پہ رک گئی جہاں سے ہم نے کیمپ کی طرف کوچ کرنا تھا۔میں بچپن میں ایک بار سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد کے بارے پڑھ چکا مگر اس وقت یہ باتیں دل پہ اتنا اثر نہ کر سکیں جتنی پراثر آج لگ رہی تھیں۔مدینہ کے جانثاروں نے کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیسے استقبال کیا وہ بیان سے باہر ہے مگر مدینہ کے در و دیوار آج بھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کی یاد دلا رہے رہے تھے۔میں سب زائرین کے ساتھ علم الدین صاحب کا سامان اٹھائے کیمپ پہنچا۔اس وقت مغرب کا وقت شروع ہونے والا تھا۔ہم لوگوں نے اپنے کیمپ میں سامان رکھا اور مسجد نبوی کی جانب چلنے لگے۔

"کیا یہ کبھی ممکن تھا کہ مجھ جیسا گناہگار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ حاضری کی سعادت حاصل کرتا۔مجھے میری بنجر آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب نکلنے کی امید بھی نہ تھی۔مجھے علم بھی نہیں تھا کہ میرا پتھر دل اس حد تک موم ہو جائے گا۔میں کیا ہوں علم الدین صاحب۔ایک عام بشر،ایک خاکی انسان جس کا توشہ نیکیوں سے بالکل خالی ہے۔آج اپنے گناہوں کی وجہ سے میں جس کرب میں مبتلا ہوں اس سے زیادہ سکون میں بھی ہوں کہ مجھے اس در پہ آ کر اپنے گناہ یاد آئے اور معافی کا موقع ملا۔آخر یہ سب کیوں ہے علم الدین صاحب،ہم انصاف کے قابل نہیں ہوتے اور رحمت کے قابل بنا دیئے جاتے ہیں”مسجد نبوی کی طرف پیدل چلتے ہوئے میں نے علم الدین صاحب کو مخاطب کر کے پوچھا تو انہوں نے اطمینان سے میری طرف دیکھا”فرزند،سعادت نصیب ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے۔حاضری کا شرف ملے تو دیدار لطف دیتا ہے۔ہم انسانوں کی زندگی صرف پیٹ پالنے کی فکر میں گزرتی چلی جاتی ہے حالانکہ اللہ نے ہر انسان کے نصیب میں جو رزق لکھا وہ اسے مل کر ہی رہتا۔فرزند تم کیا اور میں کیا،ہم خاک کے پتلے ایک دن خاک ہو جائیں گے مگر فرزند،اللہ کی رحمت پہ کبھی سوال مت کرنا بس شکر ادا کرنا اور معافی مانگنا۔ہم جیسے کتنے ہی گناہگار اس در پہ بلائے جاتے ہیں۔ہم جیسوں کو ہی سعادت نصیب ہوتی ہے۔تو فرزند گناہوں پہ معافی مانگو اور بلاوے پہ شکر ادا کرو۔یہ بیچ میں تیسری بات جو ہے نا وہ حکمت کی بات ہے اور اللہ کی حکمت انسانوں کی سمجھ میں آنا ممکن ہی نہیں”وہ خاموش ہوئے تو میں مزید الجھ گیا۔مجھے علم الدین صاحب کی باتیں اکثر سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔جب ہم مزید چند گز چلے تو آنکھوں کے سامنے اور ہی منظر تھا۔مسجد نبوی کا کھلا احاطہ دیکھ کر آنکھیں چھلک پڑیں۔مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو سبز گبند دیکھ کر جسم بھی بے جان سا ہو گیا۔مجھ میں مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہی۔شاید محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ ہر امتی بے بس ہو جاتا ہے۔میں اس وقت علم الدین صاحب کے ساتھ کھڑا تھا۔مسجد نبوی نمازیوں سے اس وقت بھر چکی تھی۔ہم لوگ سنہری جالیوں کو چومنے کے لئے بے تاب تھے اور اذان مغرب شروع ہو گئی۔ہم نے وضو کے بعد نماز مغرب ادا کی۔مسجد نبوی میں وہ میری پہلی نماز تھی۔ہم دیر تک وہاں کھڑے درو و سلام پڑھتے رہے۔

"جانتے ہو یہ وہی مسجد ہے جہاں اصحاب سجدے کرتے رہے ہیں۔جہاں اسلام کے عظیم لوگ بھی حاضری کے لیے عقیدت رکھتے ہیں۔فرزند،دنیا کا ہر پیر،ہر ولی در نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ حاضری کی چاہ رکھتا ہے مگر یہ سعادت چنے ہوئے لوگوں کا نصیب بنتی ہے۔ہم میں ہر کوئی بلاوے کا محتاج ہے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت کے بغیر قربِ خدا لا حاصل ہے”ہم لوگ عشاء سے کچھ دیر پہلے مسجد نبوی میں بیٹھ گئے جب علم الدین صاحب نے اپنی بات کی شروعات کی۔

"یہ قرب کیسے حاصل ہوتا ہے۔میں نے تو زندگی میں کبھی مکمل نمازیں نہیں پڑھیں پھر میں کیسے اس کا حق دار بن گیا”میں نے علم الدین صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ کر پوچھا

"فرزند،قربت کا راز تو میں بھی آج تک جان نہیں پایا۔مجھ میں بہت سی خامیاں ہیں۔میں اکثر اعمالِ صالح میں کوتاہی کر جاتا ہوں مگر ہاں فرزند عاجزی،ہر حال میں عاجزی اور تقوی رب کریم کو بہت پسند ہے۔عاجزی کرنے والے ہی فلاح پا سکتے”انہوں نے جوابا کہا

"ہم بہت گناہ گار ہیں بزرگوار۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی پوری پانچ نمازیں نہیں پڑھیں مگر پچھلے سات دن سے میں تہجد تک کی نماز ادا کر رہا ہوں۔مجھے اس بات کا اب ادراک ہوا ہے کہ پانچ وقت کی نماز کے لئے تو اتنا زیادہ وقت نہیں لگتا جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ہم گھنٹوں فارغ بیٹھے رہتے ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے پاس کپڑوں کا بہانہ ہوتا یا وضو نہ ہونے کا۔ہم لوگ نماز کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں مگر نماز تو بہت آسان عمل ہے”ان کے جواب میں میری زبان سے میرے اندر چھپا درد باہر نکلا تو وہ میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھنے لگے۔ان کی آنکھیں نم تھیں اور میں اپنی نم آنکھیں لئے گنبد خضرا کی جانب دیکھنے لگا۔اس وقت عشاء کی اذان کا آغاز ہو چکا تھا اور مئوذن”اللہ اکبر”کی صدا بلند کر کے عشاء کی نماز کا وقت ہونے کی نوید سنانے لگا۔
ازقلم/اویس

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!