پاکستان کے زوال کے اسباب۔ (قسط1)

0

۱۔ سول بیوروکریسی ۔۔ سوال ۔کیسے؟

جواب۔ تنخواہ باقی تمام پروفیشنل سے زیادہ،گھر عوام کے پیسوں سے، گاڑی عوام کے پیسوں سے، بجلی کا بل کوئی نہیں اور وہ بھی عوام ادا کرتے ہیں۔ اور فری بجلی کا نظام یونٹس پر ۔کوئی بھی قیمت ہو انہیں اس سے کیا۔ گاڑی کا پٹرول لیڑرز میں کتنے کا ہے ان کو کیا لینا دینا۔ گھر کے ملازم عوام کے پیسوں سے۔ گھر کو منٹین کرنا عوام کے پیسے سے۔ علاج اندرون اور بیرون ملک عوام کے پیسوں سے۔ عوام کی گاڑیاں اپنی فیملی اور رشتےداروں کے لیے ہر وقت موجود عوام کے پیسوں سے۔محل نما گھر وں کی مینٹیننس عوام کے پیسوں سے کی جاتی ہے۔ عوام کی گاڑیاں گھر لے جاتے ہیں اور مارکیٹ میں لاکھوں کی گاڑیاں کوڑیوں کے حساب میں ہتھیا لی جاتی ہیں۔بندہ مر جائے تو پنشن اس کی فیملی میں گھومتی رہتی ہے اور وہ بھی عوام کا مال۔ پہلے بیوی ، پھر بیٹی اور پھر پتا نہیں کون کون۔

اور ایک استاد کو کیوں ،اس طرح کی سہولت موجود نہیں۔تو بیوروکریٹ کو کیوں؟

بیوروکریٹ جو بنتا ہے وہ ہمارے معاشرے کو سمجھتا ہی نہیں۔ پتا ہے کیوں؟

کیونکہ اس کا ایک ہی کام ہوتا ہے بہت کچھ یاد کرنا اور پھر زیادہ نمبر لینا۔ وہ پبلک کے لیے ہوتا ہی ان فٹ ہے۔ کیسے؟

نہ اس نے اپنے والدین کو کہیں لے جانا ہے، نہ ہسپتال نہ رشتہ داروں کے ہاں ، نہ اس نے باہر جا کے گھر کا سامان لانا ہے نہ پبلک پارکس میں جانا ہے، نہ پھوپھی، چاچی، خالہ کے گھر جانا ہے نہ ہی ان کو کبھی کہیں لے جانا ہے۔ گھر میں کوئی مہمان آ گئے تو اس نے نکڑسے جا کے دودھ یا مرغی نہیں لانی۔ غرض یہ کہ اس کا لوگوں کے ساتھ اور عوام کے ساتھ کوئی کونیکشن ہوتا ہی نہیں ہے اور نہ اس کی اس طرح کی پریکٹس ہے، نہ تجربہ نہ تعلیم۔ اس کے کمرہ میں اے سی ہو گا اور اس کو سخت گرمی کی بھی کوئی عادتنہیں۔

اس طرح کا بچہ بس حکم چلانے کا عادی ہے اور وہ پبلک آفس کے لیے کیسے فٹ ہو سکتا ہے؟

اب اس طرح کا بچہ جب سول سروس میں آتا ہے تو وہ ہر ایک چیز کو اپنا حق سمجھتا ہے اور کیا یہ بچہ عو ام کی خدمت کے لیے آتا ہے؟ کیا جس نے گھر کے مسائل نہیں دیکھے ہوں ، وہ عوام کو ریلیف دے گا؟

پھر یہ لوگ جو سہولیات لیے بیٹھے ہیں ، اسی طرح کی اور بھی سہولیات کے لیے کہ ہم کو آفس میں نیا اے سی، نئی گاڑی، اور گھر کے لیے ملازم ، تنخواہ میں اضافہ کی سمری بنا کر اے سی اپنے ڈی سی کو بھیجتاہے۔ اور ڈی سی اسی طرح کی اور مراط اپنی پوسٹ کے مطابق ڈال کے کمشنر کو بھیج دیتا ہے ، اور وہ اسے سیکرٹری کو بھیج دیتا ہے۔ اور وہ اس میں اضافہ کر کے چیف کو بھیج دیتا ہے۔ اب چیف اپنی حیثیت کے مطابق اس میں اور مراط ڈال کے اس کو بجٹ کا حصہ بنا کر اسمبلی میں بھیج دیتا ہے۔

سیاست دانوں کو کوئی بھی کام کروانا ہو تو وہ بیوروکریسی کو کہتے ہیں ، اور وہ بیوروکریسی کی طرف سے آئے ہوئے کسی بھی بل کو بجٹ سے باہر نکالنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

یہی حال پاکستان کا ہے ۔ اور یہی ہو رہا ہے یہاں۔ ان افسران کو شہنشائوں کی طرح رہنے کی عادت ہے یہ اتنی آسانی سے نہیں جائے گی۔اور یہ ملک کے عوام جتنا کماتے ہیں ان کا ۸۰ فیصد کھا جاتے ہیں ۔ عوام کے نام پر۔ ایک ایک بیوروکریٹ عوام کو کروڑوں روپے ماہانہ پڑھتا ہے۔ جو باقی بچتا ہے ۔ وہ باقی کھا جاتے ہیں وہ اگلی قسط میں۔

یہ بیوروکریٹس جو عوام کے پیسوں پر عیاشیاں کر رہے ہیں یہ کیا اللہ کے اور عوام کے مجرم ہوں گے کہ نہیں؟

اور ان بیوروکریٹس کا محنت کر کے نوکری حاصل کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ عیاشی کرنی ہے باقی عمر۔ لیکن اللہ کے پاس کیا ان کا کوئی اجر رہے گا۔ ؟کیا یہ سہولیات برطانیہ میں کسی بیورو کریٹ کو میسر ہیں؟ یا امریکہ، کینڈا وغیرہ میں؟

پاکستان جب سے بنا ہے اس بیوروکریسی نے اس کو چلنے نہیں دیا کیونکہ ان کو گوروں کے وقت کی عادت ہے۔ وہ گورے جو اپنے ملک میں ایسی کوئی سہولت نہیں رکھتے اور جب وہ برصغیر سے واپس جاتے تھے پبلک آفس چلا کر ان کو و ہاں کوئی اور کام دیا جاتا تھا تا کہ وہ جو کچھ غلام ملک میں کرتے پھرتے تھے وہ یہاں نہ کریں ایک آزاد ملک میں۔

لیکن ہم پر آج بھی وہی لوگ اس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک صورت میں مسلط ہیں۔

جب تک سرکار کے سب ملازموں کو یکساں سہولیات نہیں ہوں گی اور اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ باقی ملازموں کو بھی یہی کچھ دیا جائے ۔ مقصد یہ ہے کہ یہ سب کچھ نہیں دیا جا سکتا۔

کیا عوام یہ افورڈ کر سکتی ہے؟

اور کیا عوام سے پوچھا جاتا ہے کہ ہم اب آپ کے پیسوں سے اپنے لیے ۱۰۰ نئی گاڑیاں لے رہے ہیں کیونکہ پرانی گاڑیاں اب ہم نے تھوڑے پیسے دے کے گھر لے جانی ہیں۔ ؟

یہ عوام پر ظلم کی قسط نمبر ۱ ہے۔ ابھی کافی ساری اقساط باقی ہیں۔

پاکستان کو بہتر کرنے کی پہلی قسط۔سول بیروکریسی کو ختم کر کے عوامی بیوروکیسی لائی جائے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!