ویانا(تارکین وطن نیوز)ہماری زندگی مہنگی ہوتی جارہی ہے،کورونا بحران صورتحال کو نمایاں طور پر مزید خراب کر رہا ہے۔ شماریات آسٹریا کے ابتدائی فلیش تخمینے سے پتہ چلتا ہے کہ نومبر میں قیمتوں میں اوسطاً 4.3 فیصد اضافہ ہوا جبکہ آخری مرتبہ مئی 1992 میں اتنی زیادہ قیمت تھی۔
ریکارڈ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہے،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قیمت کے یہ دھماکے ہمارے بٹوے پر کتنا حملہ کرتے ہیں۔ ایک ایندھن 18 یورو مہنگا ہو گیا ہے۔ نقدی کا خاتمہ ہوتا چلا جا رہا ہے،اکتوبر نے کئی گھریلو بجٹ میں بڑے سوراخ کر دیے۔ صرف حرارتی تیل کی قیمت میں سال بہ سال 60.8 فیصد اضافہ ہوا۔ آسٹریا میں ہمیں فی لیٹر ڈیزل پر 34.8 فیصد زیادہ، سپر کے لیے 29.4 فیصد زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے اب ہم ایک سال پہلے کے مقابلے سپر کے فی ٹینک (ایک اوسط کار کے لیے 50 لیٹر) 18 یورو زیادہ ادا کر رہے ہیں! روزمرہ کی خریداری بھی بڑی چھلانگوں میں بڑھ رہی ہے۔ پچھلے مہینے میں (جب افراط زر صرف 3.7 فیصد تھا)، ٹماٹر 9.4 فیصد، چکن فلیٹ 6.2 فیصد، روٹی اور دودھ میں 4 فیصدسے زائد اضافہ ہوا۔ اجرتوں میں شاید ہی کوئی اضافہ ہو۔
مہنگائی کسی بھی اجرت میں اضافے سے نمایاں طور پر زیادہ ہے جو خزاں کی اجرت کے دوروں کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ سخت گفت و شنید کے بعد دھاتی کام کرنے والوں کو 3.55 فیصدملے، تجارت میں 2.55 فیصد کا پلس نکلا۔
ویسے ہم اپنی مالی پریشانیوں میں اکیلے نہیں ہیں، جرمنی میں افراط زر پہلے ہی 5.2 فیصد تک پہنچ چکا ہے،یہ آخری مرتبہ 1992 میں 5.8 فیصد پر تھا،یہاں بھی توانائی کا سب سے بڑا قرض ہے۔ گروسری کی قیمت میں 4.5 فیصد اضافہ جبکہ کرایوں میں 1.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔